اس صفحہ میں سورہ At-Takaathur کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التكاثر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
اے حالت مدہوشی میں سرپٹ دوڑنے والو ، اے لاپرواہی کی حالت میں مال اور اولاد کی کثرت اور دنیا کے سازو سامان کی بہتات کے لئے جدوجہد کرنے والو ، تم تو ان سب چیزوں کو اسی جہاں میں چھوڑ کر جانے والے ہو ، اے دنیا کی مشغولیتوں میں دھوکہ کھانے والو ، اے مال واولاد کو چھوڑ کر جانے والو ، ایک ایسے چھوٹے سے گڑھے ، قبر میں جانے والو ، قبر میں تو نہ مال ہوگا ، نہ اولاد ہوگی اور نہ وہاں کوئی فخر ہوگا اور اظہار برتری ہوگا ، جاگو ، اور دیکھو ، غورکرو۔
الھکم .................... المقابر (2:102) ” تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو “۔ لیکن قبر کی سیر کے بعد وہاں تمہارے لئے ایک خوفناک منظر ہے ، نہایت سخت اور زور دار انداز میں ان کے دلوں کو یوں کھڑکھڑایا جاتا ہے۔
ان خوفناک الفاظ کو مکرر کہا جاتا ہے اور اس تکرار کے بعد جو بھاری بات آتی ہے اس کی وجہ سے یہ تاکید نہایت گہری اور خوفناک ہوجاتی ہے اور یہ لوگ اس ہولناک امر کی حقیقت کو نہیں جانتے کیونکہ یہ مدہوشی میں ہیں اور رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب اس خوفناک حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اس حقیقت کی تاکید کی جاتی تاکہ دلوں پر اس کا خوف طاری ہو۔
اور اب آخری ضرب ایسی سخت لگائی جاتی ہے کہ ایک غافل سے غافل انسان بھی بیدار ہوکر رہ جاتا ہے ، چوکنا ہوجاتا ہے اور جو منہ کے رخ سرپٹ دوڑرہا ہے وہ بھی ذرا رک کر اس طرف متوجہ کرتا ہے اور بڑے سے بڑے مالدار کا عیش بھی مکدر ہوجاتا ہے ، وہ کانپنے لگتا ہے اور اس کے دل پر ان نعمتوں کے حوالے سے خوف طاری ہوجاتا ہے۔
تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ نعمتیں تم نے کہاں سے حاصل کیں۔ کہاں ان کو خرچ کیا۔ کیا اللہ کی اطاعت کرکے حاصل کیا اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کیا یا اللہ کی معصیت کرکے حاصل کیا اور معصیت میں خرچ کیا۔ حلال راستہ سے کمایا اور حلال راہ میں خرچ کیا یا حرام راستہ سے کمایا اور حرام میں خرچ کیا۔ کیا تم نے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا ؟ کیا ان کا حق ادا کیا۔ کیا اس میں دوسروں کو شر کی کیا یا خود ہی استعمال کرتے رہے۔
یہ سوالات لازماً تم سے ہوں گے کہ یہ دولت کس طرح اکھٹی کی اور کس طرح تم نے اس پر تفاخر کیا۔ یہ دولت اور یہ انعامات تمہیں اپنی مدہوشی اور غفلت کی وجہ سے ہلکی نظر آتی ہیں۔ اور کھیل نظر آتی ہیں لیکن ان کے پیچھے تو ایک بھاری ذمہ داری ہے اور ایک سخت جوابدہی ہے۔
یہ سورت نہایت ہی مختصر سورت اپنی تفسیر آپ ہے۔ یہ انسانی احساس پر چھاجاتی ہے ، اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور انسانی قلب ونظر اس کی گرفت میں بوجھل نظر آتے ہیں۔ انسان یکدم دنیا کی حقیقت پاکر ، اس کی حقیر لذتوں اور کم قیمت ترجیحات کو چھوڑ کر فکر آخرت میں مشغول ہوجاتا ہے جبکہ عام لوگ جن کے دل ان حقائق اور اثرات سے فارغ ہوتے ہیں وہ ان حقیر چیزوں کے لئے مرمٹ رہے ہوتے ہیں۔
یہ سورت اس دنیا کو اس طرح پیش کرتی ہے جس طرح ایک طویل فلم میں ایک سیکنڈ کی ایک جھلک۔
الھکم ................ المقابر (2:102) ” تم کو تکاثر کی دھن نے قبرستان پہنچایا “۔ ان چند الفاظ میں پوری دنیاوی زندگی کی جھلک دکھا کر اسے لپیٹ لیا جاتا ہے۔ پھر دائمی اور حیات جاوداں کی فلم چلتی ہے۔ طویل زمانے میں اور مجرمین ابدالا باد تک بوجھ اٹھاتے پھریں گے۔ یہ تصور نہایت ہی خوبصورت انداز تعبیر میں دیا جاتا ہے اور اصل حقیقت اور انداز بیان یکساں ہوجاتے ہیں۔
ایک عظیم خوفناک اور گہرے معانی رکھنے والی سورت جو شخص بھی سمجھ کر پڑے گا ، جس کے اثرات زمین سے طوفان کی شکل میں اٹھ کر فضاﺅں میں جاکر دور بلند مطالع پر نمودار ہوتے ہیں ، جس کے معانی نہایت ٹھوس ہیں اور دل و دماغ کے سمندر میں نہایت ہی گہرائیوں میں جاکر قرارپکڑتے ہیں تو اس کا دل بوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کرہ ارض پر زندگی کی ایک جھلک اور چمک ، اپنے نتائج واثرات کے لحاظ سے کس قدر طویل ہے۔ تو ہر باشعور شخص اخروی زندگی کی طویل تیاری کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ اور اس راہ میں پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے حوالے سے بھی حساس ہوجاتا ہے۔