سورہ نجم (53): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Najm کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النجم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نجم کے بارے میں معلومات

Surah An-Najm
سُورَةُ النَّجۡمِ
صفحہ 526 (آیات 1 سے 26 تک)

وَٱلنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ ذُو مِرَّةٍ فَٱسْتَوَىٰ وَهُوَ بِٱلْأُفُقِ ٱلْأَعْلَىٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰٓ إِلَىٰ عَبْدِهِۦ مَآ أَوْحَىٰ مَا كَذَبَ ٱلْفُؤَادُ مَا رَأَىٰٓ أَفَتُمَٰرُونَهُۥ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ وَلَقَدْ رَءَاهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ عِندَ سِدْرَةِ ٱلْمُنتَهَىٰ عِندَهَا جَنَّةُ ٱلْمَأْوَىٰٓ إِذْ يَغْشَى ٱلسِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ مَا زَاغَ ٱلْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ ءَايَٰتِ رَبِّهِ ٱلْكُبْرَىٰٓ أَفَرَءَيْتُمُ ٱللَّٰتَ وَٱلْعُزَّىٰ وَمَنَوٰةَ ٱلثَّالِثَةَ ٱلْأُخْرَىٰٓ أَلَكُمُ ٱلذَّكَرُ وَلَهُ ٱلْأُنثَىٰ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰٓ إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَمَا تَهْوَى ٱلْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ ٱلْهُدَىٰٓ أَمْ لِلْإِنسَٰنِ مَا تَمَنَّىٰ فَلِلَّهِ ٱلْءَاخِرَةُ وَٱلْأُولَىٰ ۞ وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ لَا تُغْنِى شَفَٰعَتُهُمْ شَيْـًٔا إِلَّا مِنۢ بَعْدِ أَن يَأْذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَىٰٓ
526

سورہ نجم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نجم کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnajmi itha hawa

اس پیراگراف میں ہم نہایت ہی بلند روشن اور پھڑپھڑانے والے افق پر ہیں جہاں حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک نے چند خوبصورت اور نورانی لمحات عالم بالا کے ساتھ گزارے۔ ایک نہایت ہی نرم ، دھیمی موجوں پر مشتمل اور ترکیب پانے والے ترنم ہیں۔ ہم ان پر کیف لمحات کے رنگ ڈھنگ اور اشارات سنتے ہیں۔ الفاظ ان کی موسیقیت اور ماحول سب ہی پر کیف ہیں۔

یہ واردات قلب محمد ﷺ کے وہ وہ لمحات ہیں جن میں آپ کی نظروں کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ہیں اور آپ عالم بالا سے ہدایات اور وحی لے رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ آپ کا قلب حفظ کررہا ہے۔ یہ لمحات کیسے تھے اس کا صحیح احساس تو صیقل شدہ قلب محمد ہی کو ہوگا لیکن اللہ کا کرم کہ اس نے ہم بندوں کے لئے اس واردات کو الفاظ میں بیان کردیا۔ نہایت ہی موثر انداز میں ایسی موسیقی کے ساتھ جو پانی کی طرح بہتی ہے جس میں تلمیحات کے رنگ ڈھنگ اور ماحول اور اشارات کو ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اس صیقل شدہ دل کا سفر تھا اور عالم بالا کی وسعتوں میں تھا۔ ایک ایک قدم کی تصویر ہماری نظروں میں آرہی ہے۔ ایک ایک منظر ، ایک ایک قدم اور اس انداز میں کہ گویا ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔

آغاز ایک قسم سے ہوتا ہے۔

والنجم اذا ھوی (35 : 7) ” قسم ہے تارے کی جب غروب ہو “ ستارہ غروب ہوتا ہے زمین کے قریب ہو کر اس کی قسم ہے اور جس بات پر قسم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل یوں تھے۔

وھو بالافق ........ ما اوحی (35 : 01) ” جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اس نے پہنچائی “ تو ستارے کی حرکت اور حضرت جبرائیل کی حرکت کے درمیان نہایت ہم آہنگی اور یکرنگی ہے۔ یوں اس منظر میں ماحول ، حرکت اور موزونیت ابتدا ہی سے چلتی ہیں۔

والنجم اذاھوی (35 : 1) ” قسم ہے ستارے کی جب غروب ہوا “ کی تفسیر میں مختلف تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ زیادہ فریب الفہم یہ تفسیر ہے کہ اس سے شعریٰ ستارہ مراد ہے کیونکہ بعض عرب اسے پوجتے تھے اور بعد میں اس سورة میں اس کا ذکر بھی آیا ہے۔

وانہ ھو ........ الشعری (35 : 94) ” اور وہی شعری کا رب ہے “ پرانے لوگ شعری ستارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ مشہور ہے کہ پرانے مصری یہ کہتے تھے کہ جب شعری اعلی افلاک کو عبور کرے تو نیل میں پانی کا طوفان آجاتا تھا۔ اس لئے وہ شعری کو دیکھتے رہتے تھے اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں دونوں کی روایات میں اس کے بیشمار افسانے مشہور ہیں۔ لہٰذا یہاں ستارے سے مراد یہی شعری ہے اور یہاں قسم اور مقسم علیہ کے درمیان ہم رنگی بھی مقصود ہے جو اس ستارے کے غروب سے ظاہر ہے۔ پھر یہاں یہ اشارہ بھی دینا مقصود ہے کہ ستارہ اگر بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو ، وہ غروب اور غائب ہونے والا ہے۔ معبود تو وہ ہونا چاہئے جسے زوال و غروب نہ ہو۔ یہ تو تھی قسم جس بات پر قسم اٹھالی گئی ہے وہ یہ ہے۔

اردو ترجمہ

تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma dalla sahibukum wama ghawa

ما ضل ........ یوحیٰ (35 : 4) ” تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل ہوجاتی ہے۔ “ تمہارا ساتھی صحیح راہ پر ہے وہ گمراہ نہیں ہوا۔ وہ صراط مستقیم پر ہے۔ کسی ٹیڑھی راہ پر نہیں چل رہا ہے۔ وہ مخلص ہے ، مطلب پرست نہیں ہے۔ وہ حق کی تبلیغ کررہا ہے نہ وہم پرست ہے نہ افترا پرداز ہے اور نہ بدعتی ہے اور نہ وہ تمہیں جو تبلیغ کررہا ہے اس میں اس کے ہوائے نفس کا کوئی دخل ہے۔ وہ وہی کچھ کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے اور وہ صادق وامین ہے۔ اس لئے وہ سچ کی تبلیغ کرتا ہے۔

اس وحی کے حاملین معلوم ہیں اس کا طریقہ کار متعین ہے اور اس کو لانے والوں کو حضور نے خود دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے۔ یہ محض کوئی موہوم بات نہیں ہے نہ آپ کو کسی غیبی قوت قوت نے دھوکہ دے دیا ہے۔

اردو ترجمہ

وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yantiqu AAani alhawa

اردو ترجمہ

یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In huwa illa wahyun yooha

اردو ترجمہ

اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAallamahu shadeedu alquwa

علمہ شدید ............ ما یغشیٰ (61) (35 : 4 تا 61)

” اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب حکمت ہے۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ “

یہ شدید القوی اور ذومرہ (یعنی قوت والے) کون ہیں ؟ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو وہ وحی سکھائی جسے وہ آپ کو پہنچا رہے ہیں۔ یہی راہ اور یہی سفر ہے اور اس راہ ورسم کے تمام منازل اور مقامات واضح ہیں۔ اعلیٰ افق پر وہ سیدھے سیدھے کھڑے تھے۔ حضور اکرم نے انہیں دیکھا۔ یہ آغاز وحی کا منظر ہے۔ جب حضور ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اس صورت میں دیکھا جس پر اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ یہ بہت ہی عظیم خلقت والے ہیں۔ جب حضور کو نظر آئے تہو پورے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ حضور کے قریب آتے گئے۔ وہ بہت قریب آگئے۔ دو کمانوں کے فاصلے سے بھی قریب۔ تو اس قریب کی حالت میں انہوں نے حضور کی طرف وحی فرمائی جو کچھ انہوں نے وحی کرنا تھا۔ کردیا ” جو کچھ وحی کرنا تھا “ یہ اجمال دراصل وحی کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کا ظہور تو دور افق اعلیٰ پر ہوا لیکن وحی کی تلقین انہوں نے نہایت ہی قریب آکر کی اس لئے اس کی تلقی اور اخذ میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

حضرت محمد ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ وہ بہت ہی یقینی حالت ہے۔ اس دیکھنے میں کوئی اشتباہ نہ تھا غلط فہمی کا کوئی احتمال تھا اور نہ شک اور بحث کی گنجائش ہے۔

اردو ترجمہ

جو بڑا صاحب حکمت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thoo mirratin faistawa

اردو ترجمہ

وہ سامنے آ کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa bialofuqi alaAAla

اردو ترجمہ

پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma dana fatadalla

اردو ترجمہ

یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakana qaba qawsayni aw adna

اردو ترجمہ

تب اُس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اُسے پہنچانی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faawha ila AAabdihi ma awha

اردو ترجمہ

نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اُس میں جھوٹ نہ ملایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma kathaba alfuadu ma raa

ماکذب الفواد مارا (11) افتمرونہ علی مایری (35 : 21) ” نظر نے جو دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے “ نہ صرف نظر سے دیکھا ہے آپ نے بلکہ دل سے بھی دیکھا ہے اور نظر میں تو فریب نظر ہوسکتا ہے لیکن دل میں فریب ممکن نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا اور آپ کے قلب نے یقین کیا کہ یہ فرشتہ ہے۔ حامل وحی ہے ، اللہ کافر ستادہ ہے۔ آپ کی طرف تاکہ آپ کو وحی دے اور آپ تبلیغ کریں اور یہ جھگڑا اب ختم ہے کیونکہ آپ کے قلب نے اس حقیقت پر یقین کرلیا ہے اور آپ صادق وامین ہیں۔

پھر محمد ﷺ نے اس فرشتے کو صرف ایک ہی مرتبہ نہیں دیکھا۔ دوسری بار بھی دیکھا ہے۔

ولقد ........ الکبری (81) (35 : 31 تا 81) ” اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرة المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ چھارہا تھا نگاہ نہ چندھائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں “

یہ واقعہ واضح روایات کے مطابق شب معراج میں پیش آیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے قریب آئے اور وہ اس ہیئت اور خلقت میں تھے جس پر اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اس وقت یہ سدرة المنتہیٰ کے پاس تھے۔ سدرہ ایک درخت ہے۔ بیری کا درخت۔ المنتہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ جہاں کوئی حد آکر ختم ہوتی ہے اور وہیں جنت الماوی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تک شب معراج کو آپ کی سواری گئی۔ جہاں جاکر حضور اکرم اور جبرائیل (علیہ السلام) کی رفاقت ختم ہوئی۔ جہاں جبرائیل جاکر رک گئے اور حضرت محمد ﷺ اس سے بھی آگے گئے۔ اس مقام تک جو عرش ربی کے زیادہ قریب تھا۔ بہرحال یہ سب باتیں وہ ہیں جن کا تعلق عالم بالا اور عالم غیب سے ہے۔ اس کی حقیقت اللہ کو معلوم ہے یا اللہ کے بندے المصطفیٰ کو معلوم ہے۔ بس اسی قدر ہمیں روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی روایت نہ ہو تو یہ اس سلسلے میں عقل کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔ اس موضوع پر انسان وہی کچھ معلوم کرسکتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ سے ملے۔ جو ملائکہ کا بھی خالق ہے جو انسان کا بھی خالق ہے اور دونوں کے خصائص کو وہ خوب جانتا ہے۔

البتہ یہاں اللہ تعالیٰ سدرة المنتہیٰ کے کچھ حالات بتادیئے ہیں تاکہ بات یقینی ہوجائے۔ اس سفر کو یقینی اور تاکیدی بنانے کے لئے۔

اردو ترجمہ

اب کیا تم اُس چیز پر اُس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afatumaroonahu AAala ma yara

اردو ترجمہ

اور ایک مرتبہ پھر اُس نے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad raahu nazlatan okhra

اردو ترجمہ

سدرۃالمنتہیٰ کے پاس اُس کو دیکھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAinda sidrati almuntaha

اردو ترجمہ

جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAindaha jannatu almawa

اردو ترجمہ

اُس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yaghsha alssidrata ma yaghsha

اذ یغشی ........ یغشیٰ (35 : 61) ” اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھارہا تھا “ اس کی تفصیلات نہیں دی گئیں اور نہ تعین کیا گیا ہے کہ وہ کیا چھا رہا تھا۔ وہ اس قدر عظیم اور ہولناک چیز تھی کہ اس کا بیان مشکل ہے اور اس کا تعین کرنا مشکل۔ غرض وہ ایک عظیم حقیقت تھی۔

اردو ترجمہ

نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma zagha albasaru wama tagha

اور یہ مشاہدایت بھی حق اور یقینی ہے۔

مازاغ ............35 : 71) ” نگاہ نہ چندھائی نہ حد سے متجاوزہوئی “ یہ نہ تھا کہ نظر چکا چوند ہوگئی اور وہ اچھی طرح نہ دیکھ سکی۔ نہ یہ ہوا کہ نظر آگے بڑھ گئی اور ہدف کو دیکھ نہ سکی بلکہ یہ مشاہدات واضح ، صاف اور ایک حقیقت اور ٹھوس شکل میں تھے جن میں کوئی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں تھی اور ان مشاہدات میں صرف یہ باتیں نہ تھیں جو بتائی گئی ہیں بلکہ آپ کو اپنے رب کی بہت عظیم عظیم دوسری نشانیاں بھی بتائی گئیں اور اس کائنات کی حقیقت آپ کو بالکل کھول کر براہ راست دکھائی گئی۔

لہٰذا حضور ﷺ کے وحی وصول کرنے کا معاملہ ایک مشاہدہ ہے۔ حقیقی طور پر آپ نے عالم بالا کو دیکھا ہے۔ آپ یقین محکم سے یہ بات فرماتے ہیں۔ براہ راست آپ کا عالم بالا سے رابطہ ہے۔ یہ علم اور معرفت نہایت ٹھوس اور یقینی ہے۔ آپ نے حسی طور پر یہ رابطے قائم کئے ہیں۔ یہ سفر بھی حسی اور حقیقی ہے اور یہ تفصیلات جو دی جارہی ہیں یہ حقیقی ہیں تمثیلات نہیں ہیں اور تمہارے صاحب کی دعوت ایسے یقینی مشاہدات پر مبنی ہے اور تم جو انکار کررہے ہو تو ان باتوں کا کررہے ہو جو آپ کی دیکھی ہوئی ہیں اور نزول وحی میں شک کررہے ہو اور تمہارے صاحب کے بارے میں تم اچھی طرح جانتے ہو ، اسے صادق وامین مانتے ہو وہ تم میں کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں۔ تمہارا رب قسم اٹھا کر اس کی تصدیق اور توثیق کرتا ہے اور یہ تفصیلات دیتا ہے کہ اس وحی کی کیفیت کیا رہی اور یہ پیغام کس کے ہاتھوں پہنچ رہا ہے اور کہاں جبرائیل اور محمد ﷺ کی ملاقات ہوئی اور سدرہ پر جو کچھ تھا تو وہ تھا ہی ............

غرض یہ تو یقینی امر ہے جس کی طرف محمد ﷺ بلا رہے ہیں۔ اب ذرا تم غور کرو کہ تمہارے تخیلات اور مفتریات اور الٰہ کیسے لوگ ہیں اور ان کی افسانوی حقیقت کیا ہے تم جو لات ، منات اور عزیٰ کی عبادت کرتے ہو ان کی الوہیت کا ثبوت کیا ہے۔ تم جو دعویٰ کرتے ہو کہ لات منات اور عزی ملائکہ ہیں تو ان کو کس نے دیکھا ہے ؟ کیا ثبوت ہے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ثبوت ہے کہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش چلے گی ؟ دلیل وحجت بھی تو لاؤ ؟ آخر تمہارے ان اوہام خرافات اور کہانیوں اور افسانوں کی کیا دلیل ہے۔ کوئی عقلی یا نقلی دلیل۔

اردو ترجمہ

اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad raa min ayati rabbihi alkubra

اردو ترجمہ

اب ذرا بتاؤ، تم نے کبھی اِس لات، اور اِس عزیٰ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytumu allata waalAAuzza

لات ایک سفید پتھر تھا جس پر نقش ونگار تھے۔ طائف میں اس کے اوپر ایک مکان اور درگاہ بنی ہوئی تھی جو طائف میں تھی اور اس کے اوپر پجاری متعین تھے۔ اس درگاہ کے اردگرد ایک بڑی چار دیواری تھی اور اہل طائف اس کا بہت احترام کرتے تھے یعنی فخر کرتے تھے ماسوائے قریش کے کہ ان کے پاس کعبہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لات کا لفظ مونث ہے اللہ کا جو اس سے پاک ہے۔

اور عزی ایک درخت تھا جس کے اوپر بھی ایک عبادت گاہ بنی ہوئی تھی اور پردے تھے اور یہ نخلہ کے مقام پر تھی جو مکہ اور طائف کے درمیان تھی۔ اس کی تعظیم قریشی بھی کرتے تھے جس طرح احد کے دن ابوسفیان نے کہا۔

لنا العزی ولا عزی لکم ” ہمارا عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں “ تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ جواب دو ۔

اللہ مولنا ولا مولی لکم ” اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے “ اور العزی عزیز کی مونث بتلائی جاتی ہے۔

مناة کا بت قدید کے قریب مشلل میں تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ خزاعہ ، اوس اور حزرج اس کی تعظیم کرتے تھے اور قدید یا مشلل سے مکہ کے لئے احرام باندھتے تھے۔ مناة کے احترام میں۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت بت تھے جن کو عرب میں پوجا جاتا تھا مگر یہ تین بڑے آستانے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں نام تین ملائکہ کے نام تھے جنہیں عرب اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور اسی وجہ سے یہ ان کی عبادت کرتے تھے اور جس طرح اصول ہے کہ چلتے چلتے یہ تینوں بذات خود معبود ہوگئے اور جمہور عوام نے اللہ کو بھلا کر ان بتوں کو بذات خود معبود مطلق سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ کم ہی لوگ اس قسم کے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی عبادت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

ان معبودوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی تعجب انگیز انداز میں کیا جس طرح کہ عبارت سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔

افرءیتم ........ الاخری (35 : 02) ” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات اور اس عزی اور تیسری ایک دیوی مناة کی حقیقت پر غور کیا ہے ؟ “ تعجب لفظ افرءیتم (ذرا بتاؤ کیا تم نے سو چاہے ؟ ) سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہایت ہی مضحکہ خیز سمجھتا ہے لیکن اس تعجب کے اظہار کے بعد ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لئے بیٹے۔

اردو ترجمہ

اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamanata alththalithata alokhra

اردو ترجمہ

کیا بیٹے تمہارے لیے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لیے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alakumu alththakaru walahu alontha

الکم ............ ضیزی (35 : 22) ” کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ہیں۔ یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی “ اس سے یعنی ان بتوں کے تعجب خیز ذکر کے بعد یہ تنقید بتائی ہے کہ یہ تینوں بت دراصل فرشتوں کے ناموں کے رمز تھے جن کو وہ اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے۔ ان کی حالت اپنے ہاں یہ تھی کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹیوں کی ولادت کو سخت مکروہ سمجھتے تھے لیکن اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرنے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے حالانکہ وہ فرشتوں کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتے تھے اور نہ معلومات تھیں ان کو جن کی بنا پر وہ یوں کہتے ہوں۔

اللہ تعالیٰ خود ان کے تصورات اور ان کے افسانوی عقائد کی رو سے ان پر تنقید فرماتا ہے بلکہ ان کا تمسخر اڑاتا ہے کہ کیا خوب کہی۔

الکم ............ الانثیٰ (35 : 12) ” کیا بیٹے تمہارے لئے اور بیٹیاں خدا کے لئے “ یہ تقسیم تو غیر منصفانہ ہے۔ اپنے حصہ تم نے کیا رکھا ہے اور اللہ کا حصہ کیا رکھا ہے۔

اردو ترجمہ

یہ تو بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ithan qismatun deeza

تلک اذا قسمة ضیزی (35 : 22) ” یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہے “ جبکہ حقیقت پسند نظر سے دیکھا جائے تو اس تصور کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ عقل و دانش کے زاویہ سے دیکھا جائے تو کوئی عقلی ونقلی دلیل اس پر نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے اِن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ اُن کے رب کی طرف سے اُن کے پاس ہدایت آ چکی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In hiya illa asmaon sammaytumooha antum waabaokum ma anzala Allahu biha min sultanin in yattabiAAoona illa alththanna wama tahwa alanfusu walaqad jaahum min rabbihimu alhuda

ان ھی الا اسمائ ........ ربھم الھدی (35 : 32)

” دراصل یہ کچھ نہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ “

یہ نام لات ، منات اور عزی وغیرہ کو معبود کہنا ، ان کو فرشتے کہنا ، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا یا فرشتوں کو عورتیں کہنا ، یہ سب الفاظ ہیں لیکن جن معانی کے لئے یہ لوگ ان کو بولتے ہیں وہ تو سرے سے ہیں ہی نہیں نہ اس قسم کے دعا دی پر کوئی حجت ہے۔ اللہ نے ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لہٰذا ان دعا دی پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ حقیقت کا اپنی جگہ ایک وزن ہوتا ہے۔ حقیقت کی اپنی جگہ قوت ہوتی ہے۔ رہا باطل تو وہ ضعیف اور ہلکا ہوتا ہے ، کمزور ہوتا ہے اور اس کے اندر گرفت کی قوت نہیں ہوتی۔

اس آیت کے نصف میں ان کو ان کے اوہام و خرافات میں غرق چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان سے مکالمہ ختم کردیا جاتا ہے اور ان سے نظر پھیر دی جاتی ہے۔ یوں کہ وہ گویا مکالمہ کے اندر تھے ہی نہیں۔ اب وہ غائب کردیئے جاتے ہیں اور ان پر تبصرہ ہوتا ہے۔

ان یتبعون ........ الانفس (35 : 32) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض ظن و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ “ لہٰذا ان کے پاس نہ حجت ہے نہ علم ہے اور نہ یقین ہے۔ ان کے عقائد محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔ ان کی خواہشات ان کی دلیل ہیں حالانکہ عقائد ونظریات میں ظن اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں حقیقت یقین اور ہوا وہوس سے پاک اور غرض اور مطلب سے دور اور پاک رویہ درکار ہے جبکہ ان کے پاس محض ظن ، خواہش اور اغراض دنیاوی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

ولقد ........ الھدی (35 : 32) ” حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے “ لہٰذا اب تو ان کے پاس یہ عذرات بھی نہیں رہے۔

معاملہ اگر خواہشات نفسانیہ تک پہنچ جائے اور خواہشات پر فیصلے ہونے لگیں تو انسان کی کوئی کل سیدھی نہیں رہ سکتی۔ پھر ہدایت کا اور تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں رہتا کیونکہ ہدایت کو رد کرنے کی وجہ یہ نہیں رہتی کہ ان کو معلوم نہ تھا بلکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتے یہ تھے۔ پہلے انہوں نے خواہش نفس کے تحت فیصلے کرلئے ہیں اب وجہ جواز تلاش کررہے ہیں جب نفس انسانی یہاں تک گر جائے تو پھر اس کے لئے ہدایت مفید ہی نہیں ہوتی۔ دلیل کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اللہ سخت ناپسندیدگی کے ساتھ سوال فرماتا ہے۔

اردو ترجمہ

کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لیے وحی حق ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am lilinsani ma tamanna

ام للانسان ماتمنی (35 : 42) ” کیا انسان جو کچھ چان ہے اس کے لئے وہی حق ہے “ یوں کہ وہ جو چاہے حقیقت بن جائے۔ اس کی خواہشات واقعہ بن جائیں لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ حق حق ہوتا ہے اور واقعہ واقعہ ہوتا ہے۔ کوئی جس قدر بھی چاہے اس کی چاہت سے واقعات اور حقائق نہیں بدل سکتے۔ انسان تباہی تمناؤں کے ہاتھ سے ہوتا ہے اور ہلاکت کے گڑھے میں پڑتا ہی خواہشات نفس سے ہے۔ اس لئے خواہشات اور تمنائیں حقیقت نفس الامری کو بدل نہیں سکتیں۔ دنیا اور آخرت کے حقائق میں تغیر وتبدل کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو حق ہے۔

اردو ترجمہ

دنیا اور آخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falillahi alakhiratu waaloola

فللہ الاخرة والاولی (35 : 52) ” دنیا وآخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے “ یہاں اللہ تعالیٰ نے دنیا سے آخرت کا ذکر پہلے کیا تاکہ لفظ اولی سورت کے انداز گفتگو اور قافیہ کے مطابق ترنم پیدا کردے جبکہ معنوی اعتبار سے بھی اہمیت آخرت کی ہے۔ قرآن کا انداز ہی ایسا ہے کہ مراعات لفظی کے نتیجے میں معنی میں فرق نہیں پڑتا کیونکہ کلام کا کمال و جمال تو اس میں ہے کہ وہ لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے مقتضی الحال کے مطابق ہو اور نہایت ہی برمحل اور موزوں ہو۔

جب آخرت اور دنیا کے تمام معاملات میں اختیار اللہ کا ہے تو مشرکین کے یہ جو خیالات ہیں کہ وہ فرشتوں کی بندگی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو اللہ کے قریب کردیں یہ بالکل باطل ہیں۔ فرشتوں کو تو سفارش کا اختیار ہی نہیں ہے۔ قیامت میں شفارش کا اختیار صرف ان لوگوں کو ہوگا جن کو اللہ کی طرف سے اذن ہوگا۔

اردو ترجمہ

آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، اُن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اُس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakam min malakin fee alssamawati la tughnee shafaAAatuhum shayan illa min baAAdi an yathana Allahu liman yashao wayarda

وکم من ............ ویرضیٰ (35 : 62) ” آسمان میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں۔ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے۔ “ لہٰذا ان کا دعویٰ بےبنیاد ہے اس سے پہلی آیت میں بھی ان کا بطلان ثابت کردیا گیا ہے اور عقائد کو ہر قسم کے شبہات اور ملاوٹ سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ دنیا وآخرت دونوں میں فیصلے کا اختیار اللہ کو ہے اور انسان کی تمنائیں اور خواہشات حق میں تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ سفارش کی اجازت اللہ کے اذن کے بغیر نہ ہوگی۔ لہٰذا آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔

اس پیراگراف کے آخر میں مشرکین کے اوہام کو آخری بار رد کیا جاتا ہے کہ فرشتوں کے بارے میں مشرکین کے خیالات کسی اصل پر قائم نہیں ہیں۔

526