سورة الدخان (44): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ad-Dukhaan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الدخان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة الدخان کے بارے میں معلومات

Surah Ad-Dukhaan
سُورَةُ الدُّخَانِ
صفحہ 496 (آیات 1 سے 18 تک)

حمٓ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ إِنَّآ أَنزَلْنَٰهُ فِى لَيْلَةٍ مُّبَٰرَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ رَبِّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ءَابَآئِكُمُ ٱلْأَوَّلِينَ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ يَلْعَبُونَ فَٱرْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى ٱلنَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ رَّبَّنَا ٱكْشِفْ عَنَّا ٱلْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّىٰ لَهُمُ ٱلذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا۟ عَنْهُ وَقَالُوا۟ مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ إِنَّا كَاشِفُوا۟ ٱلْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَآئِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ ٱلْبَطْشَةَ ٱلْكُبْرَىٰٓ إِنَّا مُنتَقِمُونَ ۞ وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ أَنْ أَدُّوٓا۟ إِلَىَّ عِبَادَ ٱللَّهِ ۖ إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
496

سورة الدخان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة الدخان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

درس نمبر 234 تشریح آیات

1۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 59

آیت نمبر 1 تا 8

آغاز دو حروف سے ہوتا ہے حا۔ میم۔ اور دونوں کی قسم اٹھائی جاتی ہے اور پھر کتاب مبین کی بھی قسم اٹھائی جاتی ہے جو ایسے ہی حروف تہجی سے مرکب ہے۔ ان کے بارے میں سورتوں کے آغاز میں ہم بار ہا بات کرچکے ہیں۔ پھر ان حروف کی بھی اسی طرح قسم اٹھائی گئی جس طرح کتاب مبین کی قسم اٹھائی گئی۔ کتاب مبین کی اہمیت مسلم مگر ان حروف کی اہمیت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر حرف بھی ایک معجزہ اور نشانی ہے اور ہر حرف انسان کی زبان کی ساخت کی نشانی ہے اور پھر کس انداز سے زبان اپنے مخرج سے اس حرج و صوت کو نکالتی ہے ، پھر ان حروف کے مخارج کی ترتیب پھر ہر حرف کے نام اور اس کی آواز کے درمیان ایک رمزد اشارہ اور ان حروف اور کلمات کے ذریعہ انسان عظیم حقائق تک پہنچتا ہے۔ اور علوم کو مرتب کرتا ہے۔ یہ اس قدر عظیم کام ہے کہ اگر ہم اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی عادت اور مانوسیت کو ایک طرف پھینک دیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک حرف کس قدر عظیم چیز ہے اس لیے ان کی قسم اٹھائی گئی۔ وہ چیز کیا ہے جس کے لئے یہ قسم اٹھائی گئی ہے ، وہ ہے وہ عظیم حادثہ جو ایک مبارک رات میں واقع ہوا یعنی نزول قرآن ۔

انا انزلنہ فی۔۔۔۔۔ منذرین (44 : 3) فیھا یفرق کل امر حکیم (44 : 4) امرا من عندنا انا کنا مرسلین (44 : 5) رحمۃ من ۔۔۔۔۔ العلیم (44 : 6) “ ہم نے اسے ایک بڑی خیرو برکت والی رات میں نازل کیا ہے ، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے ، تیرے رب کی رحمت کے طور پر ، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ”۔

اور مبارک رات جس میں قرآن نازل ہوا ، وہ رات ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا اور یہ رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے ، جس کے بارے میں تصریح ہے۔

شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن “ رمضان المبارک کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ”۔ قرآن مجید سب کا سب تو نہ اس رات کو نازل ہوا ہے اور نہ سب کا سب رمضان المبارک میں نازل ہوا ہے لیکن اس زمین پر اس کے آنے کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا اور پھر اس مبارک رات میں ہوا۔ لیلۃ القدر یا لیلہ مبارکہ کے بارے میں یہی کافی ہے۔ واللہ اعلم !

یہ رات فی الواقع مبارک ہے جس میں انسانیت کے لئے رحمت خداوندی کا یہ عظیم دروازہ کھلا اور جہاں اسلامی نظام زندگی انسانوں کی زندگی میں جاگزیں ہونا شروع ہوا جس کے اندر انسان روح فطرت سے شناسا ہوا ، جس کی نہایت ہی خوبصورت ترجمانی قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ فطرت انسانی اس نظام کے لئے لبیک کہتی ہے اور خوشی خوشی اسے قبول کرتے ہے اور یوں داعی فطرت انسانی کے مطابق ایک ایسا نظام قائم ہوجاتا ہے جو فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور اس کائنات کے بھی عین مطابق ہوتا ہے جس میں انسان رہ رہا ہے۔ یہ نظام اس قدر پاک و صاف اور بلا تکلف اور بغیر کسی تکلیف کے قائم ہوتا ہے اور اس نظام کے زیر سایہ انسان رہتا تو زمین پر ہے لیکن وہ ہوتا آسمانوں پر ہے۔

صحابہ کرام ؓ اور پہلے انسان جن پر یہ قرآن نازل ہوا ، وہ اسی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ایک عرصہ تک اللہ کے ساتھ مربوط اور موصول زندگی گزارتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو فی الفور بتاتا تھا کہ تمہارے دلوں میں یہ یہ تصورات آتے ہیں ، اور یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں اور ان کو بھی یقین تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اور اللہ ہمارا نگران ہے ، ہمارے دل کے ہر میلان اور ہر وسوسے اور پھر ہمارے جسم کی ہر حرکت کو وہ جانتا ہے۔ یہ لوگ اپنے معاملات میں سب سے پہلے اسی کے ہاں پناہ لیتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ اللہ قریب بھی ہے اور سننے والا بھی ہے اور دعاؤں کو قبول کرنے والا بھی ہے۔

یہ برگزیدہ گروہ چلا گیا اور اس کے بعد قرآن کریم ایک کھلی کتاب کی حیثیت سے رہ گیا ، جو انسانوں کے دل کے ساتھ مربوط تھا۔ یہ انسان پر اس طرح اثر کرتا رہا جو کسی جادو گر کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن یہ اثر ان لوگوں پر ہوتا جو اس قرآن کو پڑھ کر اس لیے اپنے دل کھولتے۔ تاہم انسان کے قلب و نظر بعض اوقات یوں بدل جاتے ہیں کہ یہ تغیرو انقلاب بعض اوقات افسانہ نظر آتے۔ انسان ان پر یقین ہی نہیں کرسکتا۔

یہ قرآن بطور ایک نظام زندگی باقی رہا۔ اس کا نظام کا مل ، واضح اور نہایت ہی پاکیزہ “ انسانیت ” دینے والا تھا۔ اور قرآنی نطام زندگی جہاں بھی قائم رہا ، جس معاشرے میں رہا ، جس زمانے میں رہا ایک مثالی نظام رہا۔ جہاں قرآنی نظام زندگی قائم ہوا اور جس زمانے میں قائم ہوا ، اس الٰہی نظام کی روشنی میں ایک ممتاز انسانی زندگی سامنے آئی اور اس کے اندر انسانی زندگی کے تمام خصائص موجود رہے۔ اور یہ خصوصیت صرف اسلامی نظام زندگی کی ہے کہ جہاں یہ قائم ہوتا ہے وہاں ایسی اعلیٰ معیاری زندگی اور معاشرہ وجود میں آتا ہے اور یہ ایسا معاشرہ ہوتا ہے جس کے قیام میں کسی انسانی جدو جہد کا دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس نظام کی برکت اور قدرت الٰہیہ سے وجود میں آتا ہے۔

انسان جو ادارے بناتے ہیں وہ انہی جیسے انسانوں کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ اور مخصوص زمان و مکان میں چل سکتے ہیں لیکن اللہ نے جو ادارے اور قوانین بنائے ہیں ان کے اندر صفت دوام رکھ دی ہے۔ ان کے اندر انتہائی حسن و کمال رکھ دیا گیا ہے اور ایسی صلاحیت رکھ دی ہے جو ہر زمان و مکان کی قید سے وراء ہے جن میں اصل حقیقت اپنی جگہ موجود ہوتی ہے۔ اور ہر زمان و مکان کے اعتبار سے اس کی عجیب صورت پذیری ہوتی رہتی ہے۔

اس قرآن کو اللہ نے اس مخصوص رات میں اتار اتا کہ لوگوں کو متنبہ کیا جائے۔

انا کنا منذرین (44 : 3) “ کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ”۔ اس لیے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ یہ انسان بڑا غافل ہے اور تنبیہہ کا محتاج ہے۔

یہ رات جس میں قرآن کریم نازل ہوا ، اس نزول قرآن کی وجہ سے فیصلے والی اور حق و باطل کے درمیان فرق کی جانے والی رات قرار پائی :

فیھا یفرق کل امر حکیم (44 : 4) “ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے ”۔ اس رات میں اس قرآن کے ذریعہ ہر معاملے کا فیصلہ کردیا گیا۔ ہر تنازعے کا فیصلہ۔ اس رات کو حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ، باطل مٹا دیا گیا ، حدود مقرر کر دئیے گئے۔ اور اس زمین پر انسان کے سفر کے لئے نشانات طے کر دئیے گئے اور یہ امور قیامت تک کے لئے طے ہوگئے۔ لہٰذا ایسے تمام اصول طے کر دئیے گئے جن کے اوپر اس دنیا میں انفرادی اور اجتماعی زندگی قائم ہوتی ہے جس طرح اس کائنات کی ۔۔۔۔ کے لئے اللہ نے تمام اصول اس کے اندر ودیعت کر دئیے ہیں۔

(مولانا مودودی کا جو ترجمہ میں نے دیا ہے اس سے اس مذکورہ تفسیر کا فرق واضح ہے ۔ کیونکہ سید قطب “ یفرق ” کو فرق کے معنوں میں لے رہے ہیں جو درست معلوم نہیں ہوتا ۔ (مترجم) ۔

اور یہ فیصلے اللہ کے ارادے سے ہوئے کیونکہ اللہ کی مشیت یہ تھی اور یہ رہی ہے کہ رسولوں کو بھیجا جائے تا کہ وہ کلام الٰہی کو بیان کریں اور اس کے مطابق فیصلے کریں۔

انا کنا مرسلین (44 : 5) “ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے ”۔ اور رسول کا بھیجنا اللہ کی رحمتوں کے تقاضے سے تھا۔ قیامت میں اللہ لوگوں پر حمت کرنا چاہتا تھا۔

رحمۃ من ربک انہ ھو السمیع العلیم (44 : 6) “ تیرے رب کی رحمت کے طور پر یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ”۔ قرآن کے نزول سے جس طرح اللہ کی رحمت کا ظہور ہوا ، اس طرح کسی اور رحمت کا ظہور نہیں ہوا۔ یہ قرآن نہایت آسانی کے ساتھ اور سرعت کے ساتھ دلوں میں بیٹھ جاتا ہے اور انسان اس کے رد عمل کے طور پر اس طرح خود کار طریقے سے عمل کرتا ہے جس طرح انسان کے جسم میں خون دوڑتا ہے اس طرح یہ بشر ایک نہایت یہ سنجیدہ اور شریف انسان بن جاتا ہے اور انسانی معاشرہ ایک خوبصورت خواب کی طرح نظر آتا ہے۔ اور یہ خواب ایک عملی خواب ہوتا ہے جو آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

یہ نظریہ حیات جو قرآن مجید نے پیش کیا ، اپنی جامعیت اور ہم آہنگی کے زاویہ سے ، ایک ایسا خوبصورت عقیدہ کہ انسان بےساختہ اس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے۔ دل اس کے ساتھ اٹک جاتے ہیں۔ یہ نظریہ نہ صرف یہ کہ خیرو صلاح پر مبنی ہے۔ اس کے اندر کمال اور جامعیت بھی موجود ہے بلکہ یہ چیزیں اس میں اس قدر ترقی کرتی ہیں کہ پرکشش خوبصورتی کے مقام تک چلی جاتی ہیں۔ یہ خوبصورتی اس قدر کامل اور جامع ہے کہ اس عقیدے اور نظام کا ایک ایک جزء نہایت ہی خوبصورت ہے۔ پھر اس کا جزئی اور کلی حسن و کمال اس کائنات کے جزئی اور کلی حسن و کمال کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

یہ قرآن مجید رحمۃ من ربک (44 : 6) “ تیرے رب کی طرف سے بطور رحمت کے نازل ہوا ”۔ اور اس مبارک رات میں نازل ہوا۔

انہ ھو السمیع العلیم (44 : 6) “ یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے ”۔ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ اللہ جو کلام اور جو احکام نازل کرتا ہے وہ علم ومعرفت کی بنا پر نازل کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے اقوال و افعال کو جانتا ہے اور ایسے اصول و قوانین نازل کرتا ہے جو ان کے لئے مفید ہیں اور جن کے ذریعے ان کی اصلاح ہوتی ہے۔

اللہ ہی وہ ذات ہے جو اس کائنات کا نگہبان ہے اور اس کا اور اس کے اندر تمام چیزوں کا محافظ ہے۔

رب السموت والارض وما بینھما ان کنتم موقنین (44 : 7) “ آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اس چیز کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے ، اگر تم واقعی یقین رکھتے ہو ”۔ اس لیے وہ لوگوں کے لئے جو کلام و نظام نازل کرتا ہے وہ ان کی تربیت کے لئے کرتا ہے جس طرح اس کائنات میں اس کی ربوبیت چلتی ہے ، انسان بھی اسی کا حصہ ہے اور انسان بھی اللہ کے قوانین فطرت کا ایک حصہ ہے اور یہاں ایمان اور ایقان کی طرف جو اشارہ کیا ہے تو وہ اس لیے کہ ان کے عقائد نہایت مضطرب ، اور ڈانواں ڈول تھے کیونکہ ایک طرف تو وہ آسمانوں اور زمین کو اللہ کی مخلوق سمجھتے تھے۔ دوسری جانب انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے ارباب بھی بنا رکھے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اللہ کا تصور نہایت مجمل ، غیر واضح ، سطحی اور پختگی سے بہت دور تھا۔ حالانکہ اللہ واحد الٰہ ہے جو موت وحیات کا مالک ہے اور اولین اور آخرین سب کا رب ہے۔

لا الہ الا۔۔۔۔۔ الاولین (44 : 8) “ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے وہی زندگی عطا کرتا ہے ، وہی موت دیتا ہے ، تمہارا رب اور تمہارے اسلاف کا رب جو گزر چکے ہیں ”۔ زندہ کرنا اور مارنا تو دونوں ایسی باتیں ہیں جن کو تمام انسان دیکھتے ہیں اور یہ بھی ان کو معلوم ہے کہ یہ کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے تو معمولی فکر و تدبر کی ضرورت ہے۔ موت کا منظر اور حیات کی کہانی دونوں انسانی قلب پر بہت ہی قریب سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سے انسان کا دل متاثر اور منفعل ہونے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ حق کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تذکرہ قرآن میں بہت ہوتا ہے۔ اور انسانی قلب اور دماغ کو اس طرف باربار متوجہ کیا جاتا ہے اور مومنین کے دلوں کو بار بار اس کا غسل دیا جاتا ہے۔

٭٭٭٭

اردو ترجمہ

قسم ہے اِس کتاب مبین کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkitabi almubeeni

اردو ترجمہ

کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna anzalnahu fee laylatin mubarakatin inna kunna munthireena

اردو ترجمہ

یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha yufraqu kullu amrin hakeemin

اردو ترجمہ

ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amran min AAindina inna kunna mursileena

اردو ترجمہ

تیرے رب کی رحمت کے طور پر یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rahmatan min rabbika innahu huwa alssameeAAu alAAaleemu

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اُس چیز کا رب جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbi alssamawati waalardi wama baynahuma in kuntum mooqineena

اردو ترجمہ

کوئی معبود اُس کے سوا نہیں ہے وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے تمہارا رب اور تمہارے اُن اسلاف کا رب جو پہلے گزر چکے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La ilaha illa huwa yuhyee wayumeetu rabbukum warabbu abaikumu alawwaleena

اردو ترجمہ

(مگر فی الواقع اِن لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal hum fee shakkin yalAAaboona

اس حد تک قرآن کے مخاطبین کو متاثر کرنے اور جوش دلانے اور حق کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے بعد اب روئے سخن اچانک پھرتا ہے۔ اور تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا جاتا کہ اس عظیم کتاب کی اس سعی کے بعد ان لوگوں کی حالت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی جو تصویر کی گئی ہے اسے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ لوگ اس قدر سنگ دل ہیں کہ اس قدر سنجیدہ کوششوں کے باوجود وہ ابھی تک اس تحریک کو مذاق ہی سمجھتے ہیں۔

آیت نمبر 9 تا 16

فرماتے ہیں کہ یہ تو اس قدر حکیمانہ اور عظیم الشان نظریہ اور نظام کے مقابلے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور ان نشانیوں میں شک کرتے ہیں جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا ان کا صحیح علاج یہی ہے کہ ان کو اس دن کے لئے چھوڑ دیا جائے جو بہت ہی سخت اور اعصاب شکن ہوگا۔

فارتقب یوم ۔۔۔۔ مبین (44 : 10) یغشی الناس ھذا عذاب الیم (44 : 11) ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون (44 : 12) “ اچھا انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ہے دردناک سزا ، “ پروردگار ہم پر سے عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ”۔

سلف صالحین کے درمیان آیت دخان کی تفسیر میں اختلاف رہا ہے۔ بعض نے یہ کہا کہ یہ قیامت کے دن کا دھواں ہے ، یہ دھمکی جو دی گئی کہ اس کا انتظار کرو ، یہ ویسی ہی ہے جس طرح قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر عذاب قیامت کے انتظار کے لئے کہا جاتا ہے اور یہ تو آنے ہی والا ہے۔ لوگ بھی انتظار کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے بھی انتظار فرمایا لیکن بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ یہ واقعہ عملاً گزر گیا ہے۔ جس طرح قرآن نے دھمکی دی ہے اور پھر جب آیا تو مشرکین حضور ﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے دعا فرمائی اور یہ عذاب دور ہوگیا۔ یہاں ہم دونوں اقوال اور ان کی سند نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنا تبصرہ کریں گے۔

سلیمان ابن مہران الاعمش نے روایت کی ہے۔ ابو الضحی مسلم ابن صبیح سے انہوں نے مسروق سے ، یہ کہتے ہیں کہ میں ابواب کندہ کے پاس کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوا ، ایک شخص اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ بیان کر رہا تھا۔

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) “ اچھا انتطار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لئے ہوئے آئے گا ”۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ دھواں کیا ہے ؟ یہ ایک دھواں ہے جو قیامت کے دن آئے گا۔ اس سے منافقین اور کفار اندھے اور بہرے ہوجائیں گے۔ اور مومنین پر صرف اس قدر اثر ہوگا جس طرح زکام ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ابن مسعود ؓ کے پاس آئے۔ یہ بات ہم نے ان سے ذکر کی۔ اس وقت یہ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے ، پریشان ہو کر اٹھ بیٹھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے نبی ؐ سے کہا :

قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، اور نہ ہی مجھے تمہارے ہدایت کا مکلف بنایا گیا ہے ”۔ یہ بھی بہت بڑے علم کی دلیل ہے کہ اگر کسی کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو کہے ، واللہ اعلم ! اس کے بارے میں ، میں تمہیں اصل بات بتاتا ہوں۔ جب قریش نے کسی صورت میں اسلام قبول نہ کیا تو حضور ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر ایسے سال لے آیا جو یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں آئے تھے۔ چناچہ ان پر جہدو مشقت اور بھوک اور پیاس کے دن آگئے یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیاں کھانا شروع کردیں۔ اور مردار بھی کھانے لگے۔ ایسے حالات ہوگئے کہ وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے اور انہیں دھواں ہی دھواں نظر آتا اور بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص کی طرف نظریں اٹھاتا اور اسے فضا یوں نظر آتی جس طرح دھواں ہو ، اور یہ بدحالی کی وجہ سے ۔ اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا :

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) یغشی الناس ھذا عذاب الیم (44 : 11) “ انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لئے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ہے دردناک سزا ”۔ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے کہا گیا رسول اللہ سے مضر عربوں کے لئے دعا مانگیں ، کیونکہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے لئے باران رحمت کی دعا مانگی اور بارش ہوئی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

انا کاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون (44 : 15) “ ہم ذرا عذاب ہٹا دیتے ہیں ، تم لوگ پھر ہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ”۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے مزید کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے دن پر ان پر سے عذاب اٹھایا جائے۔ غرض جب ان کو پھر خوشحالی ملی تو وہ اسی پرانی روش کی طرف لوٹ آئے۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون (44 : 16) “ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے ”۔ اس سے مراد یوم بدر ہے۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں گزریں : دھواں ، روم ، شق قمر ، بطشہ الکبریٰ اور لزام۔ یہ حدیث صحیحین میں مروی ہے۔ امام احمد نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ ترمذی اور نسائی نے بھی کتاب التفسیر میں دی ہے۔ ابن جریر اور ابن ابو حاتم نے اعمش سے متعدد طرق سے نقل کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود سے ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے کہ دخان کا واقعہ چلا گیا ہے۔ مثلاً مجاہد ، ابو العالیہ ، ابراہیم نخعی ، ضحاک اور عطیہ عوفی اور یہی تفسیر ابن جریر نے اختیار کی ہے۔

لیکن دوسرے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ دخان کا واقعہ گزرا نہیں ہے بلکہ یہ قیامت کی علامات میں سے ہو کر آئے اور ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک دس نشانیاں نہ ظاہر ہوجائیں : (1) سورج کا مغرب سے طلوع ، (2) دخان ، (3) دابہ ، (4) یا جوج وماجوج کا خروج ، (5) عیسیٰ ابن مریم کا خروج ، (6) دجال ، (7) تین چاند گرہن ، (8) مشرق میں زمین کا دھنسنا ، (9) مغرب میں زمین کا دھنسنا ، (10) جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسنا۔ ایک آگ عدن کی گہرائیوں سے نکلے گی۔ یہ لوگوں کو چلائے گی یا لوگوں کو اٹھائے گی جہاں یہ رات کو ہوں گے وہیں یہ بھی ہوگی جہاں یہ دن کو آرام کریں گے ، یہ بھی آرام کرے گی۔ (مسلم )

علامہ ابن جریر نے روایت کی ہے۔ محمد ابن عوف سے انہوں نے محمد ابن اسماعیل ابن عیاش سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ضیغم ابن زرعہ سے انہوں نے سریج ابن عبید سے اور انہوں نے حضرت مالک اشعری ؓ سے کہ وہ فرماتے ہیں ، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بیشک تمہارے رب نے تمہیں تین باتوں سے ڈرایا ہے۔ دھواں جو مسلمان کو زکام کی طرح متاثر کرے گا اور کافر پر اثر یہ ہوگا کہ وہ اس سے پھول جائے گا اور وہ اس کی ہر سننے کی جگہ سے نکلے گا۔ دوسری دابتہ الارض اور تیسرا دجال ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ہاشم ابن یزید سے نقل کیا ہے۔ اور اس نے محمد ابن اسماعیل ابن عیاش سے اسی متن کے ساتھ (ابن کثیر نے کہا یہ سند جید ہے) ۔

ابن جریر نے روایت کی ہے ، یعقوب سے ، انہوں نے ابن علیہ سے انہوں نے ابن جریج سے انہوں نے عبد اللہ ابن ابو ملیکہ سے ، انہوں نے کہا کہ میں ایک دن سویرے حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا ، تو انہوں نے فرمایا کہ میں آج رات صبح تک بالکل نہیں سویا۔ میں نے پوچھا یہ کیوں ! آج ایک دمدار ستارہ طلوع ہوا تو مجھے یہ خوف لاحق ہوگیا کہ شاید دھویں کا وقت آگیا ، اس وقت سے میں صبح تک نہیں سویا۔ ابن ابو حاتم نے اپنے باپ سے ، انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے عبد اللہ بن ابو یزید سے ، عبد اللہ بن ابو ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ، اسی طرح روایت کی ہے۔

علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ یہ سند حضرت ابن عباس تک صحیح ہے ، جو اس امت سے بڑے عالم ہیں اور ترجمان القرآن ہیں۔ اور یہی قول اپنایا ہے ، صحابہ وتابعین میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے ان سے اتفاق کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں کئی مرفوع اور حسن احادیث بھی انہوں نے پیش کی ہیں جن سے پوری تسلی ہوجاتی ہے کہ یہ دھواں جس کا یہاں ذکر ہے یہ ان نشانیوں میں سے ہے جن کا انتظار ہے اور قرآن کریم کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔ اللہ نے فرمایا :

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) “ انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا ”۔ یعنی دھواں بالکل واضح ہوگا اور اسے ہر شخص دیکھ سکے گا اور حضرت ابن مسعود نے جو روایت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی تخیل تھا اور لوگ بھوک اور مشقت کی وجہ سے وھواں دیکھ رہے تھے۔ پھر یغشی الناس (44 : 11) “ وہ ولوگوں پر چھا جائے گا ”۔ یعنی ان کو ڈھانپ کر اندھا کر دے گا۔ اگر یہ ایک خیال معاملہ تھا اور صرف اہل مکہ نے اسے محسوس کیا تھا تو پھر یغشی الناس کا لفظ استعمال نہ ہوتا۔ پھر آگے ہے۔

ھذا عذاب الیم (44 : 11) “ یہ ہے دردناک عذاب ”۔ یعنی ان سے یہ کہا جائے گا ، بطور سرزنش و ملامت کے جس طرح دوسری جگہ ہے۔

یوم یدعون الی نار جھنم دعا (52 : 13) ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون (52 : 14) “ جس دن انہیں دکھے مار مار کر نار جہنم کی طرف چلایا جائے گا اس وقت ان سے کہا جائے گا ، یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ”۔

ہو سکتا ہے کہ وہ خود ایک دوسرے سے یہ بات کہیں گے کہ یہ عذاب الیم ہے اور اس کے بعد آیت۔

ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون (44 : 12) “ پروردگار ، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ”۔ یعنی کافر یہ کہیں گے جب انہوں نے دیکھ لیا کہ عذاب الٰہی آگیا اور یہ تو سزا ہے ۔ تو وہ سوال کریں گے کہ اے رب اس عذاب کو ٹال دے ، جس طرح دوسری جگہ اللہ نے فرمایا :

ولو تری اذ ۔۔۔۔ من المومنین (6 : 27) “ کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ، اس وقت وہ کہیں گے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ”۔ اور اسی طرح اس آیت میں بھی یہی مضمون ہے۔

وانذر الناس یوم ۔۔۔۔۔ من زوال ۔ “ اے نبی اس دن سے تم انہیں ڈرا دو جبکہ عذاب انہیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب ، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے ، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے ”۔ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو ابھی سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے ”۔ زیر بحث آیت سے اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے۔

انی لھم الذی وقد جاءتھم رسول مبین (44 : 13) ثم تولوا ۔۔۔۔ مجنون (44 : 14) “ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے ان کا حال تو یہ تھا کہ ان کے پاس رسول امین آیا تھا۔ یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا “ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے ” ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کس طرح یاددہانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، ہم نے ان کی طرف رسول بھیجا ، جس نے واضح طور پر ان کے سامنے دعوت پیش کی۔ ان کو ڈرایا ، اس کے باوجود انہوں نے منہ پھیرلیا۔ اور انہوں نے اس کی کوئی بات نہ مانی بلکہ تکذیب کی اور کہا کہ یہ تو سکھایا ہوا مجنون ہے۔

اس کی مثال بھی قرآن کریم میں ہے۔

یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری (89 : 23) “ اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ”۔ اور اسی طرح ایک دوسری آیت میں ہے۔

ولو تری اذ ۔۔۔۔۔ مکان قریب (34 : 51) وقالوا امنا ۔۔۔۔۔ مکان بعید (34 : 53) “ کاش تم دیکھ سکو ، انہیں اس وقت جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جاسکیں گے بلکہ قریب ہی سے پکڑے جائیں گے۔ اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں ہاتھ آسکتی ہے۔ مذکورہ بالا آیت نمبر 14 کے بعد یہ آیت آتی ہے :

انا کاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون (44 : 15) “ ہم عذاب ذرا ہٹا دینے والے ہیں مگر تم پھر وہی کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ”۔ اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اگر ہم عذاب کو ہٹا دیں اور تمہیں پھر دنیا میں لوٹا دیں تو تم نے پھر وہی کچھ کرتا ہے جو پہلے کیا ، یعنی کفرو تکذیب اور اس کی مثال دوسری آیات میں بھی ہے۔

ولو رحمنھم ۔۔۔۔۔ طغیانھم یعمھون (23 : 75)

“ اگر ہم ان پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج یہ مبتلا ہیں ، دور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے ”۔ اور جس طرح دوسری آیت میں ہے :

ولو ردوا ۔۔۔۔ لکذبون (6 : 28) “ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا اور وہ تو ہیں ہی جھوٹے ”۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے ، ہم تم سے عذاب کو عملاً روکے رکھتے ہیں یا روکے رکھنے والے ہیں حالانکہ تم سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے چلے جاتے ہو۔ کیونکہ کشف عذاب کے لئے لازم نہیں ہے کہ عملاً ان پر عذاب آبھی گیا ہو۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا :

الا قوم یونس ۔۔۔۔۔ الی حین (10 : 98) “ ماسوائے قوم یونس کے کہ وہ جب ایمان لائے تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقعہ دے دیا تھا ”۔ حالانکہ ابھی عذاب نے ان کو چھوا نہیں تھا بلکہ عذاب کے اسباب فراہم ہوگئے تھے۔ قتادہ نے تو یہ معنی لیے ہیں کہ تم عذاب الٰہی کی طرف لوٹنے والے ہو ، آگے آیت ہے۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون (44 : 16) “ جس روز ہم پکڑ دھکڑ کریں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے ”۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس کی تفسیر بدرکبریٰ سے کی ہے اور یہ قول کچھ دوسرے لوگوں بھی اختیار کیا ہے جنہوں نے ابن مسعود کے ساتھ اتفاق رائے کیا ہے۔ اور یہی تفسیر حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ان سے یہ روایت عوفی نے نقل کی ہے اور یہی رائے حضرت ابی ابن کعب کی ہے اور اس کا احتمال بھی ہے لیکن ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے بھی مراد یوم القیامہ ہے۔ اگرچہ یوم بدر کفار کے لئے بھی بڑی پکڑ کا دن تھا۔ ابن جریر نے روایت کی ہے ، یعقوب سے انہوں نے ابن علیہ سے انہوں نے خالد حذاء سے انہوں عکرمہ سے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا “ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں بطشۃ الکبریٰ سے بدر کا دن مراد ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ قیامت کا دن ہے ”۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ حسن بصری اور عکرمہ بمطابق صحیح روایت اسی کے قائل ہیں ”۔ یہاں ابن کثیر کا کلام ختم ہوا۔

ہم یہاں حضرت ابن عباس کا قول اختیار کرتے ہیں کہ دخان قیامت کے دن ہوگا۔ اور اس کی تفسیر علامہ ابن کثیر نے بہت اچھی کی ہے۔ یہ کفار کے لئے تہدید اور ڈراوا ہے اور اس کے نظائر قرآن کریم میں بہت ہیں۔ جن کے مطابق یہی مفہوم دوسرے مقامات پر بھی دہرایا گیا ہے۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا یہ لوگ شک کرتے ہیں اور کھیل کود میں مصروف ہیں ، ان کو چھوڑ دیں اور اس دن کا ، خوفناک دن کا انتظار کریں ، جب آسمان سے دھواں آئے گا ، تمام لوگوں کو ڈھانپ لے گا اور یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے عذاب الیم۔ اور پھر ان کی فریاد کی تصویر کشی کی گئی کہ اے ہمارے رب ، اس عذاب کو ہم سے دور کر دے ہم ایمان لاتے ہیں اور ان کی اس درخواست کو رد کردیا جاتا ہے کہ اس کی منظوری محال ہے کیونکہ وقت چلا گیا ہے۔ اب یہ نصیحت بھی پاسکتے ہیں ، ان کے پاس تو رسول مبین آگیا تھا اور یہ اس وقت یہ کہتے ہوئے منہ موڑ گئے تھے کہ یہ سکھایا ہوا جادوگر ہے۔ اسے یہ سب کچھ ایک عجمی غلام سکھا رہا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔

اس منظر میں جہاں یہ لوگ عذاب کے ٹلنے کی درخواست کرتے ہیں ، ان سے بطور جملہ معترضہ یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو ابھی تو تم دنیا میں ہو۔ فرصت کے قلیل لمحات موجود ہیں اور ابھی تو عذاب سے بچے ہوئے ہو ، ایمان لے آؤ، تمہیں ڈرایا جارہا ہے کہ تم ہی ہوگے جو آخرت میں ایمان لانے پر آمادہ ہوگے مگر وہاں ایمان قبول نہ ہوگا۔ ابھی تو تم امن و عافیت میں ہو اور یہ امن و عافیت دائمی نہیں ہے۔ تم ہمارے سامنے آنے والے (عائدون ) ہو۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری (44 : 16) “ جس دن یہ دھواں ہوگا جس کی تصویر کشی قرآن کر رہا ہے اور پکڑ دھکڑ ہوگی تو انا منتقمون (44 : 16) “ تو ہم انتقام لیں گے ”۔ تمہاری اس لاپرواہی کا ، تمہاری اس بہتان طرازی کا ، جو تم رسول اللہ ﷺ پر کرتے ہو اور کہتے ہو ، معلم مجنون (44 : 14) “ سکھایا پڑھایا مجنون ہے ” حالانکہ وہ صادق و امین ہے۔

اس طرح تمام آیات کی تفسیر درست ہوجاتی ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق ۔ واللہ اعلم !

٭٭٭٭

اس کے بعد قرآن مجید ان کو تاریخ کی ایک وادی میں لے جاتا ہے۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا ایک مختصر حصہ ہے اور اس کا خاتمہ اس زمین پر ایک عظیم پکڑ نبطش البطشۃ الکبری (44 : 16) کا نمونہ ہے۔ اس سے قبل جس کا نمونہ ان کو دخان کی نقشہ کشی میں بتا دیا گیا تھا۔

اردو ترجمہ

اچھا انتظار کرو اُس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fairtaqib yawma tatee alssamao bidukhanin mubeenin

اردو ترجمہ

اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے درد ناک سزا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaghsha alnnasa hatha AAathabun aleemun

اردو ترجمہ

(اب کہتے ہیں کہ) " پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana ikshif AAanna alAAathaba inna muminoona

اردو ترجمہ

اِن کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟ اِن کا حال تو یہ ہے کہ اِن کے پاس رسول مبین آ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Anna lahumu alththikra waqad jaahum rasoolun mubeenun

اردو ترجمہ

پھر بھی یہ اُس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ "یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma tawallaw AAanhu waqaloo muAAallamun majnoonun

اردو ترجمہ

ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna kashifoo alAAathabi qaleelan innakum AAaidoona

اردو ترجمہ

جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma nabtishu albatshata alkubra inna muntaqimoona

اردو ترجمہ

ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اِسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad fatanna qablahum qawma firAAawna wajaahum rasoolun kareemun

آیت نمبر 17 تا 33

اس وادی کے دروازے ہی پر یہ خوفناک اعلان لکھا ہوا ہے کہ یاد رکھو ، کسی قوم کی طرف رسول کا بھیجا جانا اس کی آزمائش ہوتی ہے۔ مکذبین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وقت بہت تھورا ہے ، اس میں تم تکذیب بھی کرسکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، مومنین پر ظلم و ستم بھی ڈھا سکتے ہو لیکن آخر میں غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور تم جو رسول اللہ ﷺ کو طیش دلاتے ہو ، ان کا پیمانہ صبر لبریز کرتے ہو ، لیکن آپ ﷺ بدستور صبر کا پیکر بنے ہوئے ہیں اور تمہاری ہدایت ہی کے امیدوار ہیں ، اس کا انجام برا بھی ہو سکتا ہے اور تم فرعون کی طرح سخت پکڑ میں بھی آسکتے ہو۔

ولقد فتنا قبلھم قوم فرعون (44 : 17) “ ہم اس سے قبل فرعون کی قوم کو اس آزمائش میں ڈال چکے ہیں ”۔ ان کو نعمتیں دے کر اور بادشاہت دے کر اور زمین میں نہایت ہی تمکنت دے کر آزما چکے ہیں۔ اور پھر خوشحالی ، دولت کے اسباب اور سر بلندی میں ان کو طویل مہلت بھی دی گئی :

وجاءھم رسول کریم (44 : 17) “ اور ان کے پاس ایک نہایت ہی شریف رسول آیا ”۔ اور یہ بھی آزمائش کا ایک پہو تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم نے ان سے کیا بات تسلیم کرنے کے لئے کہا تھا۔ آپ نے ان سے کوئی بات چیز اپنے لیے طلب نہ کی تھی۔ آپ ان کو اللہ کی طرف بلاتے تھے اور آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہر بات اللہ کے لئے ادا کرو اور کوئی چیز بخل کرکے اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے نہ رکھو۔

ان ادوا ۔۔۔۔۔ رسول امین (44 : 18) وان لا تعلوا ۔۔۔۔۔ مبین (44 : 19) وانی عذت ۔۔۔۔۔ ترجمون (44 : 20) وان لم ۔۔۔۔ فاعتزلون (44 : 21) کہ “ اللہ بندو ! سب کچھ میرے حوالے کر دو ” یا “ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو ، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ اللہ کے مقابلے میں سر کشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں ، اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو ”۔ یہ ہے وہ مختصر دعوت جسے رسول کریم یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تم کلی طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم ختم کردو ، پوری ادائیگی کرو ، اور سب کچھ اللہ کے لئے دو ، جس کے تم بندے ہو ، بندوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی کریں۔ یہ اللہ کی دعوت ہے اور ایک شریف رسول لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور اس کے پاس رسول ہونے کی سند بھی ہے۔ ایک مضبوط اور قوی دلیل ہے۔ اگر کھلے دل سے غور کیا جائے تو ایسے براہین پر یقین آنا چاہئے۔ آپ ان کے تشدد کے مقابلے میں اللہ کی پناہ لیتے ہیں کہ وہ آپ کو پکڑ کر رجم کردیں۔ اگر وہ ایمان کا انکار کرتے ہیں اور رسول سے الگ ہوتے ہیں تو آپ ان کو یہ پیشکش کرتے ہیں کہ میں بھی تم سے علیحدہ ہوجاؤں گا۔ اور یہ ایک نہایت ہی منصفانہ بات ہے کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میری راہ نہ روکو۔

اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے۔

ان ادوا الی عباد اللہ (44 : 18) “ کہ اللہ کے بندوں (بنی اسرائیل ) کو میرے حوالے کر دو ” اور ان کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہ بناؤ۔ دوسری جگہ تصریح آئی ہے۔

ان ارسل معنا بنی اسرائیل ” یہ کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو “ ۔ لیکن سرکشوں نے کبھی بھی کسی کے معقول اور منصفانہ مطالبات نہیں مانے ۔ سرکش سچائی کو آزاد دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ وہ سہولت کے ساتھ عوام تک پہنچ جائے ، چناچہ ہر سرکش سچائی کو اپنی گرفت میں لینا پسند کرتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا۔ کیونکہ سرکشوں اور سچائی کے درمیان اگر صلح ہوجائے تو پھر سچائی تو چھانے لگتی ہے۔ اور عوام کے دل و دماغ کو فتح کرتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل حق پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ اہل حق کو رجم کرتا ہے۔ وہ حق کو الگ بھی رہنے نہیں دیتا کہ وہ صحیح سلامت اور آرام سے رہے۔

یہاں سیاق کلام میں قصے کی کئی کڑیوں کو مختصر کر کے پیش کیا گیا ہے تا کہ قارئین کو جلد انجام تک پہنچایا جائے ، جبکہ آزمائش انتہا کو پہنچ جائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) محسوس کردیں کہ یہ لوگ دعوت کو ہرگز قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ اس کے لئے تیار ہیں کہ ہمیں گوارا کر کے اپنا کام کرنے دیں۔ اور آپ کو معلوم ہوجائے کہ ان کی مجرمانہ ذہنیت بہت ہی گہری اور ٹھوس ہے اور ان کی اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے۔ اور وہ اس ذہنیت کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ یہاں آکر پھر اپنے رب کے ہاں آخری پکار کرتے ہیں اور مکمل طور پر اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔

فدعا ربہ ان ھولاء قوم مجرمون (44 : 22) ” آخر کار انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں “۔ آخرت ایک رسول اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ اپنی جدو جہد کی پوری کمائی لے کر اپنے رب کے دربار میں پیش کر دے اور اسے اللہ کے سامنے رکھ دے اور اگلا اقدام اللہ پر چھوڑ دے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں جو تبصرہ اور رپورٹ کی تھی ، اللہ نے اسے قبول کرلیا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ فی الواقع مجرم ہیں۔

فاسر بعبادی لیلا انکم متبعون (44 : 23) واترک البحر رھوا انھم جند مغرقون (44 : 24) ” اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑو تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ السری اس سفر کو کہتے ہیں جو رات کے وقت ہو ، اس کے بعد ” لیلا “ کا لفظ منظر کو دوبارہ ذہن میں لاتا ہے کہ اللہ کے کچھ بندے بنی اسرائیل رات کے وقت سفر میں ہیں۔ یہ لفظ اس وقت راز داری کی فضا کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ ان کا یہ شبینہ سفر دراصل تھا ہی فرعون سے خفیہ اور حکومت کی لاعلمی سے تھا۔ ” الرہو “ کے معنی ہوتے ہیں سکون کے۔ یہاں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ آپ اور آپ کی قوم گزر جائیں اور اپنے پیچھے سمندر کو سکون کی حالت میں چھوڑ دیں۔ ایسی ہی حالت پر جس میں آپ اس سے گزرے تا کہ فرعون اور اس کی فوج دھوکہ کھا کر تمہارا پیچھا کرے اور اس طرح اللہ کا حکم پورا ہوجائے۔ انھم جند مغرقون (44 : 24) ” یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ یوں اللہ کی تقدیر کا فیصلہ اسباب ظاہریہ کے مطابق پورا ہوا ، اور یہ اسباب بھی در حقیقت اللہ کے فیصلے ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔

یہاں سیاق کلام میں فرعون کی غرقابی کے واقعات کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ بطور فیصلہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ غرق ہونے والا لشکر ہے۔ اب اس منظر کو چھوڑ کر اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے اور یہ تبصرہ بھی ایک زبردست منظر ہے جو سرکش اور متکبر فرعون اور اس کے سرداروں کی زبوں حالی کی داستان ہے۔ یہی لوگ تھے جو اسے ظلم اور سرکشی پر آمادہ رکھتے تھے۔ ان کا ہلاک و برباد کرنا ، اللہ کے لئے کس قدر سہل رہا۔ اپنی اس حیثیت کے ساتھ وہ غرور کرتا تھا۔ اور اس کے یہ پیروکار اس پر نثار ہوتے تھے۔ حالانکہ یہ سب لوگ اس قدر چھوٹے اور اس قدر معمولی تھے کہ اس کائنات نے ان کی غرقابی کا کوئی احساس ہی نہ کیا۔ فرعون سے سب کچھ چھین لیا گیا اور کوئی رونے والا نہ تھا۔ کسی نے بھی اس کی اس بربادی پر مرتبہ نہ لکھا ، نہ زمین نے ، نہ آسمان نے۔

کم ترکوا من جنت وعیون (44 : 25) وزروع و مقام کریم (44 : 26) ونعمۃ کانوا فیھا فکھین (44 : 27) کذلک وارثنھا قوما اخرین (44 : 28) فما بکت علیھم ۔۔۔۔۔۔ منظرین (44 : 29) ” کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے ۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان ، جن میں وہ مزے کر رہے تھے ، ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کا انجام ، اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔ پھر نہ آسمان ان پر رویا ، نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ اس منظر میں وہ انعامات بھی دکھائے گئے ہیں جن میں وہ داد عیش دیتے تھے۔ باغات ، چشمے ، قسم قسم کی زراعت ، بڑے بڑے محل ، جہاں ان کو بڑا اعزاز ملا ہوا تھا۔ ان نعمتوں میں کھاتے پیتے اور داد عیش دیتے تھے اور مسرور اور مست تھے۔

اس کے بعد ان سے یہ سب کچھ چھین لیا جاتا ہے اور دوسری اقوام کو ان کا وارث بنا دیا جاتا ہے اور دوسری جگہ یوں کہا گیا ہے۔

کذلک واورثنھا بنی اسرائیل ” یونہی ، اور وارث بنا دیا ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو “۔ بنی اسرائیل تو فرعون کی بادشاہت کے وارث نہ بنائے گئے تھے لیکن فلسطین میں ان کو زبردست عروج نصیب ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اسی قسم کی نعمتوں کا ان کو وارث بنایا گیا جیسی فرعونیوں سے چھینی گئی تھیں۔

پھر کیا ہوا ، فرعون اور اس کے سردار نیست و نابود ہوگئے۔ ایک وقت تھا کہ اس زمین پر وہ لوگوں کی آنکھ کا تارا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ان کا بےحد رعب تھا ، یا یہ وقت ہے کہ ان کے نیست و نابود ہونے پر کوئی آنکھ نہیں روئی۔ نہ آسمان کو اس احساس ہوا اور نہ زمین کو ، نہ ان کو مہلت ملی اور ان کے معاملے کو اٹھا کر رکھا گیا۔

فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین (44 : 29) ” نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ یہ ایک ایسا انداز تعبیر ہے جو ان کی کسمپری اور دنیا کی بےوفائی اور آنکھیں پھیر لینے کو ظاہر لینے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سرکش اور مغرور لوگ اس دنیا سے چلے گئے اور ان کے لئے رونے والی آنکھ نہ زمین و آسمان میں کوئی نہ تاسف کا اظہار کرتا ، وہ اس طرح چلے گئے جس طرح کوئی چیونٹیوں کو روند ڈالے۔ جبکہ وہ اس قدر جبار وقہار تھے کہ انسانوں کو چیونٹیوں کی طرح روندتے چلے جاتے تھے۔ یہ کیوں ہوا ، اس لیے کہ یہ اس کائنات سے منقطع تھے۔ یہ پوری کائنات مسلم تھی اور یہ کافر تھے ، یہ خبیث ، دھتکارے ہوئے اور شریر لوگ تھے اور یہ پوری کائنات ان سے نفرت کرتی تھی۔ اس دنیا کے ڈکٹیٹر اگر ان باتوں کو سمجھتے اور ان ہدایات کو اپناتے جو ان آیات میں ہیں تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ وہ اس کائنات میں کتنے ہلکے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ اور ان کو یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس زمین پر نہایت ہی تنہا ، دھتکارے ہوئے اور پوری کائنات اور خالق کائنات سے کٹے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ، یہ کیوں اس لیے کہ وہ ایمانی رابطوں سے کٹے ہوئے اور مجرم ہیں۔

اور ان کے ان برے دنوں کے مقابلے میں اہل ایمان کی عزت اور تکریم :

ولقد نجینا۔۔۔۔۔ المھین (44 : 30) من فرعون ۔۔۔۔۔ المسرفین (44 : 31) ولقد اخترنھم علم علی العلمین (44 : 32) واتینھم من الایت ما فیہ بلوا مبین (44 : 33) ” اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب ، فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا ، اور ان کی حالت جانتے ہوئے ان کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی ، اور انہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔

یہاں توہین آمیز عذاب سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذکر ہے۔ جبکہ یہ عذاب دینے والے جباروں کو نیست و نابود کردیا گیا ۔ جو کبرو غرور کرنے والے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے تھے۔

من فرعون انہ کان عالیا من المسرفین (44 : 31) ” فرعون سے جو حد سے گزرنے والوں میں فی الواقع اونچے درجے کا آدمی تھا “۔

اس کے بعد اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دوسری قوموں پر ترجیح دی اور ان کی حقیقت کو جانتے ہوئے دی۔ ان کی اچھائی بھی ہماری نظروں میں تھی اور ان کا شر بھی ہماری نظروں میں تھا۔ اس لیے ان کو اپنے دور میں تمام اقوام پر سربلند کردیا ، کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے زمانے کی اقوام میں یہ اعلیٰ و افضل اور برتر ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی نصرت ، اور امداد سے اس قوم کو بھی نوازتا ہے جو اپنے اہل زمانہ سے افضل ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ ایمان و یقین میں اعلیٰ معیار تک نہ پہنچے ہوئے ہیں۔ بشرطیکہ ان کی قیادت اچھی ہو اور ان کو ہدایت ، علم اور بصیرت کے ساتھ اور ثابت قدمی کے ساتھ بلندی کی طرف لے جارہی ہو۔

واتینھم من الایت ما فیہ بلؤا مبین (44 : 33) ” اور انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔ اس طرح ان نشانیوں کے ذریعہ ان کو آزمایا گیا ۔ جب ان کا امتحان اور ان کی آزمائش پوری ہوگئی اور ان کی خلافت اور اقوام عالم پر ترجیح کا زمانہ ختم ہوگیا تو ان کے انحراف اور گمراہی کی وجہ سے ان کو پکڑا گیا اور ان پر دوسری اقوام کو مسلط کردیا گیا ، پھر ان کو بار بار ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا اور خواری لکھ دی گئی اور ان کو کہہ دیا گیا کہ جب بھی تم حد سے بڑھے اور سرکشی اختیار کی تو تمہیں ذلیل و خوار کیا جائے گا۔ یہ حالت تمہاری قیامت تک ہوگی۔

٭٭٭

فرعون اور اس کے سرداروں کی ہلاکت خیز سفر کے مشاہدات کے بعد جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کو بات دی گئی اور اس کے ان کو آزمایا گیا۔ اب دوبارہ مشرکین کے عقیدہ بعث بعد الموت کی طرف بات کا رخ ہوتا ہے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد اٹھائے جانے میں شک کرتے تھے بلکہ انکار کرتے تھے۔ اس موضوع کو دوبارہ اس زاویہ سے لیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا اس کائنات کے اصل نقشے کا حصہ ہے کیونکہ یہ حق ہے اور اس کائنات کا وجود ہی حق پر ہے اور حق کا تقاضا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے۔

اردو ترجمہ

اور اس نے کہا "اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An addoo ilayya AAibada Allahi innee lakum rasoolun ameenun
496