سورۃ الحشر (59): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hashr کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحشر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحشر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hashr
سُورَةُ الحَشۡرِ
صفحہ 545 (آیات 1 سے 3 تک)

سورۃ الحشر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحشر کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اللہ ہی کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہی غالب اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sabbaha lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 1{ سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج } ”تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمان میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے۔“ المُسَبِّحات کے سلسلے کی پہلی سورة یعنی سورة الحدید کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے : { سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج }۔ یہاں ”مَا فِی“ کا اضافہ ہے ‘ جس سے گویا مفہوم میں مزید زور emphasis پیدا ہوگیا ہے۔ باقی ساری آیت کے الفاظ وہی ہیں۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ”اور وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔“ اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘ لیکن وہ اپنے اختیارات کا استعمال بہت حکمت سے کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee akhraja allatheena kafaroo min ahli alkitabi min diyarihim liawwali alhashri ma thanantum an yakhrujoo wathannoo annahum maniAAatuhum husoonuhum mina Allahi faatahumu Allahu min haythu lam yahtasiboo waqathafa fee quloobihimu alrruAAba yukhriboona buyootahum biaydeehim waaydee almumineena faiAAtabiroo ya olee alabsari

آیت 2{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ } ”وہی ہے جس نے نکال باہر کیا ان کافروں کو جو اہل کتاب میں سے تھے ان کے گھروں سے ‘ پہلے جمع ہونے کے وقت۔“ یہ یہودی قبیلہ بنو نضیر کی مدینہ منورہ سے جلاوطنی کے واقعہ کا ذکر ہے۔ اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ حضور ﷺ کی ہجرت کے وقت مدینہ یثرب میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع ‘ بنونضیر ُ اور بنوقریظہ آباد تھے۔ حضور ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے فوراً بعد ان قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو تاریخ میں ”میثاقِ مدینہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بنیادی طور پر یہ مدینہ کے ”مشترکہ دفاع“ کا معاہدہ تھا۔ ان میں سے قبیلہ بنوقینقاع نے تو معاہدے کے کچھ ہی دیر بعد مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ چناچہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی بنا پر حضور ﷺ نے غزوئہ بدر کے بعد اس قبیلہ کو مدینہ بدر کردیا۔ غزوئہ احد 3 ہجری کے بعد قبیلہ بنو نضیر نے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کی وقتی شکست سے ان کی کمزوری کا تاثر لے کر جہاں عرب کے بہت سے دوسرے قبائل نے سر اٹھانا شروع کیا ‘ وہاں یہ قبیلہ بھی اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی میں شامل ہوگیا۔ ان کے سردار کعب بن اشرف نے قریش مکہ سے گٹھ جوڑ کر کے انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کی باقاعدہ دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ تم لوگ باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ اسی دوران کعب بن اشرف نے حضور ﷺ کو نعوذباللہ شہید کرنے کی ایک سازش بھی تیار کی۔ اس کے لیے ان لوگوں نے حضور ﷺ کو کسی اہم بات چیت کے بہانے اپنے ہاں بلایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ کسی دیوار کے بالکل ساتھ آپ ﷺ کی نشست کا انتظام کیا جائے اور جب آپ ﷺ وہاں بیٹھے ہوں تو دیوار کے اوپر سے چکی کا بھاری پاٹ آپ ﷺ پر گرا دیا جائے۔ آپ ﷺ ان کے بلانے پر ان کے محلے میں تشریف لے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے جب وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو ان کی اس گھنائونی سازش سے آگاہ کیا تو آپ ﷺ واپس تشریف لے آئے۔ بنونضیر کی ان ریشہ دوانیوں اور مسلسل بدعہدی کی وجہ سے بالآخر ربیع الاول 4 ہجری میں حضور ﷺ نے ان کے خلاف لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ البتہ جب مسلمانوں نے ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کیا تو انہوں نے چند دن محصور رہنے کے بعد لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کی جان بخشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا ‘ بلکہ آپ ﷺ نے مزید نرمی فرماتے ہوئے انہیں یہ اجازت بھی دے دی کہ جاتے ہوئے وہ جس قدر سامان اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے ہیں ‘ لے جائیں۔ غزوئہ احزاب 5 ہجری کے بعد بنوقریظہ کو بھی ان کی عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس طرح یہود مدینہ کے تینوں قبائل میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کے باعث ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ آیت میں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ کا ایک مفہوم تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ ہی جب ان پر لشکرکشی کی تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے علاوہ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ سے جلاوطنی تو ان لوگوں کا پہلا حشر ہے ‘ پھر ایک وقت آئے گا جب انہیں خیبر سے بھی نکال دیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جزیرہ نمائے عرب کو بھی خیرباد کہنا پڑے گا چنانچہ حضرت عمر رض کے دور میں تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا اور پھر ایک حشر وہ ہوگا جو قیامت کے دن برپا ہوگا۔ { مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا } ”اے مسلمانو ! تمہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے نکل جائیں گے“ { وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ } ”اور وہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لیں گے“ { فَاَتٰـٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاق } ”تو اللہ نے ان پر حملہ کیا وہاں سے جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا۔“ { وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ } ”اور ان کے دلوں میں اس نے رعب ڈال دیا“ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو جس طریقے سے چاہے ہزیمت سے دوچار کر دے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قدر مرعوب کردیا کہ وہ اپنے مضبوط قلعوں کے اندر بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور اپنے تمام تر وسائل کے باوجود بھی مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ { یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَق } ”وہ برباد کر رہے تھے اپنے گھروں کو ‘ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور اہل ایمان کے ہاتھوں سے بھی۔“ چونکہ انہیں یہ اجازت مل چکی تھی کہ اپنے سامان میں سے جو کچھ وہ اپنے ساتھ اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں اس لیے وہ اپنے گھروں کی دیواروں اور چھتوں میں سے دروازے ‘ کھڑکیاں ‘ کڑیاں ‘ شہتیر وغیرہ نکالنے کے لیے خود ہی انہیں مسمار کر رہے تھے۔ ان کی اس تخریب میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ہوگا۔ { فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔ } ”پس عبرت حاصل کرو اے آنکھیں رکھنے والو !“ یہ گویا پیچھے رہ جانے والے قبیلے بنی قریظہ کو سنایا جا رہا ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے اس انجام سے عبرت حاصل کرو اور سازشوں سے باز آجائو !

اردو ترجمہ

اگر اللہ نے اُن کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا، اور آخرت میں تو ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ہی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walawla an kataba Allahu AAalayhimu aljalaa laAAaththabahum fee alddunya walahum fee alakhirati AAathabu alnnari
545