اس صفحہ میں سورہ An-Naml کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
درس نمبر 071 تشریح آیات
1………تا……6
طس تلک ایت القرآن و کتاب مبین (1)
حروف مقطعات دراصل اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ یہ سورت اسی مواد پر مشتمل ہے جو ان حروف سے بنا ہے۔ پورا قرآن بھی اسی سے بنا ہے۔ یہ مواد عام عربی دانوں کے دسترس میں ہے لیکن وہ اس مواد سے ایسی کتاب تصنیف کرنے سے عاجز ہیں۔ باوجود بار بار کی تحدی اور چیلنج کے۔
یہاں کتاب سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ یہاں قرآن مجید پر کتاب (خط) کا اطلاق اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کتاب اور قریش کی جانب سے اس کے حوالے سے ردعمل اور حضرت سلیمان کے خط اور ملکہ سبا کی جانب سے اس کے بارے میں ردعمل کے درمیان مقابلہ کیا جائے ، حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھے۔
اس تمہید اور چیلنج کے بعد قرآن کریم کا ذکر اور اس کی تعریف یوں ہوتی ہے۔
ھدی و بشریٰ للمئومنین (2)
یہ اسلوب اس سے زیادہ بلیغ ہے اگر کہا جاتا ” اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و بشارت ہے۔ “ قرآن جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کتاب کا مواد ہی بذات خود ہدایت و بشارت ہے۔ اس طرح قرآن کریم اہل ایمان کو ان کی زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ہدایت دیتا ہے۔ ہر پہلو سے ہدایت ہے اور انسان کی دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کے لئے یہ کتاب بشارت اور خوشخبری ہے۔
یہ کتاب صرف مومنین کے لئے ہدایت اور بشارت ہے ؟ اس فقرے میں اللہ نے ایک عظیم اور گہری حقیقت کو سمو دیا ہے۔ یہ قرآن کوئی نظریاتی اور فلسفیانہ کتاب نہیں ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اور اس کے مضامین کا انطباق کرے اور ان کو نافذ کر دے تو بس قرآن کا مقصد پورا ہوگیا۔ یہ کتاب سب سے پہلے انسان کے قلب و نظر کو مخاطب کرتی ہے تاکہ وہ اسے ایمان ، احترام اور یقین کے ساتھ قبول کرے۔ کھلے دل سے قبول کرے۔ پھر یہ کتاب اپنا نور ، اپنا خطر اور اپنی حکمت اس کے دل میں ڈال دیتی ہے اور جس قدر قاری کا دل ایمان کی تراوٹ رکھتا ہوگا اسی قدر وہ اس کے مٹھاس کو پائے گا۔ اس کے معانی اس پر کھلتے جائیں گے اور اس کی توجہات اور تاویلات اس کی سمجھ میں آئیں گی۔ کسی سنگدل اور خشک دل و دماغ رکھنے والے انسان پر اس کتاب کے راز نہیں کھلتے۔ اسی طرح ایک مومن صادق کو اس سے وہ ہدایات ملتی ہیں جو منکر حق اور سخت دل کو نہیں ملتیں اور اس کے نور سے وہ شخص ہدایت پاتا ہے جو مومن ہو اور وہ نہیں پاتا جس کا دل و دماغ مسخ ہوچکے ہوں۔
بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی آیت اور کسی سورت کو بار بار پڑھتا ہے۔ وہ غفلت اور جلدی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اچانک اس کے قلب میں روشنی کی ایک چمک اٹھتی ہے۔ اس کے ذہن میں معانی کے جہان روشن ہو کر آجاتے ہیں جن کے بارے میں کبھی اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ یوں اشراق کے بن اوقات میں اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجاتا ہے۔ وہ ایک منہاج سے دوسرا منہاج اور ایک راستہ اختیار کرلیتا ہے۔
غرض قرآن کے اندر جس نظام ، جس قانون اور جن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اس کا دار و مدار ایمان پر ہے۔ لہٰذا جس شخص کے دل میں ایمان نہیں ہے اور وہ اس قرآن کریم کو منجانب اللہ وحی نہیں سمجھتا ہے اور یہ یقین نہیں رکھتا کہ اس کے اندر جو کچھ آیا ہے وہ ایک نظام ہے جسے اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جو شخص قرآن کے بارے میں ایسا ایمان و یقین نہیں رکھتا وہ قرآن کریم سے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ نہ اس میں پھر اس کے لئے کوئی خوشخبری ہے اور نہ کوئی فائدہ۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اندر ہدایت و معرفت اور تحریک اور راہنمائی کے عظیم المقدار خزانے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان خزانوں کے دروازے کھولنے کی چابی ایمان ہے۔ یہ خزانے اس چابی کے بغیر کھل نہیں سکتے۔ جو لوگ صحیح طرح ایمان لے ٓتے ہیں۔ ان ہاتھوں پر ، اس قرآن کے ذریعے ایسے عظیم کارنامے صادر ہوتے ہیں جس طرح پیغمبروں کے معجزات لیکن اگر قرآن کی حیثیت یہ ہوجائے کہ اسے گانے والے ترنم سے گائیں تو اس صورت میں قرآن صرف کانوں کے پردوں سے ٹکراتا ہے ، دلوں تک نہیں اترتا۔ اور اس صورت میں قرآن پھر کوئی تبدیلی نہیں لاتا اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوگا اور اس کی حیثیت اس خزانے کی سی ہوئی ، جس کی چابی نہ ہو۔
اس سورت میں ان مومنین کی تعریف بھی کی گئی جن کے ہاتھ میں قرآن کے خزانوں تک پہنچنے کی چابی ہوتی ہے ، یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔
وہ نماز قائم کرتے ہیں اور نماز کی ادائیگی اس طرح کرتے ہیں جس طرح اس کا حق شبے یوں کہ جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں تو ان کے دل جاگ رہے ہوں اور اس وقت ان کو یہ شعور ہو کہ وہ ذوالجلال والا کرام کے دربار میں کھڑے ہیں ۔ اس وقت ان کی توجہ اس بلند افق پر ہو ، ان کے دل مناجات الٰہی میں مشغول ہوں ، اسے پکار رہے ہوں اور اسکے عظیم دربار میں حاضر ہوں۔
وہ زکوۃ دیتے ہیں ، اس طرح ان کے نفوس کنجوسی کی رذالت سے نجات پا جائیں۔ یوں ان کی روح مال کے فتنوں سے سربلند ہوجائے اور وہ بعض ان نادار بھائیوں کے ساتھ مربوط ہوجائیں اور ان تک رزق پہنچا دیں اور اس طرح اپنی اجتماعی ذمہ داریاں ادا کردیں۔
وہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ ہر وقت ان کو احساس ہو کہ آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دینا ہے۔ ان کا دل امور آخرت میں مشغول ہو ، ان کا دل خدا کے خوف سے بھرا ہو اور انسانی خواہشات ان کے دل پر اثر نہ کرتی ہوں۔ اللہ کی خشیت اور قیامت کے حساب و کتاب کا غم ان کو کھائے جا رہا ہو۔
یہ مومن ، اللہ کو یاد کرنے والے ، اس کے فرائض ادا کرنے والے ، اس سے ڈرنے والے اصحاب خشیت اللہ کے جر اور ثواب کے امیدوار یہ ہیں وہ لوگ جن کے دل قرآن کے لئے کھل جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے قرآن ہدایت و بشارت بن جاتا ہے۔ وہ ان کی روح کا نور بن جاتا ہے ، یہ ان کے خون کو گرم کردیتا ہے اور ان کی زندگی کو متحرک بنا دیتا ہے اور یہ قرآن پھر ان کا زاد راہ بن جاتا ہے جس کے ذریعے وہمنزل مقصود کو پہنچتے ہیں اور اپنے رب سے مربوط ہوجاتے ہیں۔
ذکر آخرت کے حوالے سے مزید تاکید کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ جو آخرت پر پختہ یقین نہیں رکھتے وہ اپنی گمراہی میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اچانک وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔
ان الذین ……یعمھون (4)
حقیقت یہ ہے کہ آخرت پر ایمان وہ قوت ہے جو اس دنیا میں انسانی خواہشات ، اس کے جذبات کو دباتی ہے اور ان کو اعتدال اور توازن بخشتی ہے۔ جو شخص ایمان نہیں رکھتا وہ اپنی کسی خواہش اور کسی میلان کو دبانے کی طاقت اور اخلاقی قوت ہی نہیں رکھتا وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ بابر بعیش کوش کو عالم دوبارہ نیست اور اس عالم میں زندگی بھی مختصر ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر ہم نے اس دنیا میں کوئی عیش اور کوئی لذت ترک کردی یا ہم حاصل نہ کرسکے تو اس زندگی میں ایک منٹ کی توسیع ہوجائے۔ جب سوچ یہ ہوجائے تو کسی کو عیش و عشرت اور لذات و رغبات کے ہاتھوں کون چھڑا سکتا ہے۔ الا یہ کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑ آجانے کا ایمان اپنے اندر پیدا کر دے۔ قیامت کے دن کے ثواب اور اجر کا امیدوار ہو اور آخرت کی سزائے خائف ہو جہاں تمام لوگ کھڑے ہوں گے۔
لہٰذا جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ان کے لئے ہر قسم کی شہوات اور لذات کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے۔ وہ بغیر خوف خدا ، بغیر خوف آخرت اور پھر بلاشرم و حیا ان کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ نفس کی فطرت اور پیدائش اس پر ہے کہ یہ لذت کا دلدادہ ہے۔ یہ حسن پرست اور جمال پر مٹنے والا ہے۔ الایہ کہ اسے آیات الہیہ اور رسول ان کریم کی راہنمائی نصیب ہوجائے اور وہ اسے دائرہ ایمان کے اندر لے آئیں اور وہ سمجھ لے کہ یہ جہاں تو فانی ہے۔ جب کوء نفس یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے اعمال کا رنگ بدل جاتا ہے۔ اس کا عالم اشواق بدل جاتا ہے۔ اسے پھر اچھے کاموں میں اسی طرح لذت آتی ہے جس طرح مادی لذت ہوتی ہے بلکہ پیٹ اور جسم کی لذت پھر اسے نہایت ہی حقیر و قلیل نظر آنے لگتی ہے۔
یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے۔ اسے اس قابل بتایا ہے کہ اگر اس کا دل ہدایت کے لئے کھل جائے تو وہراہ ہدایت پا سکے۔ اور اگر اس کا دل بجھ جائے اور شمع ایمان گل کردی جائے تو پھر وہ گمراہی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا ہے۔ پھر اس انسانیت کی ہدایت پر ضلالت کے لئے اس نے ایک سنت بھی جاری کردی ہے اور اس کے مطابق وہ ہدایت پاتا ہے یا راہ ضلالت اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ صراحت کردیتا ہے اور خدا اسے اپنا فعل بتاتا ہے کہ وہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔
ربنا لھم اعمالھم فھم یعمھون (82 : 3) ” ہم نے ان کے کرتوتوں کو ان کے لئے خوشنما بنا دیا ہے ، اس لئے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ “ چونک وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، اس لئے اس پر اللہ کی سنت کا نفاذ ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کے اعمال اور ان کی لذات اور خواہشات ان کے لئے خوشنما بنا دی جاتی ہیں۔ یہاں تزئین اعمال یعنی اعمال کو مزید بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس طرح بھٹکتے ہیں کہ جس شہر میں یہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں اس شہر نہیں سمجھتے۔ اس لئے یہ شر کے چکر میں رات دن بڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کو اس کا شعور ہرگز نہیں ہوتا۔
اور جس شخص کے لئے شر کو مزین کردیا گیا ہو اس کا انجام سب کو معلوم ہے۔
اولئک الذین لھم شوآء العذاب ……الاخسرون (5)
چاہے یہ برا عذاب ان کو دنیا میں ملے یا آخرت میں۔ لیکن مکمل خسارہ آخرت کا خسارہ ہے۔ وہ انسان کے اعمال کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جتنا کوئی برائی کی طرف مائل ہوتا ہے اسی قدر وہاں اس کی سزا سخت ہوتی ہے۔
اب اس سورت کی اس تمہید کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اے نبی ، تم جس مصدر سے قرآن پا رہے ہو یہ تو حلیم و حکیم کا سرچشمہ ہے۔
وانک ……لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم (6)
“ تلفی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے آپ کو علیم و حکیم ذات کی طرف سے براہ راست ہدایات دی جا رہی ہیں اور یہ ذلت ہر چیز کو حکیمانہ انداز میں بنانے والی ہے اور ہر معاملے کی تدبیر علم سے کرنے والی ہے اور اس ذات کے علم و حکمت کا ایک نمونہ یہ قرآن ہے۔ اپنے منہاج کے اعتبار سے ، اپنے احکام و فرائض کے لحاظ سے ، اپنی ہدایات اور طریقہ کار کے لحاظ سے ، اپنی آیات و احکام کے نزول کے اعتبار سے ، اپنے اجزاء کے تسلسل اور اپنے مضامین و موضوعات کے توازن اور ہم آہنگی کے اعتبار سے۔
اب قرآن کریم قصص کو لیتا ہے اور ان قصص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی حکمت اور الل ہ کی نہایت ہی خفیہ تدابیر اس کائنات میں اور اس قرآن میں کس قدر موثر ہیں۔
درس نمبر 171 تشریح آیات
7……تا……41
حضرت مسویٰ (علیہ السلام) کے قصے کا یہ حلقہ نہایت اختصار اور تیزی سے اسکرین پر آتا ہے اور گزر جاتا ہے اور سیاق کلام میں یہ آیت
وانک لتلقی ……علیم (82 : 6) ” اے نبی ، بلاشبہ آپ یہ قرآن ایک حکیم وعلیم کی طرف سیپا رہے ہیں “ کے بعد متصاد آتا ہے۔ اب گویا بتایا جاتا ہے کہ نزول قرآن کا یہ علم کوئی انوکھی بات نہیں ہے ، تمام انبیاء اللہ سے ہدایات اور کتب پاتے رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ کا حال بطور نمونہ پیش کریں کہ یہ فریضہ ان کو بھی سونپا گیا۔ وہ فرعون اور اس کے سرداروں اور قوم کے پاس گئے اور قوم نے تکذیب کی۔ جس طرح آج قریش تکذیب کر رہے ہیں۔ جس طرح قوم موسیٰ کو یقین تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو آیات و معجزات پیش کرتے ہیں وہ حق ہیں اور پھر بھی انکار کرتے تھے اور یہ انکار ظلم اور تکبر کی وجہ سے تھا ، یہی روش آج قریش کی ہے لیکن
فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین (82 : 31) ” دیکھ لیں کہ مفسدین کا انجام کیسا ہوا۔ “ یہی انجام قریش کا بھی ہوگا۔ جو محض غرور کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔
سورة طہ میں بھی اس قصے کی یہ کڑی لائی گی تھی ۔ جب آپ مدین سے مصر کی طرف لوٹ رہے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر بھی رفیق تھیں۔ ایک ادھیری سیاہ اور سردرات میں آپ سے راستہ گم ہوگیا تھا۔ حضرت کے الفاظ ” میں تو ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے آتا ہوں یا کوئی انکار اچن لاتا ہوں تاکہ تم گرم ہو سکو۔ “ اس وقت حضرت موسٰ کوہ طور کے ایک طرف تھے۔ اور اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ بلند ٹیلوں پر ات کے وقت آ گ چلائی جاتی تھی۔ تاکہ اگر کوئی مسافر بھٹک جائے تو اس کی راہنمائی ہو۔ ایسی صورت میں جب کوئی مسافر آتا تو اسے مہمان نوازی بھی ملتی اور وہ سردی میں اپنے آپ کو گرم بھی کرتا اور صحراء میں راستے کی راہنمائی بھی ہوتی۔
انی انست نارا (82 : 8) ” مجھے ایک آگ سی نظر آنی ہے “ دور سے انہوں نے آگ کو دیکھا تو ان کو ایک گونہ اطمینان حاصل ہوگیا اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ اس آگ کے پاس جا کر انہیں کچھ نہ کچھ راہنمائی مل جائے گی یا وہ کوئی انگارا لے آئیں گے جس سے وہ آگ جلا کر اس صحراء میں اپنے آپ کو گرم کرسکیں گے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کی طرف آگے بڑھے جسے انہوں نے دیکھا تھا تاکہ وہ وہاں سے کوئی خبر لائیں۔ اچانک یہاں انہیں ایک نہایت ہی معزز اور شاہانہ آواز آتی ہے۔
فلما جآء ھا نودی……الحکیم (9)
یہ وہ پکار ہے جس کے ساتھ پوری کائنات ہمقدم ہے اور جس کے ساتھ تمام جہان اور تمام آسمان ہم آہنگ ہیں۔ تمام کائنات اس کے سامنے سہمی ہوئی ہے اور انسان روح اور ضمیر اسے سن کر کانپ اٹھتا ہے۔ یہ وہ آواز ہے جس کے ساتھ زمین و آسمان کا اتصال ہے اور انسان جو ایک چھوٹا سا ذرا ہے وہ عظیم اور بلند ذات کی آواز کو پاتا ہے اور ایک فانی اور ضعیف انسان ایک لافانی اور قوی ذات باری کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے اور یہ مقام اسے محض فصل رب تعالیٰ سے ملتا ہے۔
فلما جاء ھا نودی (82 : 8) ” جب وہ وہاں پہنچا تو ندا آئی۔ “ پکارا گیا ، یہاں قرآن پکارنے والے کا نام نہیں لیتا ، لیکن وہ معلوم ہے۔ یہ نام نہ لینا اور ماضی مجہول کا صیغہ احترم ، تعلظیم اور جلالت شان کبریائی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
نودی ان بورک من فی النار ومن حولھا (82 : 8) ” پکارا گیا کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس کے ماحول میں ہے۔ “ آگ میں کون تھا اور آگ کے ماحول میں کون تھا ؟ راجح تفسیر یہی ہے کہ یہ آگ دیسی آگ نہ تھی جسے ہم جلات یہیں بلکہ یہ ایک ایسی آگ تھی جس کا مصدر عالم بالا تھا۔ یہ وہ آگ تھی جسے پاک فرشتوں نے عظیم ہدایت کے لئے روشن کیا تھا اور یہ آگ کی طرح نظر آرہی تھی اور یہ پاک روحیں اس میں تھیں لہٰذا یہ ندا کہ جو اس آگ میں ہے وہ مبارک ہے۔ یہ اعلان تھا کہ اس آگ اور اس کے اردگرد جو پاک روحیں ہیں وہ بابرکت ہیں۔ اور اس آگ کے ماحول میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے اور پوری کائنات نے اس اعزاز کو ریکارڈ کردیا کہ یہ خطہ زمین اس پوری کائنات میں بابرکت جگہ ہے ، ایک مقدس مقام ہے اور اس میں اس پر اللہ ذو الجلال کی تجلیات اور برکات کا نزول ہوا ہے اور پھر اس جگہ کے تقدس اور برکت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی ریکارڈ کردیا گیا ” کہ پاک ہے ، اللہ سب جہان والوں کا پروردگار ، اے موسیٰ ! میں اللہ زبردست اور دانا۔ “
وسبحن اللہ رب العلمین (82 : 8) یموسی انہ انا اللہ العزیز الحکیم (82 : 9) اس آیت میں اللہ نے اپنی ذات کی پاکیزگی اور پورے جہان کے لئے اس کی ربوبیت کا اعلان کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ جو آواز آرہی ہے وہ میں ہوں جو عزیز و حکیم ہوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات کے ذریعے پوری انسانیت کو یہ بلندی بخشی گئی اور وہ کائنات کے آسمان پر ایک چمکتا ہوا تارا بن گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس آگ کے پاس سے بہت بڑی خبر مل گئی جو انہوں نے دور سے دیکھی تھی لیکن یہ عظیم خبر ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ آپ کو گرمانے والا انگارا بھی مل گیا مگر وہ عوام کو راہ ہدایت کی طرف لانے کی آگ تھی۔
یہ آواز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو چننے کے لئے تھی اور ان کے ذمہ فریضہ رسالت عائد کرنے کے لئے تھی اور پیغام بھی ان لوگوں تک پہنچانا تھا جو اس کرہ ارض کے عظیم ترین سرکش تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کو اس کام کے لئے تیار فرماتا ہے اور تربیت دیتا ہے اور دلائل و معجزات کے ساتھ مسلح کرتا ہے۔
والق عصاک
یہ یہاں بات اختصار سے کی جاتی ہی اور سورة طہ کی طرح طویل مناجات نہیں ہے۔ یہاں مقصد آواز دینا اور فریضہ عائد کرنا ہے۔ “
فلما راھا تھتز کانھا جآن ولی مدبراً ولم یعقب ط
حضرت مسویٰ نے حکم کے مطابق عصا پھینکا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک سانپ ہے اور زمین پر رینگ رہا ہے ۔ جیسا کہ چھوٹے اور سریع الحرکت سانپ تیزی سے دوڑتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انفعالی طبیعت کے مالک تھے۔ یہ اچانک منظر ان کے لئے غیر متوقع تھا۔ حضرت اس سانپ سے دور بھاگ گئے اور واپس نہ دیکھا۔ یہ ایک ایسی حرکت تھی جو غیر متوقع اور اچانک پیش آجانے کی صورت میں ہر انسان سے صادر ہوتی ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مزاج بھی ایسا تھا کہ وہ جلد متاثر ہوتے تھے۔
اب پھر عالم بالا سے آواز دی جاتی ہے۔ اطمینان عطا کرنے والی آواز اعلان کیا جاتا ہے آپ کا منصب رسالت ہے اور کسی رسول کے لئے ڈرنا مناسب نہیں ہے۔
یموسیٰ لاتخف انی لایخاف لدی المرسلون
’ آپ گھبرائیں نہیں۔ آپ کے اس قدررسالت کا منصب اور فرائض ہیں اور رسول اللہ کے دربار میں ہوتے ہیں اور وہاں ، ان کے ڈرنے کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔
الا من ……رحیم (11)
ہمارے ہاں تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو ظالم ہیں الا یہ کہ ظلم کے بعد وہ نیک ہوجائیں تو بھی معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے ظلم ترک کر کے عدل اپنا لای ہے۔ شرک کو چھوڑ کر توحید کا عقیدہ اپنا لیا ہوتا ہے۔ شر کو چھوڑ کر خیر کی راہ لے لی ہے۔ میری رحمت وسیع ہے اور میری مغفرت بہت بڑی ہے۔
اب حضرت مسویٰ کو اطمینان اور قرار نصیب ہوگیا۔ اب اللہ آپ کو دوسرا معجزہ عطا فرماتا ہے لیکن ابھی تک ان کو رسالت کی مہم نہیں بتائی گئی کہ جانا کہاں ہے۔
وادخل یدک ……سوآء
یہ عمل بھی ایسا ہی ہوا حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالا اور جب نکالا تو وہ بغیر بیماری کے چمک رہا تھا۔ یہ کوئی مرض نہ تھی بلکہ معجزہ تھا اور اللہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اس قسم کی نونشانیاں او معجزات تمہیں دیئے جائیں گے جن میں سے دو کا مشاہدہ اور مظاہرہ تم نے دیکھ لیا ۔ اب حضرت موسیٰ کے سامنے اس مہم کا انکشاف کیا جاتا ہے جو انہوں نے سر کرنی ہے اور جس کے لئے ان کو یوں تیار کیا گیا۔
فی تسع ……فسقین (41)
” یہ (دو نشانیاں) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لئے) وہ بڑے بدکردار لوگ ہیں۔ “
یہاں باقی نشانیاں نہیں گنوائی گئیں جبکہ سورة اعراف میں تفصیلات دی گئی ہیں جو یہ ہیں ، خشک سالی ، پیداوار کی کمی طوفان ، ٹٹڈی دل کا حملہ ، جوئیں اور مینڈک اور خون کیوں کہ سورة اعراف میں موضوع سخن یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام بڑی قوی نشانیاں دی گئی تھیں لیکن پھر بھی فرعون نے انکار کیا۔ بہرحال ان نشانیوں کی وضاحت کافی اور شافی ہونے کے باوجود قوم نے انکار کردیا۔
فلما جآء تھم ……المفسدین (41)
یہ بیشمار نشانیاں ، حق کو باطل سے واضح کرنے والی نشانیاں ، ایسی نشانیاں کہ جس کو اللہ نے دو آنکھیں دی ہیں وہ انہیں دیکھ سکتا ہے۔ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نشانیاں مبصر ہیں یعنی وہ دیکھنے والی ہیں۔ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو راہ ہدایت کی طرف لانے والی ہیں۔ لیکن وہ لوگ ایسے ہٹ دھرم تھے کہ ان کو بھی انہوں نے کہا کہ سحر مبین ہے ، کھلا جادو ہے۔ یہ نہیں کہ وہ دل سے کہتے تھے یا وہ فی الواقعہ ایسا سمجھتے تھے یہ تو انہوں نے محض ظلم اور علوم کی وجہ سے کہا۔ ان کے دل و دماغ تو اس پر مطمئن تھے کہ یہ حق ہے۔ بالکل ان کو کوئی شبہ نہ تھا۔
واستبف تھا انفسھم (82 : 31) ” حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ “ محض ہٹ دھرمی اور مکا برہ کی وجہ سے کیونکہ یہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے اور نہ کوئی دلیل وہ طلب کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنے آپ کو سچائی سے برتر سجھتے تھے اور اپنے نفوس پر ظلم کر رہے تھے کیونکہ قبول حق میں خود ان کی بھلائی تھی۔
بعینہ یہی حال اکابرین قریش کا بھی تھا۔ یہ قرآن کریم کو سنتے تھے ، ان کو اچھی طرح یقین تھا کہ یہ حق ہے لیکن محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے تھے اور نبی ﷺ کی دعوت کا انکار کرتے تھے یہ دعوت صرف اللہ وحدہ کی طرف تھی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ہر حال میں اپنے دین اور عقائد پر قائم رہنا چاہتے تھے کیونکہ اس دین میں ایسے اصول تھے جن کی وجہ سے ان کو مسند حاصل تھی۔ کچھ مفادات حاصل تھے اور یہ مسندیں اور مفادات ان عقائد باطلہ پر مبنی تھ۔ دعوت اسلامی سے ان کے لئے خطرہ ہی یہ تھا۔ اس کی کامیابی سے ان کے یہ مفادات ختم ہوجائیں گے اور ان کا مقام و مرتبہ جاتا رہے گا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے قدموں کے نیچے سے زمین نکلی جا رہی ہے اور ان کے عقائد اور شعور کے اندر ایک زلزلہ برپا ہے اور قرآن کو ” حق مبین “ تھا اور اس کی کارگر ضربات ہر وقت ان پر لگتی رہتی ہیں۔
سچائی کا انکار ہمیشہ اس لئے نہیں ہوتا کہ لوگ اسے جانتے نہیں ہیں ، بلکہ سچائی کا انکار اس لئے ہوتا ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان کے نفوس اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر ان منکرین کو اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے حالات اپنے مفادات اور اپنی مصلحتوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ حق کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ سچائی واضح اور بین ہوتی ہے۔
فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین (82 : 31) ” اب دیکھو کہ مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ “ فرعون اور اس کی قوم کا انجام کیا ہوا۔ قرآن نے دوسری جگہ اس کی پوری تفصیلات دی ہیں۔ یہاں صرف اشارہ کردیا۔ شاید کہ انکار کرنے والوں میں سے کچھ عقلمند مان جائیں۔ قبل اس کے کہ ان کا وہ انجام ہو جو فرعون کا ہوا۔