سورۃ الاسراء (17): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Israa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإسراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الاسراء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Israa
سُورَةُ الإِسۡرَاءِ
صفحہ 282 (آیات 1 سے 7 تک)

سُبْحَٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا ٱلَّذِى بَٰرَكْنَا حَوْلَهُۥ لِنُرِيَهُۥ مِنْ ءَايَٰتِنَآ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَجَعَلْنَٰهُ هُدًى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِى وَكِيلًا ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا وَقَضَيْنَآ إِلَىٰ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ فِى ٱلْكِتَٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ أُولَىٰهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ أُو۟لِى بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا۟ خِلَٰلَ ٱلدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ ٱلْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَٰكُم بِأَمْوَٰلٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَٰكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ۚ فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ ٱلْءَاخِرَةِ لِيَسُۥٓـُٔوا۟ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا۟ مَا عَلَوْا۟ تَتْبِيرًا
282

سورۃ الاسراء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الاسراء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Subhana allathee asra biAAabdihi laylan mina almasjidi alharami ila almasjidi alaqsa allathee barakna hawlahu linuriyahu min ayatina innahu huwa alssameeAAu albaseeru

سورت کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے ، چونکہ مقام ایسا ہے جہاں بندے اور رب کی ملاقات ہور ہی ہے ، اس لئے ایسی فضا اور ایسے حالات میں تسبیح و تحلیل ایک مناسب فعل ہے اور حضرت محمد ﷺ کی صفت عبدیت کو یہاں خصوصیات کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا کہ اس قدر عروج اور بلندی درجات حضور اکرم ﷺ اللہ کے بندے ہی ہیں۔ دوسرے غلط مذاہب کی طرح مقام عبودیت اور مقام الوہیت کو ایک کرنے کے بجائے اس کو ممتاز رکھنا چاہیے۔ ان دونوں کا امتزاج ممکن نہیں۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آپ کی ذات میں الوہیت کو جمع کیا گیا۔ یہ محض اس لئے کیا گیا کہ آپ کی ولادت معجزانہ تھی ، آپ سے معجزات کا صدور ہوا اور پھر آپ کو اس دنیا سے معجزانہ طور پر اٹھایا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر بعض لوگوں نے ذات غیبی میں مقام الوہیت و عبودیت کا امتزاج کردیا۔ لیکن اسلامی عقیدے کو اس معاملے میں سادہ ، صاف اور خالص رکھا گیا اور اسلام نے ذات باری کے ساتھ ہر قسم کی شرک کی نفی کی خواہ قریب ہو یا بعید۔

اسراء سری سے مشتق ہے ، جس کے معنی رات کے وقت چلنے کے ہیں۔ اس سے اسریٰ ے مفہوم ہی میں رات کا وقت داخل ہے۔ لہٰذا اسری کے بعد رات کی صراحت ضروری نہیں ہے لیکن سیاق کلام میں رات کی صراحت بھی کردی گئی ہے۔

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا (71 : 1) ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو رات کو “۔ یہ اس لئے کہ اس سفر کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ دکھایا جائے کہ اس سفر پر ات کے سائے تھے ، نہایت ہی پرسکون ماحول تھا۔ اور یہ قرآن کریم کا خصوصی اسلوب ہے کہ وہ ہر واقعہ کے ماحول کو بھی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتا ہے ، جن حالات میں واقعہ ہوتا ہے۔ ویسی ہی فضا انسان کی قوت مدرکہ اور اس کے نفس پر سایہ فگن ہوجاتی ہے اور وہ واقعہ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

یہ سفر مبارکہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اللہ نے کرایا اور اللہ لطیف وخبیر ہے۔ اس سفر کی غرض وغایت یہ بتانا تھی کہ تمام توحیدی اور ادیان سماوی کا سرچشمہ اور تاریخ ایک ہے ، یہ ادیان ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) سے چلے ہیں اور ان کا خاتمہ حضرت محمد خاتم النبین پر ہوا ہے۔ ان ادیان کے مقامات مقدسہ بھی یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔ لہٰذا خاتم النبین ، تمام انبیاء اور ان کے مقامت مقدسہ کے وارث اور امین ہیں۔ گویا یہ سفر زمان و مکان کے حدود کے اندر مقید نہیں ہے ، یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک آفاتی سفر ہے اور بادی النظر میں اس سے جو مقصد و مفہوم نکلتا ہے اس سے کہیں آگے اس کی غرض وغایت زیادہ وسیع ہے اور اس کے اندر گہری حکمت ہے۔

یہاں مسجد اقصیٰ کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے۔

الذی برکنا حولہ (71 : 1) ” جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکات الہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسے بابرکت بنایا ہے یا یہ کہا جاتا کہ اس میں برکات ہیں تو مفہوم میں اس قدر وسعت نہ ہوتی جس طرح ان الفاظ میں ہے کہ ہم نے اس کے ماحول کو بابرکت بنایا ہے۔ یہ سفر بذات خود بھی ایک معجزہ تھا ، لیکن اس کے اندر آپ کو مزید معجزات اور آیات کی سیر بھی کرالی گئی۔

لنریہ من ایتنا (71 : 1) ” تاکہ ہم اسے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں “۔ سب سے پہلے تو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہی ایک معجزہ ہے ، کہ اس قدر قلیل وقت میں یہ سفر اختتام کو پہنچا کہ حضور ﷺ کا بستر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا ، چاہے اس سفر کی کیفیت جو بھی ہو ، بہرحال یہ ایک معجزہ تھا ، مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ کو وسیع تر کائنات کی سیر کرائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس انسانی مخلوق کی ذلت میں بڑے بڑے کمالات پوشیدہ ہیں ، نیز اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت خاتم النین کو ان حقائق کے ادراک کے لئے تیار کیا جائے جو انبیاء کی ذات پر البقاء ہوتے ہیں ، اور جن کے اخذ کی استعداد صرف ان مخصوص بندوں کو دی جاتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ رسالت کا اعزاز بخشنے کے لئے منتخب کیا ہے اور یہ انبیاء اسی نوع بشر سے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے خلق کثیر پر فضیلت دی ہوتی ہے اور جس کے اندر اللہ نہایت ہی لطیف اسرار رکھے ہوتے ہیں۔

انہ ھو السمیع البصیر (71 : 1) ” وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے “۔ وہ ہر لطیف اور باریک چیز کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ ایسی آواز بھی سنتا ہے جو بہت ہی دھیمی ، ہو یعنی وہ تمام لطائف اور تمام اسرار سے واقف ہے۔

سیاق کلام میں آغاز اللہ کی تسبیح سے ہوتا ہے۔

سبحن الذی اسری بعبدہ نیلا (71 : 1) اور تسبیح اللہ کی تعریف ہے۔ اس کے بعد مقصد سفر بتایا جاتا ہے جو اثباتی اور قطعی پہلو رکھتا ہے۔

لنریہ من ایتنا (71 : 1) اور اس کے بعد پھر اللہ کی تعریف کی طرف بات منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ سب مطالب و مفہومات اپنے اندر ایک گہرا توازن رکھتے ہیں۔ تسبیح تو صفت باری تعالیٰ ہے جو انسان کی طرف سے اللہ کے لئے ہے۔ مقصد اللہ کی طرف سے ایک فیصلہ ہے اور سمیع وبصیر اللہ ہی کی صفت وائمہ قائمہ ہے جو خبر کے انداز میں بیان ہوئی ہے۔ غرض ایک ہی آیت میں یہ سب معانی بڑی خوبصورتی کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں اور جو اپنا مفہوم نہایت ہی باریکی سے ادا کرتے ہیں۔

حضور ﷺ کو رات کا یہ سفر کرانا ایک معجزہ ہے۔ جس طرح دوسرے معجزات اللہ تعالیٰ صادر فرماتا رہا ہے۔ معجزہ یوں ہے کہ انسان سفر کے سلسلے میں جس انداز کا عادی ہے اس سے ذرا ہٹ کر ہے۔ مسجد اقصیٰ اس سفر میں ایک مرحلہ رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ اس علاقے کا قلب ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بسایا اور پھر وہاں سے ان کو نکالا۔ درج ذیل آیات کے ضمن میں بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ کے واقعات آئیں گے۔

اردو ترجمہ

ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatayna moosa alkitaba wajaAAalnahu hudan libanee israeela alla tattakhithoo min doonee wakeelan

تشریح : بنی اسرائیل کی سیرت اور تاریخ کا یہ حصہ قرآن کریم کی صرف اسی سورت میں بیان ہوا ہے اس میں بنی اسرائیل کے اس انجام کا ذکر ہے جس پر وہ پہنچے اور جس کے نتیجے میں ان کی عزت و شوکت ، زوال و نکبت سے بدل گئی۔ اس تاریخی تبصرہ کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصلاح و فساد کا کتنا گہرا دخل ہوا کرتا ہے۔ بعد کی آیات میں ، اسی سورت میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ سنت الہیہ ہے اللہ جس قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہے وہ اس قوم کے مترفین کے اندر فساد پیدا کرتا ہے ، وہ بگاڑ میں ڈوب جاتے ہیں اور ہلاک کردئیے جاتے اور اس طرح نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔

یہاں ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو تورات دی گئی۔ اس میں ان کے لئے ہدایات تھیں ، پھر ان کے جد امجد حضرت نوح (علیہ السلام) جو عبد ، شکور اور صالح تھے اور وہ آباء و اجداد جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ یہ سب لوگ صالح اور مومن تھے کیونکہ انہوں نے اپنے ساتھ کشتی میں صالحین مومنین کو بٹھایا تھا۔

واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرائیل الا تنخذوا من دونی وکیلا (2) ذریۃ من حملنا مع نوح انہ کان عبد الشکورا (3) (71 : 2۔ 3) ” ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا۔ اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور نوح (علیہ السلام) ایک شکر گزار بندہ تھا “۔

بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعہ یاد دہانی اور ڈراوا اس لئے دیا گیا کہ اللہ کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا یا عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر رسولوں کے ذریعہ حجت تمام نہ ہوجائے۔ جس کا تذکرہ بھی بصر احت جلد ہی آئے گا۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کتاب دینے کا پہلا مقصد یہ بتایا گیا۔

ھدی لبنی اسرائیل الا تتخذوا من دونی وکیلا (71 : 2) ” اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا اور یہ تاکید کہ میرے سوا کسی کو وکیل نہ بنانا “۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کرو ، صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجائو ، یہی ہدایت ہے اور یہی اصل ایمان ہے۔ کیونکہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کو وکیل بناتا ہے وہ نہ ہدایت پر ہے اور نہ مومن ہے۔

ان کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھا اور اس جہاں کے عہد اول میں یہی لوگ خلاصہ انسانیت تھے۔ کیونکہ وہ حضرت نوح کے یعنی ایک عہد شکور کے ساتھی اور رفقاء تھے اور صالح لوگ تھے ، اس طرح اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک مومن کا حقیقی شجرہ ٔ نسب اس کا ایمانی شجرہ نسب ہوتا ہے۔

یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ یہی انسانیت کی اصل غایب ہے ، لیکن اس کے علاوہ یہ حکمت بھی ہے کہ یہاں چونکہ حضر محمد ﷺ کی صفت عبدہ کا ذکر ہوگیا تھا اس لئے رسولوں میں سے ایک دوسرے ممتاز رسول ، حضرت نوع (علیہ السلام) کی صفت عبودیت کا بھی تذکرہ کردیا گیا اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ ہر صورت میں ایک مخصوص انداز بیان اپناتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی تھی اس میں بنی اسرائیل کو صاف صاف بتایا تھا کہ تمہارے فساد کی وجہ سے تمہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ تم دو مرتبہ فساد اور بگاڑ میں مبتلا ہوگئے اور دو مرتبہ تمہیں بلاک کیا جائے گا۔ کیونکہ ہلاکت و بربادی کے اسباب تم دو مرتبہ فراہم کرو گے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اٹل ہوتی ہے۔ جو قوم بھی فساد و بگاڑ میں مبتلا ہو وہ ہلاک کردی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thurriyyata man hamalna maAAa noohin innahu kana AAabdan shakooran

اردو ترجمہ

پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqadayna ila banee israeela fee alkitabi latufsidunna fee alardi marratayni walataAAlunna AAuluwwan kabeeran

وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدون فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا (71 : 4) ” پھر ہم اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے “۔ یہ تنبیہ ان کو دراصل اس بات کی پیشگی اطلاع تھی کہ تمہارے ساتھ یہ یہ ہونے والا ہے۔ کیونکہ اللہ ان کے ہونے والے انجام سے پیشگی باخبر تھا۔ یہ اطلاع محض پیشگی علم کی وجہ سے تھی۔ اس میں ان کے لئے جبر کا کوئی پہلو نہ تھا۔ یا یہ کہ ان کے اندر جو فساد بعد میں پیدا ہوا ، وہ محض اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے پیدا ہوا ، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کسی کو فساد پر مجبور کرے۔

قل ان اللہ لا یا مر بالفحشاء ” کہہ دو ، اللہ فحاشی پھیلانے کا حکم نہیں دیتا “۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے۔ اللہ کے علم میں جو بات ہوتی ہے ، اگرچہ بشر کو اس کا علم نہیں ہوتا اور پردہ تب اٹھتا ہے جو بشر اس کام کو کر بیٹھتا ہے۔

اللہ کا فیصلہ یہ تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب میں بتا بھی دیا تھا کہ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں دو مرتبہ فساد برپا کریں گے۔ اور اس طرح وہ زمین میں سرکشی اختیار کرلیں گے۔ بیت المقدس پر ان کا غلبہ ہوگا۔ لیکن اپنے اس غلبے کو دوہ ذریعہ فساد بتائیں گے۔ جن لوگوں پر ان کو برتری حاصل ہوگی ان کی جان اور آبرو کے نزدیک مباح ہوجائے گی اور یہ لوگوں کو تباہ کردیں گے۔

اردو ترجمہ

آخرکار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha jaa waAAdu oolahuma baAAathna AAalaykum AAibadan lana olee basin shadeedin fajasoo khilala alddiyari wakana waAAdan mafAAoolan

فاذا جاء وعدا اولھما بعثنا علیکم عبادالنا اولی باس شدید فحاسوا خلل الدیار وکان وعدا مفعولا (71 : 5) ” آخر کار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا ، تو اے بنی اسرائیل ، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اتھائے جو نہایت زور آور تجھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا “۔ یہ ان کی پہلی سرکشی تھی۔ ان لوگوں نے بیت المقدس میں پڑتی ترقی اور سر بلندی حاصل کی۔ ان کے پاس حکومت اور قوت جمع ہوگئی ، جس پر انہوں نے فساد شروع کردیا۔ اللہ انے ان پر ایک دوسری زور آور اور صاحب قوت قوم کو مسلط کردیا۔ ان لوگوں کی گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے تمام علاقوں کو اپنے لئے حلال قرار دے دیا اور صبح و شامل حملہ آور ہوتے رہے اور جو کچھ ان کے سامنے آتا اسے تاخت و تاراج کرتے رہے ۔ اور وہ کسی کام کے کر گزرنے میں کوئی باک اور ڈر محسوس ہی نہ کرتے تھے۔

وکان وعدا مفعولا (71 : 5) ” یہ اللہ کا ایسا وعدہ تھا جس نے پورا ہو کر ہی رہنا تھا “۔ کیونکہ اللہ کے وعدے اور فیصلے میں نہ تخلف ممکن ہے اور نہ اللہ کا کوئی فیصلہ جھوٹا ہوسکتا ہے۔

جب بنی اسرائیل نے مغلوبیت ، ذلت اور غلامی کا مزہ چکھا ، تو انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور انہوں نے اپنے حالات کو درست کیا ، تو ان پر جو عذاب مسلط کیا گیا تھا اس سے انکی گلوخلاصی ہوئی ، کیونکہ فاتحوں کے اندر بھی اسی طرح کا فساد پیدا ہوگیا۔ ان کو بھی اپنی قوت پر گھمنڈ ہوگیا ، انہوں نے بھی زمین میں فساد پیدا کردیا تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان مغلوبین کو منظم کرکے ان حملہ آوروں پر غالب کردیا اور اب بنی اسرائیل کے مستضعفین دوبارہ غالب آگئے۔

اردو ترجمہ

اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma radadna lakumu alkarrata AAalayhim waamdadnakum biamwalin wabaneena wajaAAalnakum akthara nafeeran

ثم رددنا لکم الکرۃ علیھم وامددنکم باومال وبنین وجعلنکم اکثر نفیرا (71 : 6) ” اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبہ کا موقعہ دلایا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدددی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی “۔ اس کے بعد یہی عمل از سر نو دہرایا جاتا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ اس پیشن گوئی کا دوسرا حصہ روبعمل آئے اور جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو ، اللہ تعالیٰ یہاں ایک نہایت ہی اہم اساسی قانون مکافات عمل بیان کردیتا ہے۔

اردو ترجمہ

دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In ahsantum ahsantum lianfusikum wain asatum falaha faitha jaa waAAdu alakhirati liyasoooo wujoohakum waliyadkhuloo almasjida kama dakhaloohu awwala marratin waliyutabbiroo ma AAalaw tatbeeran

ان احسسنتم احسنتھم لانفسکم وان اساتھم فلھا (71 : 7) ” دیکھو تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے یہ لئے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے ہی برائی ثابت ہوئی “۔ مکافات عمل کا یہ تو وہ اساسی قاعدہ ہے جو دنیا و آخرت میں یکساں لاگو ہے۔ یہ کہ انسان اپنے اعمال کا خود حقدار و ذمہ دار ہے۔ اس کے تمام پھل اور نتائج اس کے لئے ہیں۔ عمل اور جزائے عمل لازم و ملزوم ہیں۔ نتیجہ عمل سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے انسان ایک مسئول اور ذمہ دار ہستی ہے ، اگر چاہے تو اپنے ساتھ اچھا کرے یا برا کرے ، اگر اسے اچھے عمل یا برے عمل کا ثمرہ ملے تو اسے گلہ نہیں کرنا چاہیے۔

مکافات عمل کا یہ قاعدہ بیان کرنے کے بعد اب دوبارہ روئے سخن اس پیشن گوئی کہ طرف مڑ جاتا ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا۔

فاذا جاء وعد الاخرۃ لیسوئوا وجوھکم ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ ولیتبر واماعلوا تتبیرا (71 : 7) ” پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں “۔ یہاں سیاق کلام میں بنی اسرائیل کے دوسرے فساد کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ کیونکہ پہلے یہ کہ دیا گیا تھا کہ لتفسدن فی الارض مرتین ” تم دو بار زمین میں فساد برپا کرو گے “۔ اور دوسری بار ان پر جیسے لوگوں کو مسلط کیا گیا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسری بار بھی بگاڑ کی راہ اختیار کی تھی۔

فاذا جاء وعد الاخرۃ لیسوئوا (71 : 7) ” پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں “۔ یعنی انہوں نے ان سے اس قدر انتقام لیا کہ ان کی شخصیت اس کے اثرات سے بدل گئی۔ یہاں تک کہ یہ ذلت و نکبت ان کے چہروں پر ظاہر ہوگئی۔ انہوں نے تمام مقدسات کی بےحرمتی کی اور ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

ولید خلوا السجد کما دخلوہ اول مرۃ (71 : 7) ” وہ بھی اسی طرح مسجد میں داخل ہوئے جس طرح پہلے دشمن داخل ہوئے تھے “۔ جس جس چیز پر ان کا غلبہ ہوتا تھا ، اسے تاخت و تاراج کرتے اور ہر چیز کو تباہ کرتے جاتے۔

ولیتبروا ما علوا تتبرا (71 : 7) ” تاکہ جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے تباہ کردیں “۔ یعنی انہوں نے بیت المقدس کو پوری طرح تباہ کردیا اور ان لوگوں کو ملک بدر کرکے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

چناچہ یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور بنی اسرائیل پر ایسے ہی لوگ مسلط ہوگئے۔ پھر دوبارہ ان پر دشمن مسلط کیے گئے اور انہوں نے ان کو ملک بدر کرکے ملک کو تباہ کیا۔

قرآن کریم نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ یہ لوگ کون تھے کیونکہ بنی اسرائیل کی دوبارہ کی تباہی کے بیان سے جو مقصد تھا وہ اسی قدر بیان سے پورا ہوگیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ فلاں فلاں اقوام کو ان پر مسلط کیا گیا تو اس سے کسی مفہوم میں اضافہ نہیں ہوجاتا۔ یہاں مقصد اس سنت الٰہی کا بیان تھا جس کا تعلق اقوام کے عروج وزوال سے ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ایسی تباہیاں کیوں لاتا ہے ؟ تو بتایا جاتا ہے کہ بعض اوقات کسی قوم کی تباہی ہی اس کے لئے باعث رحمت ہوتی ہے۔

282