سورہ عبسہ (80): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Abasa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ عبس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ عبسہ کے بارے میں معلومات

Surah Abasa
سُورَةُ عَبَسَ
صفحہ 585 (آیات 1 سے 42 تک)

عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ أَن جَآءَهُ ٱلْأَعْمَىٰ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُۥ يَزَّكَّىٰٓ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ ٱلذِّكْرَىٰٓ أَمَّا مَنِ ٱسْتَغْنَىٰ فَأَنتَ لَهُۥ تَصَدَّىٰ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ وَأَمَّا مَن جَآءَكَ يَسْعَىٰ وَهُوَ يَخْشَىٰ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ كَلَّآ إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَن شَآءَ ذَكَرَهُۥ فِى صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۭ بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ قُتِلَ ٱلْإِنسَٰنُ مَآ أَكْفَرَهُۥ مِنْ أَىِّ شَىْءٍ خَلَقَهُۥ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُۥ فَقَدَّرَهُۥ ثُمَّ ٱلسَّبِيلَ يَسَّرَهُۥ ثُمَّ أَمَاتَهُۥ فَأَقْبَرَهُۥ ثُمَّ إِذَا شَآءَ أَنشَرَهُۥ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ أَمَرَهُۥ فَلْيَنظُرِ ٱلْإِنسَٰنُ إِلَىٰ طَعَامِهِۦٓ أَنَّا صَبَبْنَا ٱلْمَآءَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا ٱلْأَرْضَ شَقًّا فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا حَبًّا وَعِنَبًا وَقَضْبًا وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَآئِقَ غُلْبًا وَفَٰكِهَةً وَأَبًّا مَّتَٰعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَٰمِكُمْ فَإِذَا جَآءَتِ ٱلصَّآخَّةُ يَوْمَ يَفِرُّ ٱلْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِۦ وَأَبِيهِ وَصَٰحِبَتِهِۦ وَبَنِيهِ لِكُلِّ ٱمْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَفَرَةُ ٱلْفَجَرَةُ
585

سورہ عبسہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ عبسہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAabasa watawalla

یہ ہدایات جو اس متعین واقعہ کے حوالے سے دی گئی ہیں بہت ہی اہم ہدایات ہیں ، بادی النظر میں انسان ان کو پڑھ کر جو کچھ سمجھتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ یہ ایک معجزہ ہے ، یہ ایک حقیقت ہے جسے اس کرہ ارض پر ایک زندہ اور عملی حقیقت بنایا گیا ہے۔ یہ ایک عظیم معجزہ ہے۔ انسانی زندگی کو اس معجزے نے یکسر بدل دیا۔ اور یہ اسلام کا پہلا اور نمایاں معجزہ تھا۔ یہ ہدایات اگرچہ بظاہر ایک معمولی انفرادی اور جزوی واقعہ کے حوالے سے آئی ہیں لیکن اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوتی ، کیونکہ یہ قرآن کریم کا ایک ربانی انداز ہے کہ وہ ایک لامحدود اور نہایت ہی گہری اور تمام حقیقت ایک محدود اور ظاہری واقعہ کے ضمن میں بیان کردیتا ہے۔

اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو جو حقیقت یہاں ان ہدایات میں ذہن نشین کرائی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرے کے اندر جو عملی نتائج پیدا ہورہے ہیں وہ تو عین اسلام ہے۔ یہی اسلام ہے جو ہر آسمانی رسالت نے پیدا کیا ، اور اس کا پودا زمین کے اندر لگایا۔

یہ گہری حقیقت جو ان ہدایات کے ضمن میں بیان کی گئی ہے۔ محض یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے افراد کے ساتھ برتاﺅ کس طرح ہو ، غرباء کے ساتھ کیا ہو اور امراء کے ساتھ کس طرح ہو ، جیسا کہ بظاہر اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ حقیقت اس سے ذرا گہری ہے ، بہت بڑی ہے۔ وہ یہ ہے کہ معاملات کے وزن اور قدر کا اسلامی پیمانہ کیا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی قدریں اور پیمانے کہاں سے لینے ہیں۔

ان ہدایات کے ذریعہ جس حقیقت کو استقلال بخشا گیا ہے کہ لوگوں کو اپنی اقدار صرف آسمانی حوالوں سے اخذ کرنی ہیں۔ ان کے پیمانے آسمان سے متعین ہوکر آئیں ، زمین اور اہل زمین کے ہاں کیا کچھ رائج ہے۔ یہ اسلامی نظروں میں کچھ نہیں ہے ، اہل دنیا کی اقدار کیا ہیں۔ یہ اسلامی نگاہ میں غیر متعلق بات ہے۔

اب معلوم ہوگا کہ یہ تو ایک عظیم معاملہ ہے اور اس کرہ ارض پر اس معیار کو قائم کرنا مشکل کام ہے۔ زمین کے اوپر زمین کے لوگ وہ قدریں اور پیمانے آسمان سے اخذ کریں جن کے اوپر زمین اور اہل زمین کی کوئی چھاپ نہ ہو ، اور زمین کے رواج اور حوالوں سے وہ خالی ہوں یہ فی الحقیقت ایک عظیم امر ہے۔

ان ہدایات کی عظمت اور ان کی عملی مشکلات کا اندازہ تب ہوتا ہے جب ہم انسان کی پیچیدہ عملی زندگی کا گہرا مطالعہ کریں اور یہ اندازہ کریں کہ انسانی نفس ، انسانی شعور پر ان کا دباﺅ کیا ہوتا ہے۔ انسان کے لئے واقعی حالات ، زندگی کے دباﺅ اور پریشر ، لوگوں کے خاندانی اور معاشی روابط کے بندھنوں سے نکلنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ انسان کی موروثی قدریں ، تاریخی روایات اور تمام دوسری قدریں جو اسے زمین کے ساتھ مضبوطی سے باندھ رہی ہوتی ہیں اور جن کا دباﺅ نفس انسانی پر بہت سخت ہوتا ہے۔

اور یہ معاملہ اس وقت بھی عظیم اور مشکل نظر آتا ہے ، جب ایک انسان دیکھتا ہے کہ اس مسئلے پر سرور کونین کو بھی اللہ کی طرف سے ہدایات کی ضرورت پیش آئی بلکہ یہ ہدایات سخت عتاب کی شکل میں دی گئیں اور آپ کے طرز عمل پر بارگاہ رب العزت کی طرف سے تعجب کا اظہار کیا گیا۔

کسی معاملے کی عظمت اور اس کے مشکل الحصول ہونے کے لئے صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت پیش آئی اور آپ کو ہدایت دی گئی اور تنبیہہ کی گئی کہ آپ کو یہ اعلیٰ معیار قائم کرنا ہے۔ یہ اس لئے کہ آپ کی عظمت ، آپ کی بلندی اور رفعت اس بات کی دلیل ہے کہ اگر آپ کو بھی اس معاملے کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے تو یہ معاملہ فی الواقع بہت عظیم اور یہ معیار مشکل الحصول ہے۔ یہ ہے اس معاملے کی اہمیت اور حقیقت ، جسے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ایک واقعہ اور حقیقت نفس الامری کے طور پر اس انفرادی واقعہ کی صورت میں ، ایک مثال ، معیار اور ماڈل کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ لوگ اس میزان اور معیار کے مطابق اپنا طرز عمل درست کریں۔ اور نبی ﷺ کے اسوہ ، نمونہ اور عملی زندگی سے اپنے لئے میزان اور معیار اخذ کریں۔ یوں یہ واقعہ اور یہ ہدف ایک عظیم ہدف بن جاتا ہے۔ قرآن وسنت دراصل وہ پیمانہ ہے جسے اللہ نے رسولوں کو عطا کیا ، ان پر نازل کیا تاکہ لوگ ان کے مطابق اپنے اعمال اور طرز عمل کو درست کریں ، اس سلسلے میں یہ میزان کیا ہے ؟ یہ ہے۔

ان اکرمکم ................ اتقکم ” تم میں سے معزز اللہ کے نزدیک ، وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے “۔ بس یہی وہ وزن ہے جس کے مطابق کسی کا پلڑا بھاری ہوگا اور کسی کا ہلکا ہوگا۔ اور یہ خالص آسمانی قدروقیمت ہے۔ آسمانی پیمانہ ہے اور اس کا زمین کے حالات وروایات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن لوگ تو اس زمین پر رہتے ہیں اور یہاں ان کے درمیان قسم قسم کے روابط ہیں۔ ہر رباطے کا ایک وزن ، ایک دباﺅ اور ایک کشش ہے۔ ان کی اقدار مختلف ہوتی ہیں۔ نسب ، قوت ، مال اور ان تینوں کی بنیاد پر قائم ہونے والے روابط ومفادات ، اقتصادی اور غیر اقتصادی روابط جن میں بعض لوگوں کے حالات دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ نسب ، مال اور قوت کے لحاظ سے اس زمین پر بعض لوگوں کا وزن زیادہ اور بعض کا کم ہوتا ہے۔

جب اسلام آتا ہے ، تو اس کا اعلان یہ ہوتا ہے۔

ان اکرمکم ........................ اتقکم ” تم میں سے معزز اللہ کے نزدیک ، وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے “۔ تو وہ ان تمام روابط ، اقدار اور تعلقات سے صرف نظر کرلیتا ہے۔ حالانکہ ان چیزوں کا ان کی عقلیت اور شعور پر دباﺅ ہوتا ہے۔ ان میں جاذبیت ہوتی ہے۔ انسانوں کے فہم و شعور میں اس کی گہری جڑیں ہوتی ہیں۔ اسلام ان تمام چیزوں کو بدل کر انسانوں کو آسمانی قدریں دیتا ہے اور یہ آسمانی قدریں اور پیمانے صرف ایک معیار کو تسلیم کرتے ہیں کہ جو متقی ہے وہ مکرم ہے اور بس۔

ایک واقعہ ، جزئی اور متعین واقعہ پیش آتا ہے اور اس کے ضمن میں یہ اصول اور یہ بنیادی قدر متعین ہوجاتی ہے کہ یہ آسمان سے نازل شدہ پیمانہ اور یہ قدر و قیمت آسمانوں سے مقرر ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کا فریضہ یہ ہے کہ لوگ ہر اس چیز کو ترک کردیں جو لوگوں کے ہاں عرف اور متعارف ہو ، جو زمینی تصورات ، زمینی اقدار اور عرف پر مبنی ہو ، اور صرف ان قدروں اور پیمانوں کو اپنائیں جو آسمان سے نازل ہوں۔

ایک فقیر اور اندھا آتا ہے۔ نام عبداللہ ابن ام مکتوم ہے۔ یہ رسول اللہ کے ہاں آتا ہے تو آپ قریش کے سرداروں سے محوگفتگو ہیں۔ ان کو دعوت دین ہی دی جارہی ہے۔ عتبہ ، شیبہ ، یہ دونوں سردار ربیعہ کے مشہور بیٹے ہیں۔ ابوجہل (عمر ابن ہشام) امیہ ابن خلف ، ولید ابن مغیرہ اور عباس ابن عبدالمطلب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ حضور کو یہ امید ہے کہ ان لوگوں کا اسلام اس وقت تحریک کی مشہلات میں کمی کردے گا۔ کارکنوں پر مظالم ہورہے تھے اور یہ چند افراد اپنے مالی ، جانی اور سیاسی حیثیت کے تمام وسائل کو اسلام کی راہ روکنے کے کام میں جھونک رہے تھے۔ اور لوگوں کو اسلام کی راہ سے روک رہے تھے۔ اور وہ اسلام کے خلاف ہر سازش کررہے تھے کہ اسے مکہ کے اندر ہی منجمد کرکے رکھ دیں جبکہ دوسری اقوام مکہ سے باہر غیر جانب دار کھڑی تھیں اور باہر کی اقوام اس دعوت کو اس لئے قبول نہیں کررہی تھی کہ خود اہل مکہ اس کی راہ روکنے کے لئے کھڑے تھے۔ سخت مخالفت کررہے تھے ، اور اس وقت کے قبائل نظام میں اگر کوئی قبیلہ بھی کسی سردار کی بات کو مان کر نہیں دیتا تو اس کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔

یہ فقیر اندھا شخص حضور ﷺ کے پاس آتا ہے اور حضور اکرم ﷺ ان اکابر قریش کے ساتھ مصروف ہیں۔ اپنے کسی ذاتی معاملے میں نہیں ، کسی ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ دعوت اسلام کے کام اور مفاد میں مصروف گفتگو ہیں۔ اگر یہ لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو مکہ میں دعوت اسلامی کے راستے سے تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ اور اس کی راہ سے تمام نوکدار کانٹے چنے جاتے ہیں اور اسلام مکہ کے اردگرد کے علاقوں میں بھی پھیل جاتا ہے۔ کیونکہ ان اکابر کے اسلام لانے کے بعداسلام تیزی سے پھیل جاتا۔

یہ صاحب حضور اکرم ﷺ کے پاس اس حال میں آتے ہیں اور کہتے ہیں حضور مجھے اس علم میں سے کچھ پڑھائیے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ وہ بار بار اس بات کی تکرار کرتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ حضور مصروف ہیں تو حضور اکرم ﷺ ان کے ان فعل اور ان کی اس بات کو پسند نہیں کرتے اور آپ کے چہرے پر کراہت کے آثار نمودار ہوتے ہیں اور یہ شخص ان آثار کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ آپ ترش روئی اختیار کرتے ہیں اور منہ پھیر لیتے ہیں کیونکہ یہ شخص آپ کو ایک نہایت اہم معاملے سے روک رہے ہیں۔ یہ معاملہ اس لئے اہم ہے کہ اگر یہ کام ہوجاتا تو دعوت اسلامی کو بہت فائدہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ کام آپ دین اسلام کے فائدے اور مدد کے لئے کررہے ہیں ، خالص دینی فائدے کے لئے۔ اسلام کی مصلحت کی خاطر اور اسلام کے پھیلانے کی چاہت کے جذبے سے۔

لیکن آسمانوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ سا لئے مداخلت ہوتی ہے کہ اس موضوع پر فیصلہ کن بات کردی جائے تاکہ دعوت اسلامی کے طریق کار میں کچھ نشانات راہ رکھ دیئے جائیں اور وہ ترازو قائم کردیا جائے جس سر اسلامی نقطہ نظر سے اقدار کو تولا جائے گا۔ اور اس کے مقابلے میں تمام حالات اور تمام مقاصد ترک کردیئے جائیں گے یہاں تک کہ خود اللہ کے دین کی مصلحت کو بھی نظرانداز کردیا جائے گا۔ اگر چہ انسان اس معیار کے خلاف کسی چیز کو دعوت اسلامی کے لئے مفید سمجھتے ہوں۔ بلکہ اگرچہ سید البشر ﷺ کسی ایسی چیز کو دعوت اسلامی کے لئے مفید سمجھتے ہوں۔

چناچہ عالم بالا سے نبی کریم ﷺ کے لئے عتاب آتا ہے اور نبی کریم تو خلق عظیم کے مالک ہیں اور محبوب رب العالمین ہیں لیکن یہ عتاب نہایت ہی شدید اسلوب میں آتا ہے۔ پورے قرآن میں اس قسم کے سخت عتاب کی یہ واحد مثال ہے جس میں لفظ کلا استعمال ہوا ہے جو سختی سے تردید کے لئے آتا ہے اور جھڑکی کے موقعہ پر استعمال ہوتا ہے اور یہ اس لئے کہ یہ میزان وہ ہے جس کے اوپر پورا دین قائم ہے۔

جس اسلوب اور انداز میں یہ عتاب فرمایا گیا ہے وہ ایک منفرد انداز ہے۔ انسانی اسلیب اس کی نقل یا ترجمانی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ انسانی تحریر کی زبان کی کچھ حدود ہیں اور کچھ طریقے ہیں۔ انسانی اسلوب تحریر میں ایسے گرم اور سخت اشارات نہیں سموئے جاسکتے جو زندہ وتابندہ ہوں۔ یہ قرآن کریم کا اعجازی انداز گفتگو ہے جو اس قسم کے اشارے چند مختصر الفاظ میں کردے اور عتاب کی ایک جھلک سی دکھادے۔ ایسے انداز میں کہ گویا وہ نہایت ہی تیز تاثرات ہیں ، زندہ صورت میں ہیں ، مخصوص اثر اور انداز رکھتے ہیں۔

عبس .................... الاعمی (2:80) ” ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا “۔ یہ گفتگو اس انداز کی ہے کہ گویا ایک غیر موجود اور غائب شخص کے بارے میں بات ہورہی ہے اور وہ مخاطب نہیں ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے ، بات اللہ کے نزدیک بڑی ناپسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مناسب نہ سمجھا کہ اس کا تذکرہ اپنے نبی اور محبوب کو براہ راست خطاب کرکے کرے۔ یہ اس لئے کہ آپ اللہ کو بہت محبوب ہیں اور اللہ آپ کا اکرام فرماتا ہے اور براہ راست خطاب نہیں فرمارہا کہ تم نے ایسا کیا۔ کیونکہ بات بڑی ناپسندیدہ ہے۔ اس کے بعد بات کا انداز بدلتا ہے۔ اصل بات کا تذکرہ کیے بغیر آپ سے خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ اور خطاب بات کو یوں شروع کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اِس بات پر کہ وہ اندھا اُس کے پاس آ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An jaahu alaAAma

اردو ترجمہ

تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yudreeka laAAallahu yazzakka

وما یدریک ............ الذکری (4:80) ”” تمہیں کیا خبر ، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لئے نافع ہو “۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ عظیم بھلائی وقوع پذیر ہوجائے ، یہ کہ یہ اندھا فقیر پاک وصاف ہوجائے جو نہایت شوق سے آپ کے پاس آیا ہے ، ہدایت چاہتا ہے اور جب آپ اس کو ہدایت دیں تو اس کے لئے نفع بخش ہوجائے اور اس کے دل میں نور ربانی روشن ہوجائے اور زمین پر وہ اس طرح ہوجائیں جس طرح منارہ نور ہوتا ہے۔ اگر ایک دل میں ایمان بیٹھ جائے اور پوری طرح بیٹھ جائے تو اللہ کے نزدیک یہ ایک عظیم کام ہے۔

اب اس عتاب کا لہجہ ذرا اور تیز ہوتا ہے۔ بات کے اندر بھی ذرا سختی آجاتی ہے۔ اور یہ اظہار شدید عتاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

اردو ترجمہ

یا نصیحت پر دھیان دے، اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw yaththakkaru fatanfaAAahu alththikra

اردو ترجمہ

جو شخص بے پروائی برتتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amma mani istaghna

اما من .................... عنہ لتھی (5:80 تا 10) ” جو شخص بےپروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے ؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور ڈر رہا ہوتا ہے ، اس سے تم بےرخی برتتے ہو “۔ یعنی جو آپ سے ، آپ کے دین سے ، آپ کے پاس موجود ہدایت ، بھلائی سے ، نور اور طہارت سے جو قرآن کریم کی شکل میں ہے ان سب خزانوں سے بےپروائی برتتا ہے تو ایسے شخص کو آپ اہمیت دیتے ہیں ، اس کی ہدایت کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ آپ اس کے درپے ہوتے ہیں اور وہ آپ سے منہ موڑارہا ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faanta lahu tasadda

اردو ترجمہ

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama AAalayka alla yazzakka

وما ............ یزکی (7:80) اگر وہ پاکیزگی اختیار نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے “۔ اگر وہ اپنی موجودہ گندی حالت اور ناپاکی کو جاری ہی رکھنا چاہتا ہے تو آپ پر کیا ذمہ داری ہے۔ اس کے کرتوتوں کی باز پرس آپ سے نہ ہوگی۔ آپ نہ اس کے ذمہ دار ہیں ، نہ اس کا مواخذہ آپ سے ہوگا۔ اور وہ جو آپ کے پاس دوڑ کر آتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man jaaka yasAAa

جاءک یسعی (8:80) نہایت مطیع فرمان ہوکر اور اللہ کی خشیت رکھتا ہے تو

اردو ترجمہ

اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa yakhsha

اردو ترجمہ

اس سے تم بے رخی برتتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faanta AAanhu talahha

فانت ................ تلھی (10:80) ” آپ اس سے بےرخی برتتے ہیں “۔ یہ نہایت ہی شدید عتاب ہے تلہی کے معنی کسی شخص کو چھوڑ کر دوسری طرف مشغول ہونا۔

اب اس عتاب کا لہجہ ذرا اور سخت ہوجاتا ہے اور جھڑکی اور سختی سے تردید کے مقام تک قہنچ جاتا ہے۔

کلا ہرگز نہیں ، یہ ممکن نہیں ، یہ ایک ایسا انداز خطاب ہے جس پر غور کرنا چاہئے ، ایسا ہرگز نہ ہوگا۔

اس کے بعد دعوت اسلامی کی حقیقت ، اس کی عظمت اور اس کی بلندی کو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی دعوت ہے جو کسی کی محتاج نہیں ہے۔ اس کو کسی کی سند اور سہارے کی ضرورت نہیں ہے اور اس دعوت کی نظر میں وہی شخص قابل لحاظ ہے جو دعوت اسلامی کو صرف دعوت کی خاطر قبول کرتا ہے ، دنیا میں اس کے حالات اور اس کی حیثیت جو بھی ہو۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla innaha tathkiratun

انھا تذکرة ................................ کرام بررة (11:80 تا 16) ” یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں ، بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ ہیں ، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں “۔ گویا یہ دعوت ہر لحاظ سے ایک قابل قدر دعوت ہے۔ اس کے صحیفے بھی مکرم ہیں۔ بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں اور عالم بالا میں ان کا انتظام اور ان کی تبلیغ ایسے ہاتھوں میں دیا گیا ہے جو نیک اور معزز ہیں۔ لہٰذا دعوت اسلامی کے ساتھ جو بھی منسلک ہے ، دور سے یا نزدیک سے ، وہ مکرم اور نیک ہے اور اس دعوت کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے ، جو اس سے منہ موڑتے ہوں اور بےپروائی برتتے ہوں۔ یہ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی برتری اور اس کی پاکیزگی کے قائل ہیں اور جو اس سے پاکیزگی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

یہ ہے معیار ، اللہ کا مقرر کردہ معیار۔ اسی میزان کے مطابق میں ہمیں لوگوں کے اور اپنے اعمال اور اپنی حیشایت کو وزن کرنا ہوگا۔ یہ اللہ کا حکم ہے ، اللہ کا کلام ہے۔ اور اس کے مقابلے میں کسی بات کا کوئی وزن ہی نہیں رہتا ، ہر فعل اور ہر حکم اس سے فروتر ہے۔

یہ حکم کہاں دیا گیا اور یہ واقعہ کہاں پیش آیا ؟ مکہ میں ، جبکہ دعوت اسلامی کا ہر طرف سے پیچھا کیا جارہا تھا ، مسلمان بہت ہی کم تعداد میں تھے۔ اور نبی ﷺ ان بااثر لوگوں کی طرف کسی ذاتی مقصد کے لئے بھی متوجہ نہ تھے۔ اور اس اندھے سے لاپروائی کسی ذاتی غرض کے لئے نہ تھی۔ حضور کے پیش نظر بھی صرف اور صرف دعوت اسلامی کا مفاد تھا لیکن اس دعوت کا ترازو یہ تھا۔ اس کی قدریں دوسری تھیں اس نے تو لوگوں کے لئے قدروں کا تعین کرنا تھا ، روایات کی تخلیق کرنی تھی ۔ یہ دعوت تب ہی کامیاب ، باوقار اور مضبوط ہوسکتی جب وہ ایسے پیمانے قائم کردیتی۔

یہ فقط ایک انفرادی واقعہ نہ تھا ، یہ ایک عظیم اصول تھا۔ نہ ایک معمولی اخلاقی برتاﺅ کا معاملہ تھا ، معاملہ یہ تھا کہ ایک اصولی اور دستوری مسئلہ درپیش تھا کہ لوگ نیک وبد کے پیمانے کہاں سے اخذ کریں۔ کیا زمین کے رسم و رواج سے یا آسمانی ہدایات سے ، زمینی اور عوامی زاویوں سے یا بارگاہ رب العزت سے ، جہاں سے یہ اصول وضع ہوا ہے۔

ان اکرمکم ................ انفسکم ” تم میں سے اللہ کے نزدیک معززوہ ہے جو تم میں سے متقی ہے “۔

اس دعوت اور اس تحریک میں وہی قابل لحاظ ہے جو اللہ کے نزدیک قابل لحاظ ہے۔ اگرچہ دنیاوی اعتبار سے وہ ان عناصر سے محروم ہو جو لوگوں کے نزدیک وزن دار ہیں۔ جن مناظر کا لوگوں پر دباﺅ ہے اور جن کو دنیا والوں کے نزدیک اہم سمجھا جاتا ہے ، مثلاً نسب وحسب ، افرادی اور مالی قوت ، اور دوسری قابل لحاظ باتیں۔ اگر یہ چیزیں ایمان سے خالی ہوں اور ان کے ساتھ تقویٰ کا رنگ نہ ہو ، تو اس دعوت میں ان کا کوئی وزن نہیں ہے۔ اس تحریک کے زاویہ سے اہم بات اور سب سے مقدم بات یہ ہے کہ ایک شخص اپنے حالات ایمان اور تقویٰ کے اعتبار سے درست کام کرے۔

اس واقعہ ، انفرادی اور جزوی واقعہ کے حوالے سے ، اللہ تعالیٰ اس عظیم حقیقت اور اس عظیم اصول کو ذہن نشین کرانا چاہتا تھا اور قرآنی انداز اصلاح اور تربیت کے عین مطابق ، جس میں ایک انفرادی واقعہ سے ایک عظیم اصول نکال کر لوگوں کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ یہ اصول پھر دستوری قاعدہ بن جاتا ہے۔

حضرت محمد ﷺ کی شخصیت ان ہدایات اور اس عتاب سے بےحد متاثر ہوئی۔ آپ نے نہایت جوش و خروش سے ان ہدایات کو قبول کیا اور ان پر عمل کرکے اس اصول اور دستور کو اسلامی معاشرے میں نافذ کیا۔ اس نئی جماعت کی عمارت اس اصول پر استوار ہوئی کہ یہ اسلامی معاشرے کی خشت اول تھی۔

آپ کا پہلا فرض یہ قرار پایا کہ آپ اس واقعہ کو قرآن کی ایک سورت کے طور پر خود بیان کریں۔ یہ ایک عظیم بات تھی۔ یہ خدا کا رسول ہی کرسکتا تھا۔ جس پہلو سے بھی ہم اس پر غور کریں۔ انسان اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے۔ یہ رسول خدا ہی تھے جنہوں نے اس عتاب الٰہی کا برملا اعلان فرمایا اور یہ اعلان بھی اس منفرد انداز میں فرمایا۔ اگر نبی کے سوا کوئی اور لیڈر ہوتا تو وہ اپنی غلطی کا احساس کرلیتا ، آئندہ احتیاط کرتا ، لیکن اللہ کے نبی کا مقام تو کچھ اور ہوتا ہے۔ منصب نبوت کے آفاق تو کچھ اور ہوتے ہیں ، بہت بلند اور بہت دور رس۔

یہ نبی ہی تھا جو نہایت ہی مشکل اور نازک حالات میں ، قریش کے ایک بااثر اور مقدر لوگوں کے سامنے اس اصول کا اعلان کردیں۔ جبکہ اس نئی دعوت کے مقابلے میں یہ بااثر لوگ اپنے مالی افرادی اور خاندانی عزت وجاہ کے سب وسائل لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں جس میں حسب ونسب اور عزت وجاہ کے سوا کوئی اور قدر رائج نہ تھی ، اس میں بات صرف یہ ہوتی تھی۔ محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ، ابن ہاشم اور لوگ کہتے تھے۔

لولا انزل ................................ عظیم ” یہ قرآن دو گاﺅں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہیں اترا “۔ حضور ﷺ تو ان کے اندر صاحب نسب تھے ، لیکن رئیس نہ تھے اور وہ تو صرف جاہ واقتدار کے پجاری تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاشرے میں ایک نبی اور وحی الٰہی ہی اس قسم کا عظیم انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ زمین پر رہنے والا کوئی شخص اور دنیاوی ذہن سے سوچنے والا کوئی فرد ایسا انقلابی اقدام نہیں کرسکتا اور خصوصاً ایسے حالات اور ایسے وقت میں جن میں حضور اکرم ﷺ دعوت اسلامی کا کام کررہے تھے۔

یہ آسمانی قوت اور آسمانی ہدایت ہی تھی جس نے اس معاملے کو اس انداز پر چلایا ، یہ اصول نبی ﷺ کی ذات کے ذریعہ ان مشکل حالات میں نافذ کیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے نافذ کیا ، نہایت جوش و خروش ، نہایت قوت اور مضبوطی کے ساتھ اس دستور کو اس نئی سوسائٹی کی بنیادوں کے اندر رکھ دیا اور یہ امت مسلمہ کی زندگی میں ایک طویل عرصہ تک قائم ودائم رہا۔

یہ دراصل انسانیت کے لئے ایک دوسرا جنم تھا۔ جس طرح ایک انسان فطرتاً پیدا ہوتا ہے ، بلکہ انسانیت کا یہ جنم دراصل زیادہ قیمتی تھا۔ اس طرح کہ انسانی سوسائٹی ، کسی سرزمین میں متعارف جاری وساری قدروں کو خیر باد کہہ دے اور ایسی قدروں کو اپنا لے جو بالکل نئی ہوں۔ آسمانوں سے نازل شدہ ہوں۔ نئے تصورات ، نئے نظریات آجائیں ، ان تصورات ، نظریات ، حالات اور عملی روابط اور رسم و رواج کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ اور لوگ ان سابقہ تصورات اور روابط کے دباﺅ سے یکلخت آزاد ہوجائیں اور ان کے اندر جدید تصورات اور جدید قدریں رچ بس جائیں۔ وہ ان کو خوب سمجھ لیں۔ سب کے سب ان کو تسلیم کریں۔ اور یہ عظیم انقلاب برپا ہوجائے۔ یہ جدید قدریں مسلم سوسائٹی کے ضمیر میں نمایاں ہوں۔ اس کے قوانین میں واضح ہوں ، تو فی الواقعہ یہ انسانوں کے لئے ایک نیا جنم تھا۔ یہ عظیم انقلاب تھا جس کے برپا کرنے کے لئے ذات محمدی کو بھی تنبیہہ اور ہدایت کی ضرورت پیش آئی اور یہ انقلاب ابتدائی دور کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک طویل عرصے تک نمایاں رہا۔

ہم جدید دور کے لوگ دراصل اس عظیم انقلاب اور انسانیت کے اس جدید جنم کو کماحقہ سمجھ نہیں پا رہے ، اس لئے کہ ہمنے اس دنیا اور اس زمین کی قدروں ، زمین کے روابط اور اس دنیا کی حیشلیت اور نظریات کو ترک کرکے اپنے آپ کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھالا۔ ہم پر مادیت اور مادی قدروں اور دنیاوی تصورات کا اس قدر غلبہ ہے کہ ہمارے دور کے بعض جاہل جو تاریخ کا مادی فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ یہ سمجھنے لگے ہیں ، کہ عقائد و تصورات اور اعلیٰ قدریں اور علوم وفنون دراصل مادی حالات اور مادی اور معاشی قدروں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام رسوم ورواجات اور اصول وقوانین جو اصل معاشی قدروں کی پیداوار ہوتے ہیں ، یہ لوگ بےحد جاہل ہیں اور یہ نفس انسانی کے نشیب و فراز سے بالکل ناواقف ہیں۔ بہرحال اسلام نے جو انقلاب رونما کیا وہ ایک معجزہ تھا اور انسانوں کے لئے ایک نیا جنم تھا۔

انسانیت کے اس نئے جنم کے بعد اور اس عظیم انقلاب کے بعد ، دنیا کی فضا پر یہ قدریں حاوی رہیں ، لیکن ایک عربی معاشرے میں ان کا حاوی ہونا اس قدر آسان نہ تھا ، نہ مسلمانوں کے نفوس پر ان کا حاوی ہونا کوئی سہل الحصول ٹارگٹ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اپنے ذاتی کمالات ، پھر ارادہ الٰہی ، پھر خدا کی طرف سے ہدایات وتصرفات اور پھر قرآن کریم کی ہدایات پر گرم جوشی سے عمل پیرا ہونے کے شوق کی وجہ سے ، ان عظیم اصولوں اور قدروں کو لوگوں کے شعور اور ضمیر میں بٹھایا ، ایک پودے کی طرح ان کے دلوں میں یہ نئی اخلاقیات اور قدریں کاشت کی گئیں ، پھر ان کی سخت نگہداشت کی گئی تاکہ ان کی جڑیں مضبوط ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی پر صدیاں گزر گئیں لیکن یہ قدریں اپنی جگہ جمی ہوئی ہیں حالن کہ ان صدیوں میں باد مخالف کے بڑے بڑے طوفان گزر گئے اور بیشمار عوامل ان قدروں کے خلاف کام کرتے رہے۔

اس واقعہ کے بعد حضور اکرم ﷺ کی جب بھی ابن ام مکتوم کی ملاقات ہوئی ، آپ ان کو ان کلمات کے ساتھ خوش آمدید کہتے۔” آئیے صاحب تمہاری وجہ سے مجھے اللہ جل شانہ نے سختی سے ٹوکا “۔ حضور اکرم ﷺ نے اس اندھے فقیر کو دو بار اپنی زندگی میں مدینے کا گورنر بنایا۔

عربی معاشرے میں کسی کو رشتہ دینا ، ایک بڑا احساس مسئلہ تھا۔ اس معاملے میں جہاں لڑی کی جاتی تھی ، ان لوگوں کے لئے سخت معیار تھا ، آپ نے اپنی پھوپھی زاد زینب بنت جحش اسدیہ کو اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے نکاح میں دلوایا تاکہ ان جاہلی قدروں پر ضرب لگائی جاسکے۔

اس سے قبل جب آپ کے مدینہ میں مواخات کا نظام قائم کیا تو اپنے چچا حمزہ کا بھائی اپنے اسی آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو بنادیا۔ اور حضرت بلال ابن رباح کو حضرت خالد ابن رویحہ الخثعمی کا بھائی بنادیا۔

حضرت زید کو غزوہ موتہ میں امیر بنایا۔ یہ اس غزوہ کے پہلے امیر تھے۔ اس کے بعد جعفر ابن ابوطالب کا نمبر تھا ، پھر عبداللہ ابن رواحہ انصاری کا۔ اس لشکر میں تین ہزار انصار اور مہاجرین تھے جن میں خالد ابن ولید بھی تھے۔ اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے حضور ﷺ خود نکلے۔ اس جنگ میں یہ تینوں شہید ہوگئے تھے۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ اور آپ کے آخری احکامات میں سے یہ حکم تھا کہ آپ نے حضرت اسامہ ابن زید کو رومیوں کے ساتھ جنگ کے لئے کمانڈر مقرر کیا۔ اس لشکر میں بیشمار انصار اور مہاجرین شامل تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر ؓ وحضرت عمر ؓ جیسے لوگ بھی تھے جو آپ کے ساتھی اور وزیرومشیر تھے اور جو آپ کے بعد خلیفہ تھے۔ نیز حضرت سعد ابن وقاص بھی تھے جو آپ کے قریبی بھی تھے اور قریش میں سے قدیم الاسلام تھے۔

بعض لوگوں نے حضرت اسامہ کی امارت پر تعجب کا اظہار بھی کیا ، کیونکہ وہ بالکل کم عمر نوجوان تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں ، ” حضور ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر اسامہ ابن زید کو امیر مقرر فرمایا ، بعض لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو آپ نے کہا اگر تم اسامہ ابن زید کی امارت میں طعن کرتے ہو تو تم نے اس سے قبل ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا ، خدا کی قسم ! وہ امارت کے اہل تھا اور مجھے سب لوگوں میں نہایت محبوب تھا اور یہ بھی مجھے تمام لوگوں سے محبوب ہے “۔ (شیخین اور ترمذی)

اور جب سلمان فارسی ؓ کے بارے میں بعض لوگوں نے نازیبا الفاظ کہے اور عربی اور فارسی کے حوالے سے بات کی۔ اور ان باتوں سے محدود عربی قومیت کی بو آتی تھی ، تو حضور اکرم ﷺ نے اس تصور پر بھی ایک فیصلہ کن ضرب لگائی اور فرمایا : ” سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے “۔ اور حضرت مسلمانوں کو آسمانی قدروں نے تمام گری ہوئی دنیاوی قدروں سے آگے بڑھا دیا اور وہ ایک لمحے میں آفاق سے بھی آگے بڑھ گئے اور محدود قومیت کی لکیریں مٹا دی گئیں جو عربوں کے نزدیک بہت اہم تھیں اور سلمان کو اہل بیت کا فرد قرار دیا (طبرانی وحاکم) ۔

جب حضرت ابوذر غفاری ؓ اور حضرت بلال ؓ کے درمیان تکرار ہوگئی اور حضرت ابوذر ؓ کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا ” اے سیاہ فام عورت کے لڑکے “ تو اس پر حضور اکرم ﷺ شدیدطور پر غضب ناک ہوگئے اور اس بات کو حضرت ابوذر ؓ کے منہ پر مار دیا اور فرمایا : ” ابوذر پیمانے کو درست رکھو ، اسلام میں سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے کے اوپر کوئی فضیلت نہیں ہے “۔ چناچہ آپ نے بات کو نہایت ہی ابتدائی جڑوں سے علیحدہ کردیا۔ اسلام ، اسلام ہے اور آسمانی قدروں پر مشتمل ہے اور جاہلیت ، جاہلیت ہے۔ اس کی قدریں زمینی ہیں۔ (ابن مبارک)

حضرت ابوذر ؓ کے حساس دل پر حضور اکرم ﷺ کی اس بات کا سخت اثر ہوا ، انہوں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اور قسم اٹھائی کہ وہ اس وقت تک اپنی پیشانی کو اوپر نہ اٹھائیں گے جب تک بلال ؓ اسے روند نہ ڈالیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس بری بات کا کفارہ یہی ہے۔

جس ترازو کے مطابق حضرت بلال ؓ کو اس قدروزن حاصل ہوا تھا ، وہ آسمانی ترازو تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بلال “ مجھے بتاﺅ کہ تم نے کون سا ایسا عمل کیا ہے جس پر تمہیں خدا کے ہاں بہت زیادہ اجر کی توقع ہے ؟ “ اس لئے کہ میں نے معراج کی رات ، جنت میں تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے “۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد میں نے جب بھی مکمل پاکی اختیار کی ہے (وضو ، غسل) رات کو یا دن کو تو میں نے اس کے بعد نماز پڑھی ہے ، جس قدر اللہ نے میرے لئے مقدر کیے تھے ، بس وہ بات ہے جس سے میں امید کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ ثواب ملے گا۔ (شیخین)

حضور اکرم ﷺ عمار ابن یاسر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ، جب بھی انہوں نے حضور ﷺ سے ملاقات کی اجازت چاہی ، ” اسے اجازت دو ، یہ پاک اور پاکباز ہے “۔ (نسائی) اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا :” عمار سر سے پاﺅں تک ایمان سے پر ہے “۔ اور حضرت حذیفہ ؓ کے بارے میں فرمایا : ” مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں تمہارے اندر اب کتنا عرصہ رہوں گا ، لہٰذا ان دونوں کی پیروی کرو “۔ (حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی طرف اشارہ کیا) اور عمار کے طریقے پر چلو اور تمہیں جو بات ابن مسعود نے بتائی ، اس کی تصدیق کرنا “۔ (ترمذی)

حضرت ابن مسعود کی حالت تو یہ تھی کہ جو لوگ مدینہ کے رہنے والے نہ تھے ، وہ آتے تو حضرت ابن مسعود کو نبی ﷺ کے گھرانے کا آدمی سمجھتے .... کیونکہ یہ اکثر آتے جاتے تھے اور بروقت حضور ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ (شیخین وترمذی)

ایک آزاد کردہ غلام جلسیب ؓ تھے ، ان کے لئے حضور ﷺ خود ہی رشتہ تلاش فرماتے تھے۔ حضور ﷺ چاہتے تھے کہ انصار میں سے کوئی عورت ان کے لئے مل جائے۔ ایک لڑکی کے بارے میں حضور ﷺ نے پیغام دیا ، اس کے والدین نے انکار کردیا تو اس لڑکی نے کہا ، کیا تم رسول اللہ ﷺ کی بات کو رد کررہے ہو ؟ اگر رسول اللہ ﷺ اس پر راضی ہیں تو مجھے اس شخص کے نکاح میں دے دو ۔ اس پر والدین راضی ہوگئے اور انہوں نے وہ لڑکی اسے نکاح کرکے دے دی۔ (احمد)

یہ شخص اپنی اس شادی کے بعد جلدی پیش آنے والی کسی جنگ میں گم ہوگئے۔ حضرت ابوبرزہ اسلمی روایت فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک غزوہ میں شریک ہوئے۔ اللہ نے آپ کو فتح دی اور مال غنیمت بھی ملا۔ جنگ کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم کسی کو گم پاتے ہو ، تو لوگوں نے کہا ہاں فلاں فلاں اور فلاں نہیں ہیں۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ دریافت فرمایا کیا تم کسی کو گم پاتے ہو ، تو لوگوں نے کہا ہاں ، فلاں ، فلاں اور فلاں نہیں ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ کوئی اور شخص گم پارے ہو تو انہوں نے کہا نہیں اور تو کوئی گم نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ہاں میں جلیسیب کو گم پاتا ہوں۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا ، یہ سات مقتولین کفار کے پاس پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سات کو قتل کردیا تھا ، جس کے بعد انہوں نے اسے شہید کردیا تھا۔ آپ ان کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا اس نے سات قتل کردیا۔ بعد میں انہوں نے اسے شہید کردیا۔ یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں بازوﺅں میں انہیں اٹھایا۔ حضور ﷺ کے بازوﺅں کے سوا ان کے لئے کوئی چارپائی نہ تھی۔ ان کے لئے قبر کھودی گئی اور انہیں قبر میں رکھ دیا گیا۔ راوی بےغسل کا ذکر نہیں کیا۔ (مسلم)

اللہ کی ان ہدایات کے ذریعہ سے اور نبی ﷺ کے اس اسوہ حسنہ کی وجہ سے ، انسانیت کو ایک نیا جنم ملا۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں حسن وقبح کے اصول آسمان سے لئے جاتے تھے۔ یہ معاشرہ اسی زمین پر ہوتے ہوئے بھی زمین کی گری پڑی اقدار سے آزاد تھا۔ یہ تھا اسلام کا عظیم معجزہ۔ یہ ایک عظیم معجزہ تھا اور کوئی معجزہ خدا اور رسول ﷺ کے احکام کے بغیر صادر نہیں ہوسکتا۔ اس معجزے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ دین اللہ کا دین تھا اور جس ذات بابرکات نے یہ دین پیش کیا وہ اللہ کا رسول ﷺ تھا۔

اور اللہ کی ایک خاص تدبیر تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے پہلے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس کے والی اور خلیفہ المسلمین بنے۔ اس کے بعد آپ کے دوسرے ساتھی حضرت عمر ؓ اس دین کے سربراہ بنے۔ یہ دوسرے خلیفہ دونوں میں سے اس نظام کو زیادہ سمجھنے والے تھے ، یہ زیادہ حضور اکرم ﷺ کی سنت پرچلنے والے تھے اور رسول سے محبت کرنے والے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی محبت اور اطاعت کے میدان میں ان کے نقش قدم پرچلنے والے تھے۔

حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت اسامہ کے بارے میں حضور ﷺ کے اصرار کو سمجھ لیا تھا۔ اس لئے انہوں نے منصب امارت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے یہی کام کیا۔ یہ لشکر حضور اکرم ﷺ نے تیار کیا تھا اور حضرت ابوبکر ؓ نے مدینہ کے باہر خود اسے الوداع کہا۔ اسامہ سوار تھے اور حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ المسلمین ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت بسامہ کو حیا آگئی کہ وہ سوار ہوں اور بوڑھے خلیفہ پیدل ساتھ ساتھ جارہے ہوں۔ انہوں نے کہا : ” خلیفة المسلمین ، یا تو آپ سوار ہوں یا میں اترتا ہوں “۔ خلیفتہ المسلمین قسم اٹھاتے ہیں ” خدا کی قسم تم نہ اترو گے اور خدا کی قسم میں سوار بھی نہ ہوں گا ، کیا ہوجائے گا اگر میرے پاﺅں بھی اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوجائیں “۔

اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے سوچا کہ آپ کو حضرت عمر ؓ کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کے کاندھوں پر خلافت کا بوجھ پڑچکا ہے لیکن عمر تو جیش اسامہ کے ایک سپاہی ہیں۔ اسامہ امیر ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ اسامہ سے اجازت طلب کی جائے۔ چناچہ وہ کہتے ہیں ” اگر تم عمر ؓ کو ترک کرکے میری مدد کرسکتے ہو تو مناسب ہوگا “۔ ذرا الفاظ کو دیکھو ” اگر تم مناسب سمجھو تو حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر میری مدد کرو “۔ یہ ہیں وہ بلندیاں جن تک اسلام نے انسانوں کو پہنچا دیا۔ یہ معجزہ صرف اللہ کی مرضی سے ہوسکتا ہے اور ایک رسول ہی اسے سرانجام دے سکتے ہیں۔

زمانے کا پہیہ گھومتا ہے اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ خلیفہ ہیں اور وہ حضرت عمار ابن یاسر کو کوفہ کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔

ایک وقت یوں بھی آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دفتر کے سامنے سہیل ابن عمرو ابن الحارث ابن ہشام اور ابو سفیان کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور علماء کہلائے۔ حضرت عمر ؓ ان سے پہلے صہیب اور بلال کو اندر بلاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے سابقون الاولون اور اہل بدر میں سے تھے۔ ابوسفیان کے نتھنے مارے غصے کے پھول جاتے ہیں اور سخت جذباتی انداز میں کہتے ہیں ” میں اپنی پوری زندگی میں ایسا دن نہیں دیکھا کہ ان غلاموں کو تو اندر بلایا جاتا ہے اور ہم دروازے پر چھوڑے جاتے ہیں “۔ اس کے ساتھی جنہوں نے حقیقت اسلام کو سمجھ لیا تھا اور ان کے شعور پر اسلام چھا گیا تھا ، ان سے کہا ” اے قوم تمہارے چہروں پر جو آثار نمودار ہیں ، میں دیکھ رہا ہوں۔ اگر تمہیں غصہ آرہا ہے تو یہ غصہ اپنے نفس سے اتارو ، ان لوگوں کو بھی اسلام کی طرف بلایا گیا اور تمہیں بھی بلایا گیا۔ انہوں نے فوراً لبیک کہا اور تم نے دیر لگادی۔ تم ذرا اس وقت کا خیال کرو کہ قیامت میں ان کو بلایا جائے اور تم وہاں بھی کھڑے کے کھڑے رہو (اسلام کا اجتماعی عدل)

حضرت عمر ؓ اسامہ ابن زید کے لئے عبداللہ ابن عمر سے زیادہ الاوئنس مقرر فرماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ اس کا راز پوچھتے ہیں حضرت عمر ؓ جواب دیتے ہیں ” بیٹے ، زید رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھے اور اسامہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں تم سے زیادہ محبوب تھے۔ اس لئے میں نے رسول اللہ کی محبت کو اپنی محبت پر ترجیح دے دی “۔ حضرت عمر ؓ کو معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت آسمانی پیمانوں سے ناپی جاتی ہے۔

حضرت عمر ؓ ، حضرت عمار ؓ ابن یاسر کو بھیجتے ہیں کہ وہ اسلام کے عظیم کمانڈر ، فاتح اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت خالد بن ولید کے خلاف بعض شکایات کی تفتیش کریں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمار ؓ نے ان کو ان کی چادر سے باندھا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کو خود ان کے عمامے سے باندھا گیا۔ یہاں تک کہ تفتیش ختم ہوگئی اور اس کے نتیجے وہ بےگناہ ثابت ہوگئے۔ اس کے بعد وہ انہیں کھولتے ہیں اور خوداپنے ہاتھ سے ان کے سر پر عمامہ باندھتے ہیں اور حضرت خالد ؓ کو اس پر کوئی غصہ نہیں آتا۔ اس لئے کہ حضرت عمار ؓ حضور اکرم ﷺ کے ساتھی ہیں اور ان سے پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ ان کو معلوم تھا۔

حضرت عمر ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ کے بارے میں فرماتے تھے۔ یہ ہمارے سردار ہیں جنہوں نے ہمارے دوسرے سردار کو غلامی سے آزاد کرایا یعنی حضرت بلال کو جو امیہ ابن خلف کے مملوک تھے اور امیہ انہیں سخت اذیت دیتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں خریدا اور آزاد کردیا۔ ان کے بارے میں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ بلال ؓ ہمارے سردار ہیں۔

یہ حضرت عمر ؓ ہی تھے کہ انہوں نے فرمایا اگر ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم موجود ہوتے تو میں انہیں خلیفہ بنا دیتا۔ حضرت عمر ؓ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓ جیسے لوگوں کو بھی خلیفہ نہ بنایا۔ بلکہ چھ آدمیوں کی شوریٰ مقرر کی کہ ان میں سے کسی ایک کو مقرر کیا جائے۔

حضرت علی ؓ ، حضرت عمار ؓ اور حسن ابن علی کو اہل کوفہ کی طرف بھیجتے ہیں۔ وہ ان سے درخواست کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ان کا جو نزاع ہوگیا ہے اس میں وہ ان کا ساتھ دیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ” مجھے اچھی طرح علم ہے کہ حضرت عائشہ ؓ تمہارے نبی ﷺ کی بیوی ہیں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، لیکن اللہ نے تمہیں اس امتحان میں ڈال دیا ہے کہ تم میری اطاعت کرتے ہو یا ان کی “۔ (بخاری) اس طرح حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں لوگ ان کی بات سنتے ہیں۔

حضرت بلال ؓ یمن کے گورنر تھے۔ ابورویحہ خشعمی یمن کے ایک قبیلے میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی سفارش کریں۔ حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں میں بلال ابن رباح ہوں اور یہ میرے بھائی ابو ردیحہ ہیں۔ یہ ایک ایسا شخص ہے کہ نہ اس کے اخلاق اچھے ہیں اور نہ یہ زیادہ دیندار ہے۔ تم چاہو تو اپنی لڑکی ان کے عقد میں دے دو اور نہ چاہو تو نہ دو “۔ حضرت بلال ؓ انہیں دھوکہ نہیں دیتے اور نہ اس کے معاملے میں کوئی بات چھپاتے ہیں ، اور نہ وہ اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ میں سفارشی ہوں۔ وہ صرف یہ بات پیش نظر رکھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہیں گے اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر شچے ہیں اور وہ یہ رشتہ دے دیتے ہیں۔ بس وہ یہ بات کافی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک صاحب نسب عرب ہیں اور ان کی سچی سفارش حضرت بلال ؓ حبشی کررہے ہیں۔

غرض یہ عظیم حقیقت اسلامی معاشرے میں عملاً قائم ہوگئی اور اس کے بعد ایک طویل زمانے تک قائم رہی۔ باوجود اس کے بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کے اندر زوال اور تنزل کے بیشمار عوامل پیدا ہوگئے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ ان کے آزادذ کردہ غلام عکرمہ کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ جب عبداللہ ابن عمر کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ ان کے غلام نافع کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ انس ابن مالک کے ساتھ ابن سیرین کا ذکر ہوتا ہے ، اور ابوہریرہ کے ساتھ ان کے غلام عبدالرحمن ابن ہرمز کا ذکر ہوتا ہے ، بصرہ میں حسن بصری ، مکہ میں مجاہد ، عطا ابن ابی رباح اور طاﺅس ابن کیسان جیسے لوگ مشہور فقہاء تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کے زمانے میں ، مصر میں یزید ابن ابی حبیب مفتی اعظم مقرر ہوئے۔ یہ علقمہ کے سیاہ فام آزاد کردہ غلام تھے۔

یہ تھیں آسمانی اور اسلامی قدریں جنہوں نے انسانیت کو تقویٰ کی بنیاد پر اس قدر بلند کردیا ، اگرچہ دنیا کے اندر مقبول ترین اقدار میں سے کوئی خصوصیت ان کے اندر نہ تھی۔ نہ اپنی ذات کے اعتبار سے اور نہ ان کے ماحول کے اعتبار سے۔ یہ میزان اور یہ پیمانے دنیا میں ماضی قریب تک قائم رہے۔ ماضی قریب میں پوری دنیا پر دوبارہ جاہلیت چھاگئی۔ دنیا کا ایک حصہ امریکی جاہلیت کے زیر اثر آگیا جس میں انسانوں کی قیمت ڈالر کی شکل میں متعین ہونے لگی اور نصف مشرقی دنیا کی قیادت روسی جاہلیت کو حاصل ہوگئی اور اس میں انسان کی وقعت ایک پیداواری مشین کے سوا کچھ نہ تھی۔ رہی اسلامی دنیا تو اس پر وہی جداہلیت عربی قومیت کی جاہلیت چھاگبی جس کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لئے اسلام دنیا میں آیا تھا اور عملاً اسلام نے اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ آج عالم اسلام سے اس اعلیٰ معیار اور اعلیٰ قدر کو مٹا دیا گیا ہے اور عالم اسلام ایک ایسی جاہلیت کی تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے ، جس کے اندر ایمان اور تقویٰ اعلیٰ قدر ہی نہیں ہے۔

ہاں عالم اسلام میں دعوت اسلامی اور احیاء اسلام کی تحریک جاری ہے۔ صرف اس تحریک پر امید ہے کہ یہ پوری دنیا کو جاہلیت سے نکال کر از سر نو آسمانی قدریں عطا کرے گی اور شاید ایک بار پھر انسانیت ایک نیا جنم لے جیسا کہ انسانیت کو آغاز اسلام کے دور میں نصیب ہوا۔ جس کی ایک جھلک اس سورت کی ابتدائی آیات میں دکھائی گئی ہے۔ یہ چند آیات ہیں لیکن نہایت ہی اہم اور سنگ میل اور فیصلہ کن ہیں۔

ایک مخصوص واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سورت کے پہلے حصے میں اس عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ، اس دوسرے حصے میں ، اس انسان کے رویہ پر سخت تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو ایسے حقائق اور ایمان اور تقویٰ کی اس دعوت سے منہ موڑتا ہے ، اور دعوت اسلامی سے اپنے آپ کو برتر اور بالا سمجھتا ہے۔ یہ انسان اپنے اصل اور اپنی تخلیق کے حالات پر اگر غور کرتا تو ہرگز اعراض نہ کرتا۔ انسان یہ نہیں دیکھتا کہ اس پر اللہ کی کیا کیا عنایات ہیں۔ اس کی زندگی قدم قدم پر اللہ کے کنٹرول میں ہے ، دنیا اور آخرت میں یہ انسان دراصل ہر مرحلہ حیات میں اللہ کے اختیار میں ہے ، لیکن یہ اپنے خالق ، اپنے کفیل اور اپنے محاسب کے حقوق ادا نہیں کرتا اور نہ اس سے ڈرتا ہے۔

اردو ترجمہ

جس کا جی چاہے اِسے قبول کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faman shaa thakarahu

اردو ترجمہ

یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee suhufin mukarramatin

اردو ترجمہ

بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MarfooAAatin mutahharatin

اردو ترجمہ

معزز اور نیک کاتبوں کے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Biaydee safaratin

اردو ترجمہ

ہاتھوں میں رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kiramin bararatin

اردو ترجمہ

لعنت ہو انسان پر، کیسا سخت منکر حق ہے یہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qutila alinsanu ma akfarahu

قتل الانسان (17:80) ” انسان قتل ہو “۔ کیونکہ وہ اپنے ان قابل تعجب اعمال کی وجہ سے اس بات کا مستحق ہے کہ اسے قتل کردیا جائے۔ یہ سرزنش اور طعن وتشنیع کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ کررہا ہے وہ اس قدر برا ہے کہ اگر اس پر اسے سزائے موت دے دی جائے تو قابل تعجب نہ ہوگی۔

ما اکفرہ (17:80) ” کس قدر ناشکرا ہے “۔ وہ کفر ، انکار میں بہت شدید ہے ، اگر وہ اپنی تخلیق پر غور کرتا تو اپنے خالق کا شکرادا کرتا۔ دنیا میں تواضع اختیار کرتا اور آخرت کا خیال رکھتا۔ یہ انسان کس بات پر مست ہے۔ اپنے آپ کو بےپرواہ سمجھتا ہے ، اور ہدایت سے منہ موڑتا ہے۔ ذرا اپنی اصلیت اور آغاز وجود کے حالات پر تو غور کرے۔

اردو ترجمہ

کس چیز سے اللہ نے اِسے پیدا کیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min ayyi shayin khalaqahu

من ................ خلقہ (18:80) ” کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے “۔ اس کی اصلیت تو نہایت معمولی ، متواضع اور حقیر ہے۔ اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہی ہے جس نے اپنی تقدیر اور تدبیر سے اس جرثومے سے انسان بنایا ہے۔

اردو ترجمہ

نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min nutfatin khalaqahu faqaddarahu

من نطفة ................ فقدرہ (19:80) ” نطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی “۔ یعنی ایک ایسے نطفے سے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور اس اصل جرثومے سے جس کے اندر کوئی قوت نہیں ، وہ خود نہ آسکتا تھا ، یہ تو خالق تھا جس نے اس کا آنا مقدر کیا۔ پھر اس کی صنعت اور تخلیق میں مضبوطی پیدا کی۔ پھر اسے ایک تندرست و توانا مخلوق بنایا اور اسے تمام مخلوقات پر ترجیح دی اور مکرم بنایا ، اور اس حقیر جرثومے کو اس زمین پر مختار ٹھہرایا۔

اردو ترجمہ

پھر اِس کے لیے زندگی کی راہ آسان کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma alssabeela yassarahu

ثم ................ یسرہ (20:80) ” پھر اس کے لئے راہ میسر کی “۔ زندگی کی راہ یا ہدایت کی راہ ۔ زندگی کی راہ یا ہدایت کی راہوں پر چلنے کے لئے اس کے اندر استعداد اور صلاحتیں ودیعت فرمائیں۔ اور جب زندگی کا یہ سفر ختم ہوا تو یہ انسان بھی اس انجام تک جاپہنچا جس تک تمام زندہ مخلوق کو پہنچنا ہے۔ اس انجام تک پہنچنے سے رکنا اس کے اختیار میں نہیں ہے اور اس انجام سے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma amatahu faaqbarahu

ثم ................ فاقبرہ (21:80) ” پھرا سے موت دی اور قبر میں پہنچایا “۔ لہٰذا جس طرح اس کا آنا اللہ کے امر سے ہے ، اس کا یہ انجام بھی اللہ کے امر سے ہے۔ اللہ نے جب چاہا اسے زندگی میں لے آیا اور جب چاہا زندگی کا سلسلہ ختم کردیا۔ اور قبر کے پیٹ میں رکھوادیا۔ یہ قبر بھی اس کے لئے اس کی شرافت کی خاطر اور اس پر مہربانی کرتے ہوئے مقرر کی۔ یوں نہ چھوڑا کہ جہاں مرجائے ، وہیں چھوڑ دیا جائے اور جانور اسے نوچتے رہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی کہ مردہ انسانوں کی لاش کو قبر میں چھپایا جائے۔ یہ بھی اللہ کی تدبیر اور تقدیر اور احکام کا ایک حصہ ہے کہ مردوں کو دفن کیا جائے۔ اور جب اللہ کی مشیت کے مطابق باز پرس کا وقت آپہنچے گا تو اسے دوبارہ زمین سے اٹھا دیا جائے گا اور یہ بھی اللہ کے حکم سے ہوگا۔

اردو ترجمہ

پھر جب چاہے وہ اِسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma itha shaa ansharahu

ثم اذا ............ انشرہ (22:80) ” اور پھر جب چاہے اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے “۔ کیونکہ وہ یونہی بےکار چھوڑا جانے والا نہیں ہے اور نہ بغیر حساب و کتاب کے اسے یونہی زمین کا حصہ بنادیا جائے گا۔ لہٰذا ذرا غور کرو کہ یہ انسان اسی حساب و کتاب کے لئے کچھ تیاری کررہا ہے دیکھو کہ یہ انسان اسی حساب و کتاب کے لئے کچھ تیاری کررہا ہے یا نہیں۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، اِس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اِسے حکم دیا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla lamma yaqdi ma amarahu

کلا ............ ما امرہ (23:80) ” ہرگز نہیں ، اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا “۔ بات مطلق انسان کی ہورہی ہے ، تمام افراد انسان کی بہر دور کے انسان اللہ کے احکام بجا لانے میں کوتاہی کرتے ہیں ، اپنی پوری زندگی میں ان کی روش یہی ہوتی ہے۔ ” لما “ سے اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ہرگز نہیں ، انسان ہر صورت میں قصور وار ہے ، یہ اپنے فرائض ادا نہیں کرتا ، وہ اپنی اصلیت اور حقیقت کو بھی پیش نظر نہیں رکھتا ، حالانکہ یہ بات ہر وقت اس کے پیش نظر ہونی چاہیے۔ نیز وہ اپنے خالق ، اپنے ہادی اور اپنے کفیل کا حق شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ اور اس زندگی کا مختصر سا سفر اس طرح نہیں طے کرتا کہ اس کے اقدامات آخرت کو پیش نظر رکھ کر ہوں۔ مجموعی طور پر انسان کی حالت ایسی ہی ہے کہ اکثریت نافرمان ، ناشکری ، ہدایت سے بےنیاز اور متکبر ہے۔

اب جدید پیراگراف آتا ہے۔ سابقہ پیراگراف میں انسان کی پیدائش کی بات رکھی گئی تھی ، اب کہا جاتا ہے کہ یہ انسان ذرا اپنی اور اپنے مویشیوں کی خوراک پر تو غور کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور سفر میں اللہ نے انسان اور اس کے مویشیوں کے لئے کیا انتظام فرمایا۔ انسان کے غور کے لئے یہ ایک ہی چیزکافی ہے جو اللہ نے اس کے لئے فراہم کی ہے۔

اردو ترجمہ

پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falyanthuri alinsanu ila taAAamihi

یہ ہے قصہ انسان اور اس کے مویشیوں کی خوراک کا ، جس کی تیاری کے تمام مراحل مختصر ، یہاں بیان کردیئے گئے ہیں۔ انسان کو چاہئے کہ وہ ان پر غور کرے۔ کیا ان انتظامات میں خود اس کا اپنا بھی کوئی دخل ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس کی تدبیر سے ہورہا ہے۔ جس ذات باری نے اسے پیدا کیا اور اس دنیا اور زمین پر لاکر کھڑا کردیا۔ یہ وہی ذات ہے جس نے یہ تمام انتظامات کیے۔

فلینظر ................ طعامہ (24:80) ” پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے “۔ یہ نظام خوراک براہ راست اس کے ساتھ متعلق ہے ، اس کے قریب ہے ، اس کے ساتھ لازم وملزوم ہے ، اسے چاہئے کہ وہ اس حاضر وموجود اور لازم ومکرر نظام پر غور کرے۔ اس کا قصہ اور اس کی کہانی کس قدر عجیب ہے اور کس قدر آسان ہے۔ یہ کام چونکہ بسہولت ہوتا رہتا ہے اس لئے اس کے اندر جو عجائب و کمالات ہیں وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت یہ نظام رزق بھی ایسا ہی معجزہ ہے جس طرح انسان کی تخلیق ایک معجزہ ہے۔ جس طرح تخلیق میں ہر مرحلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح اس نظام رزق کا ہر مرحلہ بھی اللہ کے دست قدرت میں ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے خوب پانی لنڈھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Anna sababna almaa sabban

انا ............ صبا (25:80) ” ہم نے خوب پانی لنڈھایا “۔ پانی کا بارش کی صورت میں گرایا جانا ایک ایسا عمل ہے ، جس سے ہر دور کا انسان واقف تھا۔ علم و تجربہ کے ابتدائی اور انتہائی مراحل کے انسان اس سے واقف تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو انسان ، ہر انسان کے سامنے پیش کی جاتی ہے لیکن جب انسان نے ترقی کرلی تو اسے معلوم ہوا کہ اس آیت کے مفہوم میں کیا کیا وسعتیں ہیں۔ آج کل کے ماہرین ماحولیات اس زمین کے اوپر پانی کے اس اجتماع کے بارے میں جو مفروضے پیش کرتے ہیں ، ان میں سے قریب ترین یہ ہے کہ یہ پانی ہمارے اوپر فضا میں تھا اور یہ بارش کی شکل میں زمین پر گرا اور سمندروں کی شکل اختیار کرگیا۔

دور حاضر کے سائنس دانوں میں سے ایک شخص یہ کہتا ہے : ” اگر اس بات کو درست مان لیا جائے کہ سورج سے جدا ہونے کے وقت زمین کا درجہ حرارت یا زمین کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 12000 ڈگری تھا تو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ اس وقت تمام عناصر ایک دوسرے سے الگ تھے اور کسی کیمیاوی ترکیب کا امکان ہی نہ تھا۔ پھر کرہ ارض اور اس کے اجزائے ترکیبی بتدریج ٹھنڈے ہوگئے اور اس طرح مختلف کیمیاوی مرکبات وجود میں آئے۔ اور اس دنیا کا ملبہ وجود میں آیا جسے ہم جانتے ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن اس وقت تک مل نہیں سکتے جب درجہ حرارت 4000 ہزار فارن ہیٹ تک نہ آجائے۔ یوں جب درجہ حرارت 4000 ہزار فارن ہیٹ تک آیا تو یہ اجزاء مرکب ہوگئے اور پانی وجود میں آیا جس کے بارے میں جدید سائنس نے معلوم کرلیا ہے کہ وہ کرہ ہوائی کی شکل میں تھا اور سمندر کا پانی زمین پر نہ تھا بلکہ ہوا کی شکل میں تھا۔ اور تمام دوسرے عناصر بھی مفرد تھے۔ ان کی ترکیب عمل میں نہ آئی تھی۔ یہ عناصر گیسوں کی شکل میں تھے۔ جب کرہ ہوئی میں پانی تیار ہوا تو وہ زمین پر گرنے لگا لیکن یہ بارش جوں جوں زمین کے قریب آتی ، زیادہ حرارت کی وجہ سے پھر گیس بن کر فضا میں اٹھ جاتی۔ کیونکہ زمین کا درجہ حرارت اس سے بھی زیادہ تھا جتنا ہزارہا میل بالائی فضاﺅں میں تھا۔ بالآخر جب زمین بتدریج ٹھنڈی ہوتی گئی تو بارشوں کا یہ طوفان زمین کے قریب پہنچ گیا اور گرمی کی وجہ سے دوبارہ بھاپ بن کر اٹھتا رہا۔ آخر کار اس عظیم طوفان نے زمین کی سطح کو ٹھنڈا کرکے ، یہ عظیم سمندر جو فضاﺅں میں تھے ، زمین پر اتاردیئے۔ یہ طوفان کس قدر عظیم تھے ان کا تصور بھی مشکل ہے “۔ (علم ایمان کی طرح ہوتا ہے ، ترجمہ ڈاکٹر محمود صالح فلکی)

ہم ان مفرضوں اور نظریات کو مفروضے ہی مانتے ہیں اور قرآن کو ان کے ساتھ محدود نہیں کرتے لیکن یہ نظریات قرآن کے مفہوم کو وسیع کردیتے ہیں اور اسے ہمارے فہم وادراک کے قریب لے آتے ہیں۔ یہ دراصل پانی انڈیلنے کی سائنسی تاریخ ہے۔ یہ نظریات بہرحال نظریات ہیں۔ درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ پانی کے زمین پر آنے کے کچھ دوسرے نظریات بھی وجود میں آجائیں کیونکہ قرآن ہر دور اور ہر معیار علم کے انسانوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ اور یہی قرآن کا اعجاز ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے میں نے ہی سمجھا ہے۔

یہ تھا طعام کا ابتدائی حصہ۔

انا .................... صبا (25:80) ” ہم نے خوب پانی لنڈھایا “۔ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اس پانی کی تخلیق میں اس کا کوئی بھی دخل ہے۔ یا اس کی پیدائش کی ہسٹری میں ان کا دخل ہے یا انسانوں نے کسی تدبیر سے یہ سمندر زمین پر انڈیل دیئے تاکہ وہ اپنے طعام کا انتظام کریں۔

اردو ترجمہ

پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma shaqaqna alarda shaqqan

ثم ............ شقا (26:80) ” پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا “۔ پانی نے انڈیلنے کے بعد یہ تیسرا مرحلہ ہے۔ یہ بات بالکل ابتدائی اور پتھر کے دور کے انسان کی سمجھ میں بھی آتی تھی جو دیکھتا تھا کہ پانی آسمانوں سے برس رہا ہے اور یہ خدا کی قدرت سے برس رہا ہے اور اس میں انسان کی تدبیر اور تقدیر کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ زمین کو پھاڑ کر اس کی مٹی میں جذب ہوتا تھا ، یا وہ دیکھتا تھا کہ زمین کی مٹی اللہ کی قدرت سے شق ہونا ہوتی ہے۔ اس سے نباتات نکلتے ہیں اور فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ نباتات ؟ ؟ ؟ ؟ صفحہ نمبر 839؟ ؟ ؟ ؟ اور زمین نہایت بھاری اور مضبوط ہوتی ہے لیکن یہ دست قدرت ہی ہے جو اس مضبوطزمین کو شق کرکے اس کے اندر سے نرم ونازک پودے کو نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے جسے ہر انسان دیکھتا ہے جو پودے اور مٹی کا مشاہدہ رکھتا ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک خفیہ قوت کام کررہی ہے اور یہ نہایت ہی مہربان قوت ہے۔

لیکن اس ابتدائی مفہوم کے بعد جو علوم آگے پڑھتے ہیں تو آیت کے مفہوم ومدلول کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اور زمین کے شق ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پودوں کی پرورش کے لئے سازگار بنادی گئی ہے۔ جیسا کہ سابقہ نظریہ میں ہم نے بتایا کہ زمین کے اوپر پانی کے ہولناک طوفان آئے۔ جن کے نتیجے میں زمین کے چھلکے کی چٹانیں ٹوٹ پھوٹ کر بہہ نکلیں اور ہموار میدان وجود میں آئے ، جس کے اندر ایسی مٹی جمع ہوگئی جو قابل زراعت ہے ۔ یہ مفہوم بھی اس آیت میں داخل ہے۔

ثم ............................ شقا (26:80) ” پھر ہم نے زمین کو پھاڑا “۔ کی آیت۔

انا صببنا .................................... صبا (25:80) ” ہم نے پانی لنڈھایا “ کے بعد آتی ہے۔ اس سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ زمین کا شق ہونا پانی کے بعد ہوا۔

بہرحال ان آیات کا یہ مفہوم ہو یا کوئی تیسرا مفہوم ہو ، بہرحال تحقیق کے تیسرے مرحلے میں نباتات کی تخلیق کا ذکر ہے اور بظاہر ان نباتات کی طرف اشارہ کیا گیا جو انسانوں اور انسانوں کے کام آنے والے مویشیوں کے لئے چارہ کا کام کرتے ہیں اور جن کو ابتدائی انسان بھی اچھی طرح سمجھتا تھا۔

اردو ترجمہ

پھر اُس کے اندر اگائے غلے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faanbatna feeha habban

فانبتنا ............ حبا (27:80) ” پھر اس میں غلے اگائے “۔ اس سے تمام نباتات مراد ہیں۔ جن کو انسان کسی نہ کسی صورت میں استعمال کرتے ہیں اور جن کو مویشی کسی نہ کسی صورت میں اپنی غذا بناتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور انگور اور ترکاریاں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAinaban waqadban

وعنبا وقضبا (28:80) ” انگور اور ترکاریاں “۔ انگور تو مشہور ہیں۔ قصب ان سبزیوں کو کہا جاتا ہے جو سبزی کے طور پر کھائی جاتی ہیں۔ اور ان کو بار بار کاٹا اور چنا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور زیتون اور کھجوریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wazaytoonan wanakhlan

وزیتونا ............................ فاکھة وابا (31:80) ” اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے “۔ زیتون اور کھجور کے درخت مشہور ہیں اور حدائق حدیقہ کی جمع ہے ، یہ اس ثمردار باغ کو کہا جاتا ہے جو دیواروں کے اندر گھرا ہوا ہو اور غلبا غلباء کی جمع ہے ، یعنی ایسے باغات جن کے درخت گھنے ہوں اور جن کی شاخیں ایک دوسرے کے اندر گھس گئی ہوں۔

اردو ترجمہ

اور گھنے باغ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahadaiqa ghulban

اردو ترجمہ

اور طرح طرح کے پھل، اور چارے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafakihatan waabban

فاکھة وہ میوہ جو باغات اسے حاصل ہو۔

ابا (31:80) کا مفہوم غالباً وہ جسے انسان چارے کے لئے کاشت ونگہداشت کریں۔ اس کے مفہوم کے بارے میں حضرت عمر ؓ سے پوچھا گیا۔ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے آپ کو ملامت کیا تھا جیسا کہ سورة نازعات میں گزر گیا ہے۔

یہ تو تھا انسان کے طعام کا قصہ ، اور انسانی طعام کی تمام ضروریات صرف اللہ فراہم کرتا ہے اور اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں بلکہ انسان دخیل ہونے کا مدعی ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے مختلف مراحل میں سے کسی مرحلے میں دخیل ہے۔ یہاں تک کہ زمین کے اندر وہ جو بیج بوتا ہے اس کی نشوونما میں بھی وہ دخیل نہیں ہے۔ نہ انسان نے بیج پیدا کیا اور نہ ایجاد کیا ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ حیوانات کس طرح ایجاد ہوئے ، یہ ایک معجزہ ہے۔ اور انسان تصور اور ادراک سے وراء ہے۔ یہ مٹی انسان کے سامنے ہے اور ایک ہے ، اور ہر دانہ ایک ہی زمین میں اور باہم متصل قطعات میں اپنے اپنے پھل اور پھول لاتا ہے جبکہ ایک ہی پانی اور دوسرے عناصر اسے غذا دیتے ہیں لیکن یہ درست قدرت ہی کا کام ہے کہ پودے اور پھل مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان پودوں اور پھلوں سے آگے جو بیج پیدا ہوتے ہیں ان میں ” ماں بیج “ کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں۔ یہ باتیں اور یہ ٹیکنالوجی انسان سے مخفی ہے۔ اس کا راز کوئی نہیں جانتا ، نہ اس میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے ، اور نہ اس سے کوئی مشورہ لیا جاتا ہے۔ بہرحال دست قدرت نے جو کچھ کیا وہ یہ ہے اور

اردو ترجمہ

تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MataAAan lakum walianAAamikum

متاعا ................ مکم (32:80) ” تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست کے طور پر “۔ ایک مقررہ وقت تک ۔ اور جب یہ دنیا ختم ہوگی تو یہ سامان زیست بھی ختم ہوگا کیونکہ اللہ نے اسے متاع حیات کے طور پر بنایا ہے۔ اس کے بعد پھر ایک دوسرا عظیم واقعہ ہوگا۔ وہ کیا ہوگا ؟ انسان کو چاہئے کہ اس کے واقع ہونے سے قبل ہی اس کے بارے میں غور کرے۔

اردو ترجمہ

آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha jaati alssakhkhatu

یہ دنیا کے سازو سامان کا خاتمہ ہے۔ یہ اللہ کی طویل اسکیم ، اور ایک کلی اور جامع تدبیر کے ساتھ موافق ہے ، جس کے مطابق اللہ نے انسان کو مرحلہ وار پیدا کیا اور اس اسکیم کے مطابق آگے بڑھایا اور یوں آغاز کے عین مطابق اس کا خاتمہ ہوا۔ یہ آخری منظر ابتدائی منظر کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس میں ایک شخص دوڑتا ہوا آیا ، اس کا پیمانہ خوف خدا سے لبریز تھا اور اس کے مقابلے میں ایک شخص تھا جو لاپرواہ اور ہدایت سے منہ موڑنے والا تھا۔ یہ دونوں کردار اللہ کے پیمانوں میں جو مقام رکھتے تھے اور یہ دونوں کا انجام ہے سورت کا آخر میں :

الصاخة ایک ایسا لفظ ہے جو معنی کے ساتھ ساتھ آواز بھی سخت وکرخت رکھتا ہے۔ قریب ہے کہ کان کے پردے ہی پھٹ جائیں ۔ یہ لفظ اپنے زور تلفظ سے ہوا کو پھاڑتا ہے۔ اور کانوں میں آکر پیوست ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ اپنے اس کرخت تلفظ کے ذریعہ اگلے منظر کی راہ ہموار کرتا ہے ، اگلا منظر کیا ہے۔ یہ منظر ایسا ہے جس میں انسان اپنے عزیز ترین تعلق داروں کو چھوڑ کر بھاگتے نظر آتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اُس روز آدمی اپنے بھائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yafirru almaro min akheehi

یوم یفر ........................ وبنیہ (34:80 تا 36) اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا “۔ یہی لوگ تھے کہ دنیا میں ان کے یہ روابط کسی حال میں بھی نہ ٹوٹتے تھے لیکن پس ایک سخت وکرخت چیخ ہوگی اور یہ تمام روابط ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور یہ تمام تعلقات کٹ جائیں گے۔

اس منظر میں خوف محض نفسیاتی خوف ہے۔ نفس انسانی پر جزع فزع کی حالت طاری ہوگی اور یہ انسان اپنے مقام اور ماحول سے جدا ہوجائے گا۔ بس وہ اپنی ہی سوچے گا۔ اس کے سامنے پریشانیوں اور خود اپنے مسائل کا انبار ہوگا۔ وہ اپنے سوا کسی کے لئے کچھ کرنے کے اہل نہ ہوگا نہ وقت اور قوت ہوگی۔

اردو ترجمہ

اور اپنی ماں اور اپنے باپ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waommihi waabeehi

اردو ترجمہ

اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasahibatihi wabaneehi

اردو ترجمہ

ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Likulli imriin minhum yawmaithin shanun yughneehi

لکل .................... یغنیہ (37:80) ” ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا “۔

ان عبارات وکلمات کی تہہ میں غم واندوہ کے گہرے سائے ہیں۔ پریشانیوں کی اس سے زیادہ بہتر تعبیر ممکن ہی نہیں ہے۔ احساس وضمیر دونوں کے بوجھ کو یہ عبارت کیا خوب ظاہر کرتی ہے۔

لکل ........................ یغنیہ (37:80) ” ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا “۔ (اقتباسات ازماھی القیامتہ)

یہ ہوگی حالت اس دن تمام لوگوں کی جب یہ آواز برپا ہوگی اور یہ ایسی سخت اور کرخت آواز ہوگی کہ کان بہرے ہوجائیں گے ۔ اس روزمومنین کا کیا حال ہوگا اور کافروں کا کیا حال ہوگا ؟ اس روز تو سب کو اللہ کے پیمانوں سے ناپا جائے گا اور اللہ کے ترازو سے تولا جائے گا۔

اردو ترجمہ

کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wujoohun yawmaithin musfiratun

وجوہ ................................ مستبشرة (39) ” کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے ، ہشاش بشاش اور خوش وخرم ہوں گے “۔ یہ چہرے روشن چہرے ہوں گے ، ان سے نور برس رہا ہوگا ، خوش ہوں گے ، ہنس رہے ہوں گے ، اپنے رب سے امیدیں وابستہ کیے ہوں گے ، وہ مطمئن ہوں گے کہ ان کا رب ان سے راضی ہے ، یہ اس سخت ہولناک آواز کے خوف سے نجات پاچکے ہوں گے۔ یہ آواز تو ایسی ہوگی کہ سنتے ہی سب خوشیاں کافور ہوجائیں گی لیکن ان کو چونکہ ان کا انجام بتا دیا جائے گا اس لئے وہ ان ہولناکیوں کے باوجود خوش وخرم اور مطمئن ہوں گے۔

اردو ترجمہ

ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Dahikatun mustabshiratun

اردو ترجمہ

اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawujoohun yawmaithin AAalayha ghabaratun

ووجوہ ........................ الفجرة (40:80 تا 42) ” اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑارہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔ یہی کافروفاجر لوگ ہوں گے “۔ یہ غبار حزن وملال کا غبار ہوگا ، اور حسرت ویاس کا غبار ہوگا۔ اور ذلت اور پریشانی کی وجہ سے چہروں پر سیاہی ہوگی۔ ان کو معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے کیا کمایا ہے ، لہٰذا ان کو یقین ہوجائے گا کہ ان کا انجام کیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tarhaquha qataratun

اردو ترجمہ

یہی کافر و فاجر لوگ ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika humu alkafaratu alfajaratu

اولئک ............................ الفجرة (42:80) ” یہ کافر اور فاجر لوگ ہوں گے “۔ جو اللہ اور اس کی رسالتوں پر ایمان نہیں لائے۔ جنہوں نے اللہ کی حدود کو توڑا۔

یہ دو قسم کے چہرے ہوں گے اور دونوں چہروں کے اندر دو قسم کے لوگوں کا انجام اس طرح دکھایا گیا ہے جس طرح کوئی شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے ۔ چہروں کے خدوخال الفاظ وعبارات میں اس طرح قلم بند کیے گئے ہیں کہ گویا ریل پر چلتے ہوئے چہرے صاف صاف نظر آتے ہیں۔ یہ ہے قرآن کا زور دار انداز بیان اور ادبی ٹچ۔

اس انجام سے سورت کا آغاز اور انجام بھی باہم ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ آغاز میں اسلامی قدروں کا ذکر تھا ، اور انجام میں اسلامی پیمانوں اور اسلامی ترازو کے مطابق لوگوں کا انجام بتایا گیا ہے۔ چناچہ اس نہایت ہی مختصر سی سورت میں عظیم حقائق لائے گئے ہیں۔ بہترین مناظر پیش کیے گئے اور بہترین ہدایات واشارات دئیے گئے ہیں اور یہ سورت اپنے خوبصورت انداز بیان کے ساتھ ، اپنے مقاصد کو نہایت خوبصورتی سے ادا کرتی ہے۔

585