سورہ نوح (71): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Nooh کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ نوح کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نوح کے بارے میں معلومات

Surah Nooh
سُورَةُ نُوحٍ
صفحہ 570 (آیات 1 سے 10 تک)

إِنَّآ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦٓ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ يَٰقَوْمِ إِنِّى لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ إِذَا جَآءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ قَالَ رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِى لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَآءِىٓ إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّى كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوٓا۟ أَصَٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِمْ وَٱسْتَغْشَوْا۟ ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا۟ وَٱسْتَكْبَرُوا۟ ٱسْتِكْبَارًا ثُمَّ إِنِّى دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ثُمَّ إِنِّىٓ أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا فَقُلْتُ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًا
570

سورہ نوح کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نوح کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna arsalna noohan ila qawmihi an anthir qawmaka min qabli an yatiyahum AAathabun aleemun

انا ارسلنا ................................ کنتم تعلمون

سورت کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ رسالت اور نبوت کا سرچشمہ کیا ہے اور یہ نظریہ اور عقیدہ کہاں سے آرہا ہے۔

انا ارسلنا ............ قومہ (17 : 1) ” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا “۔ گویا سرچشمہ ہدایت و رسالت ذات باری تعالیٰ ہے۔ تمام انبیاء اپنے عقائد اور ہدایات اللہ سے لیتے ہیں ، اللہ انسانوں کا بھی خالق ہے۔ اس کائنات کا بھی خالق ہے اور اللہ ہی ہے جس نے افسانوں کی فطرت کے اندر معرفت رب کی استعداد رکھی ۔ اور جب بھی انسانوں نے راہ فطرت اور اللہ کی ہدایت سے منہ موڑا ، اللہ نے کوئی نہ کوئی رسول بھیج دیا۔ اور تمام رسول ہمیشہ گم کردہ راہ انسانیت کو راہ راست کی طرف موڑتے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سلسلہ رسل کی پہلی کڑی تھے۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد۔ قرآن کریم نے حضرت آدم کی رسالت کا ذکر نہیں فرمایا کہ انہوں نے انسانوں کی ہدایت کے لئے یہ یہ کام کیا ، اس لئے کہ حضرت آدم صرف اپنے بیٹوں اور پوتوں کی ہدایت پر مامور تھے۔ اور حضرت آدم کے پوتے اور اولاد آپ کی وفات کے بعد ایک عرصے کے بعد گمراہ ہوئی اور اپنے لئے بت گھڑ لیے۔ اور ان کی پوجا کرنے لگی۔ پہلے تو وہ ان کو مقدس قوتوں کے لئے بطور مزواشارہ استعمال کرتے تھے بعد میں انہوں نے ان بتوں ہی کی پوجا اختیار کرلی۔ اور ان بتوں میں سے مشہور وہ پانچ بت تھے ، جن کا ذکر اس سورت میں آرہا ہے۔ چناچہ جب یہ لوگ گمراہ ہوگئے تو اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ارسال فرمایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو عقیدہ توحید کی طرف واپس لانے کی طویل جدوجہد کی۔ اور ان کے عقائد کو درست کرنے کی سعی کی۔ کتب سابقہ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو سب سے پہلے نبی کے طور پر ذکر کیا گیا۔ یعنی حرضت نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے۔ لیکن کتب سابقہ کے مندرجات ہمارے لئے حجت نہیں ہیں ، اس لئے کہ ان کے اندر باربار تحریف ہوتی رہی ہے اور ان میں بار بار حذف واضافہ ہوتا رہا ہے۔

قرآن کریم کے قصص کے مطالعے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی ہیں اور ان کو بالکل انسانیت کے ابتدائی دور میں بھیجا گیا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی۔ اس دور کے لوگوں کی یہ طویل عمر بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ لوگ بہت ہی ابتدائی دور کے لوگ تھے اور پھر اس دور میں انسانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی اور انسانوں کی نسل ابھی تک اس طرح نہ پھیلی تھی جس طرح زمانہ مابعد میں پھیل گئی۔ حیاتیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اشیاء کی تعداد کم ہو تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ ہی حقیقت سے واقف ہے۔ یہ سنن الٰہی کے مطالعہ پر مبنی ہمارا قیاس ہے۔

اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی رسالت کے مشن اور ہدف کی طرف مختصراشارہ آتا ہے۔ یہ کہ اے نوح (علیہ السلام) تم اپنی قوم کو ڈراﺅ:

ان انذر .................... الیم (17 : 1) ” کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردے قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آئے “۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جس حالت تک پہنچ چکی تھی اور جس طرح وہ آپ کی ہدایات اور تبلیغ سے منہ موڑ رہی تھی ، تکبر کررہی تھی اور نہایت ہی ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھی ، اس کے لئے یہاں یہ کہنا مناسب ہے کہ بس تم ان کو انجام بد سے ڈراﺅ، چناچہ انہوں نے اپنی تقریر کا آغازیوں کیا کہ لوگو ، دنیا وآخرت کے عذاب سے ڈرو ، تم اپنے آپ کو اس عذاب کا مستحق بنا رہے ہو۔

فریضہ رسالت کے تعین کے بعد فوراً یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) تبلیغ شروع کرچکے ہیں۔ آپ کا خطاب یوں ہے کہ لوگوں تم اگرچہ نہایت گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کرچکے ہو لیکن باز آجاﺅ، توبہ کرو ، تمہارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور تمہارا حساب قیامت تک کے لئے ملتوی کردیا جائے گا۔ ورنہ تم تو فوری ہلاکت اور پکڑ کے مستحق ہو۔ ساتھ ساتھ اصول دعوت کا ذکر بھی کردیا گیا کہ اللہ وحدہ کی بندگی کرو ، تمام معاملات میں میری سنت کی پیروی کرو۔

اردو ترجمہ

ا س نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ya qawmi innee lakum natheerun mubeenun

قال یقوم .................................... تعلمون (4) (17 : 2 تا 4) ” اس نے کہا : ” اے میری قوم کے لوگو ! میں تمہارے لئے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں۔ (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا ، کاش تمہیں اس کا علم ہو “۔

قال یقوم ............................ مبین (17 : 2) ” اے میری قوم کے لوگو ، میں تمہارے لئے صاف صاف خبردار کردینے والا ہوں “۔ آپ اپنی دعوت میں جس بات کی وضاحت کرتے ہیں وہ ڈراوا ہے۔ اور اس ڈراوے کو آپ نہایت ہی وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ مجمل بات نہیں کرتے نہ پیچیدہ کرکے اور لپیٹ کر محض اشارات وکنایات سے بات کرتے ہیں نہ آپ اپنی دعوت کے سلسلے میں شف شف کرتے ہیں۔ اور قوم نوح جس انجام سے دوچار ہونے والی تھی وہ بھی آپ نے صاف صاف بتادیا کہ اگر تم باز آجاﺅ تو دنیا کا عذاب موخر ہوسکتا ہے۔

اردو ترجمہ

(تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ani oAAbudoo Allaha waittaqoohu waateeAAooni

حضرت نوح (علیہ السلام) جو دعوت پیش کررہے تھے ، وہ بھی سادہ اور سیدھی ہے۔

ان اعبدو .................... واطیعون (17 : 3) ” کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو “۔ یعنی اللہ وحدہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، تمہارے شعور و سلوک پر یہ بات چھائی ہوئی ہو ، اور رسول اللہ کی اطاعت وہ بات ہے جس سے نظام زندگی پھوٹتا ہے اور زندگی کے تفصیلی قواعد وضع ہوتے ہیں جس کی تعبیر سنت رسول سے کی جاتی ہے۔

بس تمام ادیان سماوی کے یہی خطوط ہیں۔ اللہ کا حکم اور رسول اللہ کی اطاعت۔ انہی خطوط پر دین استوار ہوتا ہے۔ تفصیلات ہر دور کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔ انسانیت کے تفصیلی سوالات ، اس کا تصور وجود اور اس کائنات کے اندر پائے جانے والے مختلف سوالات جو مختلف ادوار میں ہوتے ہیں ان کے جوابات کے نتیجے میں ادیان کی تفصیلات اور فروعات میں اختلاف ہوتا ہے۔

اللہ کی پوری بندگی کرنا ہی دراصل ایک مکمل نظام ہوتا ہے۔ اللہ کی بندگی میں تصور الٰہ ، اس کی اطاعت کی تفصیلات خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی نوعیت ، اس کائنات میں حسن وقبح کے اصول ۔ لوگوں کی زندگیوں میں حسن وقبح کے اصول۔ اس طرح اللہ کی بندگی کے اصول سے ایک مکمل نظام زندگی قائم ہوجاتا ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک منہاج سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایک ربانی منہاج حیات ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندگی اور خدائی کا باہم تعلق کیا ہوتا ہے ؟ اور وہ کیا قدریں ہیں ، جو زندہ اور غیر زندہ اشیاء کے متعلق اللہ نے تجویز فرمائی ہیں۔ اور ” خدا کا خوف “ وہ ضامن ہے جو اس نظام زندگی اور منہاج حیات کو قائم رکھتا ہے۔ جس قوم کے دل میں خدا کا خوف ہو وہ اس منہاج سے ادھر ادھر نہیں جاتی۔ نہ اس میں حیلے اور بہانے تلاش کرتی ہے۔ نیز تقویٰ کے بدولت انسان کے اندر اخلاق فاضلہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسان کا طرز عمل حقیقی ہوتا ہے ، بغیر کسی ظاہرداری اور دکھاوے کے۔

اطاعت رسول سے دراصل راستے کی حدود کا تعین ہوتا ہے اور انسان اس سیدھی راہ پر چلنے کے لئے تفصیلی ہدایات اخذ کرتا ہے اور براہ راست رب تعالیٰ اور عالم بالا سے مربوط رہتا ہے۔

یہ تھے وہ خطوط جن پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے آغاز انسانیت سے لوگوں کے لئے راہ ہدایت اور منہاج حیات استوار کیا۔ اور از منہ مابعد کی تمام دعوتیں انہی خطوط پر استوار ہوتی رہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر تم نے توبہ کرلی اور لوٹ آئے تو اللہ معاف کردے گا۔

اردو ترجمہ

اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا کاش تمہیں اِس کا علم ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaghfir lakum min thunoobikum wayuakhkhirkum ila ajalin musamman inna ajala Allahi itha jaa la yuakhkharu law kuntum taAAlamoona

یغفرلکم ........................ اجل مسمی (17 : 4) ” اور تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا “۔ اور یہ باقی رکھنا ، اس بات کے عوض میں ہوگا کہ تم اللہ کی بندگی کرو گے ، اللہ سے ڈرو گے اور رسول خدا کی اطاعت کرو گے ، اور اس کے بدلے اللہ مزید یہ کرے گا کہ تمہارے سابقہ گناہ بھی معاف کردے گا اور تمہارا حساب و کتاب اس وقت تک موخر ہوجائے گا جو اللہ نے مقرر کررکھا ہے یعنی یوم الاخرت تک۔ اور اس طرح دنیا میں تم پر جو تباہ کن عذاب آنے والا ہے ، وہ موخر ہوجائے گا۔ (عنقریب حضرت نوح (علیہ السلام) پیش کریں گے کہ اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ اور بھی وعدے فرمائے تھے) ۔

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ قیام قیامت حتمی ہے اور وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی۔ اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ جس طرح دنیا کے عذاب میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ چناچہ قیامت کے بارے میں عقیدے کو یوں درست کردیا جاتا ہے۔

ان اجل ........................ تعلمون (17 : 4) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا ، کاش تمہیں اس کا علم ہو “۔ اس سے مراد قیامت بھی ہوسکتی ہے اور ہر وہ دوسرا وقت بھی ہوسکتا ہے جو اللہ کسی واقعہ کے وقوع کے لئے مقرر کردے۔ بہرحال یہاں یہ عام عقیدہ ذہنوں میں بٹھانا مقصود ہے کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ٹالا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگ ریہ لوگ اطاعت کرلیں اور توبہ کرلیں تو اللہ دنیا میں تباہ کردینے کی بجائے قیام قیامت تک کے لئے ان کا عذاب ٹال دے گا۔

حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی مساعی جاری رکھے ہوئے ہیں ، اور اپنی قوم کو ہدایت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ کسی مصلحت کی پرواہ نہیں کرتے ، کسی مفاد کا لحاظ نہیں کررہے۔ وہ اس عظیم مقصد کے لئے وہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔ لوگ اعتراض کررہے ہیں ، منہ موڑ رہے ہیں اور مذاق کررہے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ساڑھے نو سو سال اس جدوجہد میں گزرجاتے ہیں۔ چند لوگ ہی دعوت قبول کرتے ہیں جبکہ قوم کی طرف سے منہ موڑنے ، گمراہی پر اصرار کرنے اور مذاق کرنے میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ٹھیک ساڑھے نو سو سال کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ اس طویل عرصے میں جو کچھ پیش آیا ، وہ عرض کردیتے ہیں ، جبکہ رب تعالیٰ کو تو پہلے سے معلوم ہے۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) بھی جانتے ہیں کہ رب کو معلوم ہے ، لیکن شکوہ شکایت یونہی دہرائی جاتی ہے اور انبیائے کرام کا شکوہ تو اللہ ہی سے ہوسکتا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں ہی اپنی فریاد پیش کرسکتے ہیں۔ اور وہ مومنین جن کو حقیقت ایمان تک رسائی حاصل ہوتی ہے وہ بھی صرف اللہ ہی سے شکایت کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اُس نے عرض کیا "اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi innee daAAawtu qawmee laylan wanaharan

قال رب انی ............................ سبلا فجاجا

یہ تھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کارکردگی اور یہ رہی ان کی رپورٹ۔ اس طویل عرصہ کارکردگی میں وہ اپنے رب کے سامنے اپنا حساب پیش فرماتے ہیں۔ آپ کی رپورٹ میں جو چیز نمایاں ہے ، وہ آپ کی جہد مسلسل ہے۔

انی دعوت .................... ونھارا (17 : 5) ” اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا “۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری ، وقفہ نہیں کیا ، اور وہ لوگوں کو مسلسل اعراض اور اصرار کے باوجود مایوس نہیں ہوئے لیکن

فلم یزدھم ................ فرار (17 : 6) ” لیکن میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا “۔ یعنی وہ داعی الی اللہ سے بھاگتے رہے اور شیطان کے پیچھے پڑے رہے۔ حالانکہ اللہ ان کا خالق تھا ، جن انعامات میں وہ مزے سے رہ رہے تھے ، وہ اللہ کی تخلیق کردہ تھیں۔ یہ ہدایت بھی اللہ ہی کی طرف سے آرہی تھی ، اور داعی نہ اجر کا طلبگار تھا اور نہ فیس عائد کررہا تھا۔ اور جس ذات سے وہ بھاگ رہے تھے وہ ان کو اس لئے بلارہی تھی کہ آﺅ تمہیں بخش دیا جائے ، آﺅ تمہیں ان گناہوں کے انجام سے بچایا جائے اور معصیت اور ضلال سے بچایا جائے۔

وہ تو بھاگتے رہے لیکن داعی حق ان کو گھیرتے رہے اور ہر طرح ان کے کانوں تک کلمہ حق پہنچاتے رہے لیکن انہوں نے نہ اس بات کو برداشت کیا کہ ان کے کانوں میں کلمہ حق پڑے اور نہ اس بات کو پسند کیا کہ پیغمبر پر ان کی نظریں پڑیں ، اس لئے انہوں نے گمراہی پر بےحد اصرار اور کلمہ حق کے قبول کرنے سے بڑا تکبر کیا۔

اردو ترجمہ

مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falam yazidhum duAAaee illa firaran

اردو ترجمہ

اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو اُنہیں معاف کر دے، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnee kullama daAAawtuhum litaghfira lahum jaAAaloo asabiAAahum fee athanihim waistaghshaw thiyabahum waasarroo waistakbaroo istikbaran

وانی کلما ........................ استکبار (17 : 7) ” اور جب بھی میں ان نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کردے ، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لئے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا “۔ یہ ہے انداز داعی حق کا کہ وہ اپنی دعوت پر اصرار کرتا ہے او جونہی اور جب بھی اسے موقعہ ملے وہ کلمہ حق کہہ دیتا ہے جبکہ اہل کفر کے اصرار کی بھی یہ ایک مثال ہے کہ جب وہ ہٹ دھرمی پر اترآئیں تو منہ بھی چھپالیتے ہیں۔ اس دعوت اور اس انکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایام میں جبکہ بشریت عہد طفولیت میں تھی۔ دعوت کے شب وروز کیا تھے کہ لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے اور سروں کو چادروں میں چھپا لیتے تھے۔ انداز تعبیر سے لوگوں کا کافرانہ طرز عمل ظاہر ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ یہ انگلیوں کو کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ پوری انگلیاں تو کانوں میں نہیں ٹھونسی جاتیں مگر یہ مبالغہ کے لئے کہا گیا کہ وہ کانوں کو یوں بند کررہے ہیں کہ آواز کسی طرح بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ گویا یہ کوشش کررہے تھے کہ پوری انگلی کو کانوں میں ٹھونس لیں۔ یہ سخت اصرار اور ہٹ دھرمی کی شکل ہے اور ابتدائی ادوار میں یہی صورت حالات تھی۔

اردو ترجمہ

پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innee daAAawtuhum jiharan

اردو ترجمہ

پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innee aAAlantu lahum waasrartu lahum israran

مسلسل دعوت دیتے چلے جانے ، ہر موقعہ سے فائدہ اٹھانے اور ان تھک جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت اسلامی کے لئے ہر انداز بھی اختیار کیا۔ کبھی انہوں نے ببانگ دہل دعوت دی۔ کبھی انہوں نے خفیہ تحریک چلائی۔

ثم انی .................... اسرارا (17 : 9) ” پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا “۔

اس دعوت کے دوران حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو یہ بھی بتایا کہ اگر تم میری دعوت قبول کرلو تو تمہیں دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی کامیابی نصیب ہوگی۔ اور یہ بھی بتایا کہ اگر تم لوگ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو تو وہ تمہیں بخش دے گا ، کیونکہ وہ تو بہت بخشنے والا ہے۔

اردو ترجمہ

میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqultu istaghfiroo rabbakum innahu kana ghaffaran

فقلت .................... غفارا (17 : 01) ” میں نے کہا : ” اپنے رب سے معافی مانگو ، بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے “۔ اور ان کو یہ لالچ بھی دیا کہ اللہ تمہیں وافر رزق بھی دے گا ، بارشوں کے ذریعہ نہریں بہادے گا ، اولاد دے گا ، اموال دے گا ، جو تمہیں بہت عزیز ہیں۔

570