سورۃ الفجر (89): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fajr کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفجر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fajr
سُورَةُ الفَجۡرِ
صفحہ 593 (آیات 1 سے 23 تک)

وَٱلْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَٱلشَّفْعِ وَٱلْوَتْرِ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ هَلْ فِى ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِى حِجْرٍ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ ٱلْعِمَادِ ٱلَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى ٱلْبِلَٰدِ وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُوا۟ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلْأَوْتَادِ ٱلَّذِينَ طَغَوْا۟ فِى ٱلْبِلَٰدِ فَأَكْثَرُوا۟ فِيهَا ٱلْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلْمِرْصَادِ فَأَمَّا ٱلْإِنسَٰنُ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ رَبُّهُۥ فَأَكْرَمَهُۥ وَنَعَّمَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَكْرَمَنِ وَأَمَّآ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَهَٰنَنِ كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ وَلَا تَحَٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا وَجِا۟ىٓءَ يَوْمَئِذٍۭ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ ٱلْإِنسَٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكْرَىٰ
593

سورۃ الفجر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفجر کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

قسم ہے فجر کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalfajri

شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ فجر تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں۔ چناچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں لوگوں نے پوچھا اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ عشر سے مراد عیدالاضحی کے دس دن ہیں اور وتر سے مرادعرفے کا دن ہے اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم۔ وتر سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے حضرت واصل بن سائب ؓ نے حضرت عطاء ؓ سے پوچھا کہ کیا وتر سے مراد یہی وتر نماز ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں شفع عرفہ کا دن ہے اور وتر عیدالاضحی کی رات ہے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ شفع کیا ہے اور وتر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ02003) 2۔ البقرة :203) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ شفع ہے اور من تاخر میں جو ایک دن ہے وہ وتر ہے یعنی گیارہویں بارہویں ذی الحجہ کی شفع اور تیرھویں وتر ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن شفع ہے اور آخری دن وتر ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کرلے جنتی ہے وہ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے زید بن اسلم فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں شفع بھی ہے اور وتر بھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق شفع اور اللہ وتر ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع صبح کی نماز ہے اور وتر مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع سے مراد جوڑ جوڑ اور وتر سے مراد اللہ عز و جل جیسے آسمان، زمین، تری، خشکی جن انس سورج چاند وغیرہ قرآن میں ہے آیت (وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49؀) 51۔ الذاریات :49) ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرلو یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ایک حدیث میں ہے کہ شفع سے مراد وہ دن ہیں اور وتر سے مراد تیسرا دن۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں شفع ہے جیسے صبح کی دو ظہر عصر اور عشاء کی چار چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے وتر ہیں اور اسی طرح آخری رات کا وتر ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران بن حصین پر موقوف ہے، واللہ اعلم۔ امام ابن جریر نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور والفجر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ فجر کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہوگا۔ جیسے آیت (وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ 17 ۙ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ 18 ۙ) 81۔ التکوير :17) میں عکرمہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے حجر سے مراد عقل ہے، حجر کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں۔ ، خطیم کو بھی حجر البیت اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے حجر یمامہ اور اسی لیے عرب کہتے ہیں حجر الحاکم علی فلان جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ حجرا محجورا تو فرماتا ہے کہ ان میں عقل مندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے تو فرمایا ہے کہ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کردیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے، اللہ کی نافرمانی کرتے، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول حضرت ہود ؑ آئے تھے یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بےایمانوں کو تیز و تند خوفناک اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہوگئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے سورة الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے ارم ذات العماد یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہوجائے یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکہ اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے حضرت ہود ؑ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ آیت (وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 69؀) 7۔ الاعراف :69) یعنی یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی تمہیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو اور جگہ ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے ؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والا ہے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ارم ان کا دار السلطنت تھا۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے۔ مثلھا کی ضمیر کا مرجع عماد بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو لم یجعل کہا جاتا نہ کہ لم یخلق ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو یچارے سب کے سب دب کر مرجاتے حضرت ثور بن زید دیلی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں میں نے ستون بلند کیے ہیں میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں جو امت محمد ﷺ نکالے گی غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند وبالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے تھے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آچکا ہے یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے واللہ اعلم۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ ارم ذات العماد ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہوسکتا ہے یا عطف بیان دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کردیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑجائے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسرے چاندی کی اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں پھل تیار ہیں، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے در و دیوار خالی ہیں کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیں۔ وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں، ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی حضرت امیر معاویہ ؓ کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا، گھوما پھرا، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا، ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سندا صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریض اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بیوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے کبھی بخور کے بہانے سے کبھی کسی اور طرح سے ان سے یہ مکار روپے وصول کرلیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے نہ کوئی دیو بھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے۔ امام ابن جریر نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کی تراش لیا کرتے تھے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ01409ۚ) 26۔ الشعراء :149) یعنی تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعر بھی ہیں ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورة اعراف میں ہم بیان کرچکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں پھر فرمایا میخوں والا فرعون اوتاد کے معنی ابن عباس نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہوگئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی، اللہ ان پر رحم کرے، پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہوگئے، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے سن رہا ہے سمجھ رہا ہے وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم وجور سے پاک ہے یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے معاذ ! مومن حق کا قیدی ہے اے معاذ ! مومن تو امید و بیہم کی حالت میں ہی رہتا ہے جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہوجائے۔ اے معاذ ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے قرآن اس کی دلیل ہے خوف اس کی حجت ہے شوق اس کی سواری ہے نماز اس کی پناہ ہے روزہ اس کی ڈھال ہے صدقہ اس کا چھٹکارا ہے سچائی اس کی امیر ہے شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس کے راوی یونس اللہ اور ابو حمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابو حمزہ ہی کا کلام ہو، اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا لوگو ! جہنم کے ساتھ پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہوگا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہوگی یہاں امانتداری کا سوال ہوگا جو امانت دار ہوگا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہوگی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پاسکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہوگی اور یہ کہہ رہی ہوگی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جسے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں آیت (ان ربک لبالمر صادر) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں۔

اردو ترجمہ

اور دس راتوں کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walayalin AAashrin

اردو ترجمہ

اور جفت اور طاق کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalshshafAAi waalwatri

اردو ترجمہ

اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha yasri

اردو ترجمہ

کیا اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal fee thalika qasamun lithee hijrin

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara kayfa faAAala rabbuka biAAadin

اردو ترجمہ

اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Irama thati alAAimadi

اردو ترجمہ

جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatee lam yukhlaq mithluha fee albiladi

اردو ترجمہ

اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathamooda allatheena jaboo alssakhra bialwadi

اردو ترجمہ

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WafirAAawna thee alawtadi

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena taghaw fee albiladi

اردو ترجمہ

اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaktharoo feeha alfasada

اردو ترجمہ

آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasabba AAalayhim rabbuka sawta AAathabin

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna rabbaka labialmirsadi

اردو ترجمہ

مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma alinsanu itha ma ibtalahu rabbuhu faakramahu wanaAAAAamahu fayaqoolu rabbee akramani

وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے ایحسبون انما نمدھم الخ یعنی مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں " کلا " کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس پر تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کا مدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گذاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا، حدیث میں ہے کہ سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگی اٹھا کر فرمایا میں اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس یطرح ہوں گے یعنی قریب قریب ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا آپ نے فرمایا اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں مسکینوں کے ساتھ سلوک احسان کرنے انہیں کھانا پینا دینے کی ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال و حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بیحد ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma itha ma ibtalahu faqadara AAalayhi rizqahu fayaqoolu rabbee ahanani

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla bal la tukrimoona alyateema

اردو ترجمہ

اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tahaddoona AAala taAAami almiskeeni

اردو ترجمہ

اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watakuloona altturatha aklan lamman

اردو ترجمہ

اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watuhibboona almala hubban jamman

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla itha dukkati alardu dakkan dakkan

سجدوں کی برکتیں :قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ بالیقین اس دن زمین پست کردی جائیگی اونچی نیچی زمین بربار کردی جائیگی اور بالکل صاف ہموار ہو جایئگی پہاڑ زمین کے بربار کر دئیے جائیں گے تمام مخلوق قبر سے نکل آئیگی خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آجائیگا یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہوگی اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر ﷺ کے پاس ہو آئیگی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں پھر سب کے سب حضور ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ فرمائیں گے کہ ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورة سبحان میں گذر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائیگا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائیگی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگا پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے یہی روایت خود حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی مروی ہے اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کریگا گناہوں پر نادم ہوگا مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گذار رہے پھر بھی اپن اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجرو ثواب کام اور زیادہ کروں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہوگا۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کریگا نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہوسکتی ہے زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے یہ تو ہوا بدبختوں کا انجام اب نیک بختوں کا حال سنئے جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائیگا کہ تو اپنے رب کی طرف اس کے پڑوس کی طرف اس کے ثواب اور اجر کی طرف اس کی جنت اور رضامندی کی طرف لوٹ چل یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہوجائیگا تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہوجا حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں اتری ہے بریدہ فرماتے ہیں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ تعای عنہ کے بارے میں اتری ہے حضرت عبداللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائیگا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہؤے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبداللہ اس آیت کو فاد خلی فی عبادی پڑھتے تھے یعنی اے روح میرے بندے میں یعنی اس کے جسم میں چلی جا لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے ثم ردوا الی اللہ مولا ھم الحق یعنی پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جگہ ہے وان مردنا الی اللہ یعنی ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیں حضرت صدیق اکبر ؓ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے حضور ﷺ نے فرمایا تمہیں بھی یہی کہا جائیگا دوسری روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے حضرت سعید بن جبیر نے یہ آیتیں پڑھیں تو حضرت صدیق نے یہ فرمایا جس پر آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا، ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کردیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہوسکا کہ کون پڑھ رہا ہے یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ابو ہاشم قنات بن زرین ؒ فرماتے ہیں کہ جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہوگئے شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کرلو ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہوگئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا بادشاہ نے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیا وہ نیچے ڈوب گیا اور ذراسی دیر میں اوپر آگیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ بھی دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا سنو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یآای تھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیتہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہ لگا گیا اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہوجاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرادیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہوگئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف فدیہ آگیا اور ہم نے نجات پائی ابن عساکر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا یہ دعا پڑھا کر اللھم انی اسئلک نفسا بلک مطمئنتہ تو من بلقائک وترضی بقضالک وتفنع بعطآئک الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو تیری قضا پر راضی ہو تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ہو سورة والفجر کی تفسیر ختم ہوئی۔

اردو ترجمہ

اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اِس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa rabbuka waalmalaku saffan saffan

اردو ترجمہ

اور جہنم اُس روز سامنے لے آئی جائے گی، اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اُس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajeea yawmaithin bijahannama yawmaithin yatathakkaru alinsanu waanna lahu alththikra
593