اس صفحہ میں سورہ At-Taghaabun کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التغابن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
زمین اور آسمانوں میں ، جو مخلوق بھی ہے ، وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہے۔ اس کی تسبیح اور تعریف کررہی ہے۔ گویا اس پوری کائنات کی روح مومن ہے۔ اور اس پوری کائنات کا دل مومن ہے۔ اللہ اس پوری کائنات کا مالک ہے۔ اور اس کائنات کی ہر چیز میں اس کا شعور بھی ہے۔ اللہ اپنی ذات میں بھی ستودہ صفات ہے اور اس مخلوقات کے اندر بھی اس کی تعریف اور تمجید ہوتی ہے۔ اب اگر اس وسیع کائنات کے سمندر میں ایک اکیلا انسان کافر بن جائے اور اس کی روح اور اس کا قلب غافل اور منکر ہو ، وہ سرکش اور نافرمان ہو ، اللہ کی تسبیح نہ کرے ، اس کی طرف متوجہ نہ ہو تو یہ بالکل شاذ ہوگا ، اور انوکھا ہوگا ، اور عجیب ہوگا اور نمایاں طور پر الگ ہوگا۔ اس طرح جس طرح کسی کو یہ پوری کائنات دھتکار دے۔
وھو علی ................ قدیر (36 : 1) ” اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اللہ کی قدرت بےقید اور لامحدود ہے۔ قلب مومن میں قرآن اس حقیقت کو طبع کرتا ہے۔ یوں انسان اس حقیقت کو جانتا ہے اور اس کے مدلول سے متاثر ہوتا ہے۔ اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ قدرت جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔ وہ اپنے آپ کو قدرت کے سپرد کردیتا ہے کہ قدرت اس معاملات کے اندر جو چاہے تصرف کرے۔
قدرت الٰہیہ کا یہ جامع تصور کہ ہر شے اس کی تسبیح کرتی ہے ، اس کی تعریف کرتی ہے اور اس کی طرف متوجہ ہے ، یہ اسلام کے اس عظیم جامع تصور کا ایک اہم پہلو ہے۔
دوسری چٹکی خود قلب انسانی کے اندر۔ انسان کا یہ چھوٹا سا دل اس عظیم کائنات کے سمندر کے اندر ہے۔ یہ پوری کائنات تسبیح الٰہی اور حمد الٰہی میں رطب اللسان ہے۔ یہ چھوٹا سا دل کبھی مومن بن جاتا ہے اور کبھی کافر۔ اس چھوٹے انسان کا چھوٹا قلب ہی اس کائنات میں ایسا موقف اختیار کرتا ہے ۔ کائنات کی کوئی شے اس کفر میں اس کا ساتھ نہیں دیتی۔
ھوالذی .................... مومن (46 : 2) ” وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن “۔ یہ انسان اللہ کی قدرت اور اللہ کے ارادے سے وجود میں آیا ہے۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کے اندر کفر کے رجحان کے امکانیات اور ایمان کے رجحان کے امکانیات رکھے۔ اس حضرت انسان کے اندر مختلف الجہات استعدادیں بیک وقت ودیعت کردیں اور پھر اللہ نے اسے نیک وبد کی تمیز بھی عطا کی۔ اور اسی استعداد کے مطابق اس انسان کے اندر ایمان پیدا ہوا۔ ایمان اللہ کی طرف سے ایک بڑی امانت ہے اور اس کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے اسے دین و شریعت بھی عطا کی جس کے مطابق وہ اپنے ایمان اور عمل کو وزن کرتا ہے۔ یہ دین اس نے رسولوں پر نازل فرمایا اور یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کی معاونت کی کہ وہ اس امانت کو اٹھائے اور دوسرے انسانوں کی اس میں داخل ہونے کے لئے مدد دے۔
واللہ ................ بصیر (46 : 2) ” اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو “۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان کر کیا رہا ہے ؟ وہ انسانوں کی نیت اور رجحان سے واقف ہے لہٰذا انسان کو عمل بھی کرنا چاہئے اور ڈرنا بھی چاہئے کیونکہ نگران علیم وبصیر ہے ، کہیں سویا ہوا نہیں ہے۔
انسان کی حقیقت اور اس جہاں میں اس کے مقام وموقف کے بارے میں یہ تصور ، اس کائنات کے بارے میں اسلام کے واضح سیدھے تصور کا ایک حصہ ہے کہ انسان کو یہاں استعداد واختیار دیا گیا ہے اور وہ اپنے خالق کے سامنے اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور خالق علیم وبصیر ہے۔
خلق السموت .................... المصیر (46 : 3) ” اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے ، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے ، اور اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے “۔
آیت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ” اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا “۔ اس سے ایک مومن کو یہ شعور ملتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اور تدبیر میں حق ایک بنیادی عنصر ہے۔ یہ کوئی عارضی یا غیر ضروری چیز نہیں ہے۔ اس کائنات کی تشکیل ہی حق پر ہے اور جو ذات یہ حقیقت بیان کررہی ہے وہ وہی ہے جس نے زمین و آسمان اور اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ کائنات کس بنیاد پر قائم ہے۔ کسی شخص کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے تو جب اس کا سچائی پر اعتماد بحال ہوتا ہے تو اس کا اپنے دین پر بھی اعتماد بحال ہوتا ہے۔ کیونکہ دین اسلام بھی حق پر قائم ہے اور دین حق ہے۔ اور یہ کائنات بھی حق پر قائم ہے جو انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔ لہٰذا حق غالب ہوگا۔ حق باقی رہے گا اور جب باطل کی جھاگ بیٹھ جائے گی تو حق نمودار ہوتا ہے۔
اور آیت کے آخری حصہ میں ایک دوسری حقیقت بیان کی گئی ہے۔
وصورکم ............ صورکم (46 : 3) ” اور نے تمہاری صورت بنائی اور بہت عمدہ بنائی “۔ انسان کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تم مکرم ہو اور اللہ نے تمہیں بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ تمہاری اخلاقی تصویر بھی اچھی ہے اور تمہاری شعوری تصویر بھی اچھی ہے اور پیدائشی تصویر بھی بہت حسین ہے۔ انسان انپی جسمانی ساخت کے اعتبار سے بھی زندہ اشیاء سے زیادہ مکمل جسم کا مالک ہے۔ اور روحانی ، وشعوری اور قابلیتوں کے لحاظ سے بھی وہ مکمل ہے ، یہی وجہ ہے کہ زمین پر خلافت کا منصب انسان کو دیا گیا ہے اور انسان کے لحاظ سے اس وسیع جگہ یعنی زمین پر اسے بسایا گیا ہے۔
اگر انسان کی جسمانی ساخت اور اس کے نقشے پر ذرا گہری نظر ڈالی جائے یا انسانی جسم کے نظام کے کسی بھی حصے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔
وصورکم ................ صورکم (46 : 3) ” اس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی “۔ یہ ایک ایسا نقشہ ہے جس کے اندر کمال و جمال دونوں پائے جاتے ہیں اور پھر ہر انسان کے اندر خوبصورتی میں تفاوت ہے لیکن جہاں تک مجموعی نقشے کا تعلق ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔ اور کامل ہے اور انسانی ضروریات تمام زندہ چیزوں کی ضروریات کے مقابلے میں بطریق احسن پوری کرتا ہے۔
والیہ المصیر (46 : 3) ” اور اس کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے “۔ ہر چیز کا انجام ، ہر مخلوق کا مرجع اور ہر معاملے کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس پوری کائنات کا مرجع بھی وہ ہے۔ اس انسان کے لوٹنے کی جگہ بھی وہ ہے۔ اللہ کے ارادے ہی سے ان چیزوں نے وجود پایا۔ اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پیدائش بھی اس سے حاصل کی اور فنا اور انجام بھی اسی کی طرف ہے۔ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، ہر چیز پر محیط ہے۔ آغاز بھی وہ اور انجام بھی وہ اور وہ لامحدود ہے۔
اور چوتھا تیز احساس جو اس آیت میں دیا گیا ہے ، وہ ہے اللہ کے جامع اور شامل اور محیط علم کی ایک ایسی تصویر ، جو انسان کے خفیہ رازوں کو جاننے والا ہے ، راز سے بھی خفیہ چیز ، جو دل میں آتی ہے ، جسے ” بذات الصدور “ کہتے ہیں جن کی گرفت میں دل ہوتا ہے ، انہیں بھی جانتا ہے۔
یعلم مافی ............................................ الصدور (46 : 4) ” زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے ، جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے “۔
اس حقیقت کا ایک مومن کے دل میں بیٹھنا ، اسے معرفت رب عطا کرتا ہے۔ اس طرح اپنے رب کی معرفت حاصل ہونے کے بعد اس کے آفاقی اور کائناتی ایمان کا یہ پہلو بہت مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ اللہ کی نظروں میں ہے۔ کوئی ایسا راز نہیں ہے جو اس پر مخفی ہو۔ اس کے ضمیر میں کوئی گہری سوچ بھی ایسی نہیں ہے جس سے اللہ باخبر نہ ہو۔
یہ تین آیات ہی انسان کے لئے اس قدر رہنمائی فراہم کردیتی ہیں کہ انسان اپنی حقیقت کو سمجھے ، اس کائنات کو سمجھے اور اس کائنات اور اپنے خالق کی ساتھ اپنا تعلق جوڑے۔ اللہ سے ڈرے۔ ہر حرکت اور ہر رخ میں۔
اب ہم آتے ہیں اس سورت کے دوسرے پیراگراف کی طرف۔ اس میں ان اقوام ماضیہ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ جن کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ایک بشر کو کس طرح رسول بنایا گیا ؟ مشرکین مکہ بھی یہی سوال دہراتے تھے اور اسی وجہ سے حضور اکرم ﷺ اور آپ کی تعلیمات کی تکذیب کرتے تھے۔
الم بالکم ............................ حمید (46 : 6) (46 : 5۔ 6) ” کیا تمہیں ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا ؟ اور آگے ان کے لئے ایک درد ناک عذاب ہے۔ اس انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ “ اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا ، تب اللہ بھی ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔ “
یہ خطاب تمام مشرکین کو ہے کہ اس سے قبل جن لوگوں نے تکذیب کی ان کا جو انجام ہوا ، اس پر ذرا غور کرلو۔ استفہام تو کبھی اس لئے ہوتا ہے کو اقوام سابقہ کے حالات ان مشرکین کو بتا دیئے جانے کے بعد بھی یہ کفر کرتے ہیں تو ان کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ دیکھو اور اس طرح توجہ کرو کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس کا انجام یوں بھی ہوتا ہے (یعنی مذمت اور توجہ مبذول کرانے کے لئے) یہ لوگ تو امم سابقہ کے احوال سے واقف تھے ، قصے ان کے ہاں مشہور تھے۔ مثلاً عاد ، ثمود اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں تو عرب واقف تھے۔ ان کھنڈرات پر سے وہ گزرتے تھے جب وہ شمال اور جنوب کے سفروں پر جاتے تھے۔
دنیا میں ان کا جو انجام ہوا تو ہو اور تو زبان زد عام ہے ، قرآن اس پر یہ اضافہ کرتا ہے۔
ولھم عذاب الیم (46 : 5) ” اور آگے ان کے لئے ایک درد ناک عذاب ہے “۔ یہ آخرت کا عذاب ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے۔
ذلک بانہ .................... یھدوننا (46 : 6) ” اس انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ “ اور یہ وہی اعتراض تھا جو مشرکین مکہ نبی ﷺ پر کرتے تھے۔ یہ بہت ہی گرا پڑا اعتراض ہے اور خالص جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ منصب رسالت کو سمجھے ہی نہیں اور اس بات کو سمجھے ہی نہیں کہ رسول اور رسالت نے انسانوں کے سامنے اللہ کی شریعت اور نظام پیش کرنا ہوتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ اس نظام کو ایک بشر اپنے اوپرنافذ کرکے لوگوں کو دکھائے۔ یوں رسول کا بشر ہونا انوکھا نہیں بلکہ ضروری تھا۔ یہ رسول ہی ہوتا ہے جو اسلامی شریعت اور قانون پر عمل کرکے دکھاتا ہے ، اگر رسول اور لوگوں کی جنس ہی الگ ہو تو لوگ رسالت کی ایک عملی صورت سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے لئے یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ اس کی اطاعت کریں۔ اپنی ذات ، اپنے اخلاق اور اپنی انداز معیشت میں۔ پھر ان کی یہ رائے خود انسان کی حقیقت سے جہالت پر مبنی ہے کہ اللہ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ عالم علوی سے ہدایت اخذ کرنے کے قابل ہو ، اور اس کے لئے کسی فرشتے کو رسول بنانے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ انسان کے اندر تو اللہ کی روح پھونکی ہوئی ہے اور انسان کی اسی روحانیت کی وجہ سے وہ اللہ سے براہ راست رسالت اخذ کرتا ہے۔ اور اس کے فرائض اللہ کی منشا کے مطابق ادا کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے لئے ایک ایسا اعزاز ہے جس سے انکار کوئی جاہل ہی کرسکتا ہے جس کو انسان کے مقام و مرتبہ کا علم نہ ہو۔ اگر کوئی جاہل نہیں ہے تو پھر وہ متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبرغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبروغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر ہیں اور نظر انداز کرنے کے قابل ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تو جائز ہے کہ جنس انسان کے علاوہ کوئی جنس فرشتے وغیرہ آئیں تو ان کی رسالت کو تو یہ ماننے کے لئے تیار ہیں مگر اپنے میں سے ایک انسان کو یہ رسول ماننے کے لئے تیار نہیں۔
صرف یہی وجہ ہے جس کی بنا پر تاریخ میں لوگوں نے رسولوں کا انکار کیا ، حالانکہ ان کے ساتھ دلائل ومعجزات تھے ، اور اعلیٰ تعلیمات تھیں۔ اس جہالت اور کبر کی وجہ سے لوگوں نے کفر وشرک تو اختیار کیا مگر رسالتوں کا انکار کرتے رہے۔
واستغنی ................ حمید (46 : 6) ” تب اللہ بھی ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں محمود “۔ اللہ ان کے ایمان اور ان کی اطاعت سے مستغنی ہوگیا۔ اللہ کو ان چیزوں کی ضرورت کیا ہے ۔ اللہ تو ان چیزوں کا اصلا محتاج ہی نہیں ہے ، وہ غنی ہے اور اپنی ذات ہی میں محمود ہے۔ یہ تو تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر اور شرک پر اصرار کررہے ہی۔ کیا یہ بھی اسی انجام کو پہنچنے کے خواہش مند ہیں۔
تیسرا پیراگراف دوسرے پیراگراف کا تتمہ ہے کہ رسالت پر اعتراض کے ساتھ یہ لوگ بعث بعد الموت کے بھی منکر ہیں۔ یہ لوگ مکہ اور مدینہ کے مشرک تھے ، جن کے سامنے رسول اللہ کی دعوت پیش کی جارہی تھی۔ اس پیراگراف میں رسول اللہ کو ہدایت فرمائی جاتی ہے کہ آپ بطور تاکید مزید ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ مزاح نہ سمجھو تم نے ایک دن اٹھنا ہے۔ پھر اس دن کا ایک منظر بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں مکذبین اور مصدقین کا انجام بتایا جاتا ہے۔ آخر میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ ایمان لاﺅ اور ہر معاملے میں رسول کی اطاعت کرو اور ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کردو۔
مشرکین اور کافرین کے اس قول کو کہ ہمیں دوبارہ نہ اٹھایا جائے گا ، آغاز ہی سے زعم باطل کہا اور یہ بتادیا کہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ سے کہا جاتا کہ آپ ان سے سخت ترین الفاظ میں کہہ دیں کہ تمہیں اٹھایا جائے گا۔ اور اس تاکید کو اپنے رب کے نام سے حلف اٹھا کر مزید موکد کردیں۔ آخر رسول جب اپنے رب کے نام کی قسم اٹھا کر کوئی بات کرے تو اس سے مزید تاکید اور کیا ہوسکتی ہے۔
قل بلیٰ وربی لتبعثن (46 : 7) ” ان سے کہو میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاﺅ گے “۔ اور نہ صرف یہ کہ اٹھائے جاﺅ گے بلکہ۔
ثم لتنبون بما عملتم (46 : 7) ” پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ہے “۔ اس میں سے کوئی چیز بھی چھوٹی ہوئی نہ ہوگی۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہوگا ، اس لئے وہ قیامت کے دن بتادے گا۔
وذلک علی اللہ یسیر (46 : 7) ” اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے “۔ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے ، وہ ظاہری اور خفیہ سب چیزوں کو جانتا ہے۔ وہ ان رازوں سے واقف ہے جو دلوں کے راز ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے جیسا کہ سورت کے آغاز میں بطور تمہید یہی فقرہ آیا۔
ان تاکیدوں کی روشنی میں ان کو دعوت دی جاتی ہے ، کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاﺅ اور اللہ نے رسول پر جو تعلیمات اتاری ہیں ان کو تسلیم کرو ، وہ تو نئی روشنی ہے۔ یہ قرآن دراصل علم کی روشنی ہے ، اور قرآن جو دین و شریعت پیش کرتا ہے ، وہ بھی روشنی ہے۔ یہ تعلیم اپنی حقیقت میں نور ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نور السموات والارض ہے۔ پھر یہ تعلیمات اپنے آثار کے اعتبار سے بھی نور ہیں۔ اور اپنی ذات کے لحاظ سے بھی نور ہیں۔ اس روشنی میں انسان اپنی حقیقت پالیتا ہے اور اس جہاں کے حقائق کو اس کائنات کے حقائق سے دیکھتا ہے۔
دعوت ایمان دینے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا سب کچھ اللہ پر ظاہر ہے۔ اس سے کوئی شے مخفی نہیں رہی۔
بما تعملون خبیر (46 : 8) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے “۔
اس کے باتیا جاتا ہے کہ ذرا دیکھو جس بعث بعد الموت کی تیاری کی تمہیں دعوت دی جاتی ہے۔ وہ کیسی ہوگی ؟
یوم یجمعکم ........................ التغابن (46 : 9) ” جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا “۔ یوم الجمع تو اس لئے ہوگا کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو جمع کیا جائے گا۔ اور تمام ملائکہ کو بھی اس دن حاضر کیا جائے گا۔ اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ انسانی تصور کے قریب کرنے کے لئے حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوذر سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے۔ اور میں وہ کچھ سن رہا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔ آسمان بوجھ کی وجہ سے چڑ چڑایا اور اس کا حق ہے کہ وہ چڑچڑائے۔ کیونکہ آسمان میں چار انگلیوں کی جگہ بھی نہ ہوگی جہاں ایک فرشتہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا کی قسم اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور روتے ہی رہتے۔ اور تم اپنے بستروں پر اپنی بیویوں سے لذت اندوز نہ ہوتے اور تم اونچے مقامات پر چڑھ کر ، اللہ کے سامنے روتے کہ اے اللہ ، کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ لیا جاتا “۔ (ترمذی)
آسمان جہاں چار انگلیوں کی جگہ پر بھی ایک فرشتہ سجدہ ریز ہوگا ، کس قدر وسیع ہے ؟ یہ ناقابل تصور وسیع فضا ہے۔ انسان نے ابھی تک اس کی حدود کو معلوم نہیں کیا ؟ اور اس میں ہمارے سورج جیسے کئی سورج اس طرح ہیں جس طرح ایک ذرہ فضا میں اڑ رہا ہے۔ تو کیا اس سے یہ بات انسانی تصور کے قریب ہوگئی کہ یوم الجمع یعنی قیامت کے دن کس قدر فرشتے جمع ہوں گے ؟
اس عظیم اجتماع میں تغابن ہوگا۔ یہ غبن سے باب مفاعلہ سے ہے۔ یہ ایک تصویر ہے کہ مومنین کس قدر کامیاب ہوں گے اور کافرین کس قدر محوم ہوں گے۔ یہ جہنم میں جاکر ہر چیز سے محروم ہوجائیں گے اور مومنین جنت میں جاکر سب کچھ پالیں گے۔ دونوں کا نصیب بہت ہی مختلف ہے۔ یوں کہ گویا کامیابی کا ایک مقابلہ منعقد ہے اور ایک طرف ہر قسم کی کامیابی ہے اور دوسری طرف ہر قسم کی ناکامی ہے اہر ہر فریق اپنے مقابل کو غبن کررہا ہے۔ اس مقابلے میں مومن کامیاب ہوئے اور انہوں نے سب کچھ جیت لیا کافر ہار گئے اور سب کچھ ہار گئے۔ اس معنی میں یہ یوم التغابن ہے اور اس کی تفسیر یہ آیات کررہی ہیں :
ومن یومن ............................ المصیر (01) (46 : 9۔ 01) ” جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے ، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے۔ وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گی اور وہ بدترین ٹھکانا ہے “۔
اس سے قبل کہ ان کا ایمان کو طرف بلایاجائے۔ ایمان کا ایک بنیادی قاعدہ یہاں متعین کردیا جاتا ہے یعنی ایمان باللہ اور لابرسالت کے بعد۔