سورہ نازیہ (79): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Naazi'aat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النازعات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نازیہ کے بارے میں معلومات

Surah An-Naazi'aat
سُورَةُ النَّازِعَاتِ
صفحہ 583 (آیات 1 سے 15 تک)

سورہ نازیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نازیہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے اُن (فرشتوں کی) جو ڈوب کر کھینچتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalnnaziAAati gharqan

ان کلمات کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں ، یعنی وہ جو انسانوں کی ارواح کو نہایت شدت سے کھینچتے ہے۔ ناشطات کے معنی ہیں چست اور کام کے لئے تیار ہیں۔ اور اس کائنات کے اطراف واکناف میں تیرتے پھرتے ہیں۔ اور جو رب تعالیٰ کی اطاعت اور احکام کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں اور اس کائنات کے تمام امور کے انتظام اور انصرام میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ان سے مراد ستارے ہیں جو اپنے مداروں اور کائنات کی فضاﺅں میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر نکلتے ہیں۔ بڑی تیزی سے گردش کرتے ہیں۔ ایک منزل سے دوسری میں داخل ہوتے ہیں۔ اس فضائے کائنات میں وہ معلق ہیں۔ اور رفتار میں بعض تیز ہیں اور بعض سست۔ لہٰذا ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں اور دست قدرت نے ازروئے فطرت ان کو جو احکامات دیئے ہیں وہ سر انجام دیتے ہیں ، اور زمین اور اس کے باشندوں کو متاثر کرتے ہیں ، یوں وہ اس زمین کا انتظام وانصرام کرتے ہیں۔

بعض تفاسیر کے مطابق نازعات ، ناشطات ، سابحات اور سابقات سے مراد ستارے ہیں اور مدبرات فرشتے ہیں اور بعض حضرات نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ نازعات ، ناشطات اور سابحات سے مراد ستارے ہیں اور سابقات اور مدبرات سے مراد ملائکہ ہیں۔

ان آیات وکلمات کا مفہوم جو بھی ہو ، لیکن قرآنی فضا میں زندگی بسر کرتے ہوئے میرا احساس یہ ہے کہ اس پیرائے میں گفتگو اور ان الفاظ کے لانے سے مراد انسانی احساس کو بیدار کرنا ، انسانی شعور کے اندر تجسس اور آنے والے پرخطر اور ہنگامہ خیز حالات کے بارے میں خبردار اور بیدار کرنا ہے۔ یہ الفاظ اور یہ مفہوم ہمیں اس بات کے لئے تیار کرتے ہیں کہ آگے جو بات آرہی ہے وہ ایک عظیم واقعہ ہے ، جسے الطامتہ الکبریٰ راجفہ اور رادفہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان الفاظ کے تفصیلی معانی میں نہ الجھیں کہ ان سے حقیقی مراد کیا ہے ؟ تو اس طرح ہم قرآن کریم کے فطری انداز پر اکتفا کرکے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا حقیقی ہدیف یہ ہے کہ وہ دلوں کو ہلائے اور گرمائے اور اس مقصد کے لئے قرآن کریم موثر سے موثر اسلوب اختیار کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ حضرت عمر ؓ کا انداز مطالعہ بھی ہے۔ آس سورة عبس وتولیٰ پڑھ رہے تھے جب

وفاکھة وابا (31:80) ” تک پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ ” فاکھہ “ تو ہمیں معلوم ہے لیکن “ ابا “ کیا ہے۔ اور اس کے بعد کہا ، اے عمر تیری جان کی قسم ، یہ محض تکلف ہوگا۔ اگر تم اللہ کی کتاب کے مفہوم میں سے کسی بات کو نہ سمجھو تو کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اور ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ہم جانتے ہیں۔ اگر ہم ” اب “ کا مفہوم نہ جانیں تو کیا ہے ؟ اس کے بعد انہوں نے اس عصا کو توڑ دیا جو ان کے ہاتھ میں تھا ، اور ھپر کہا عمر یہ تو محض تکلف ہے عمر کی ماں کے بیٹے کیا ہوجائے گا اگر تو ” اب “ کے مفہوم کو نہ جانے۔ ” لوگو ! قرآن میں سے جو تم جانتے ہو ، اس پر عمل کرو اور جو نہیں جانتے اسے چھوڑ دو “۔ یہ ایسی بات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قرآن کریم کے سامنے کس قدر سہمے رہتے تھے اور کس قدر احترام کرتے تھے۔ جس طرح ایک بندہ اپنے مالک کے احکام کا احترام کرتا ہے اور فوراً تعملیل کرتا ہے۔ قرآن کریم کے کچھ کلمات اگر منعلق اور غامض ہوں تو بھی ان کا ایک مقصد ہوتا ہے۔

مطلع میں جن باتوں پر قسم اٹھائی گئی ہے اس کا جواب درج ذیل آیات ہے یعنی جو اب قسم کی ان الفاظ میں تصویر کشی کی گئی ہے۔

اردو ترجمہ

اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnashitati nashtan

اردو ترجمہ

اور (اُن فرشتوں کی جو کائنات میں) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssabihati sabhan

اردو ترجمہ

پھر (حکم بجا لانے میں) سبقت کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalssabiqati sabqan

اردو ترجمہ

پھر (احکام الٰہی کے مطابق) معاملات کا انتظام چلاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalmudabbirati amran

اردو ترجمہ

جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma tarjufu alrrajifatu

پہلے جھٹکے سے مراد زمین پر طاری ہونے والا جھٹکا ہے کیونکہ دوسری جگہ رجف کی نسبت صراحتہ زمین کی طرف کی گئی ہے۔

یوم ترجف .................... والجبال ” جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے “۔ رادفہ سے مراد ، مطابق روایات آسمان کا لرزنا ہے۔ یعنی زمین کے لرزاٹھنے کے بعد آسمان بھی لرز اٹھے گا۔ یہ پھٹ جائے گا ، اور اس کے ستارے بکھر جائیں گے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ راجفہ سے مراد پہلا صور ہے۔ پہلا صور جب سخت آواز نکالے گا تو زمین اور پہاڑ لرزاٹھیں گے ، زمین کے اوپر درندے چرندے انسان سب لرز اٹھیں گے اور اس کے بعد زمین و آسمان کی تمام مخلوق بےہوش ہوجائے گی۔ اور رادفہ سے مراد دوسرا صور ہے ، جس کے نتیجے میں تمام مخلوق زندہ ہوکر زمین سے اگ پڑے گی اور میدان حشر برپا ہوجائے گا جس طرح سورة زمر آیت 68 میں آیا ہے۔

بہرحال جو مفہوم بھی ہو ، انسانی شعور کے پردہ پر ایک زلزلہ برپا ہوتا ہے اور انسان پر اس تصویر کشی سے ایک خوف اور اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔ اور مارے خوف کے انسان تھر تھر کانپنے لگتا ہے۔ یوں انسانی شعور اس دن کے خوف وہراس کو سمجھنے کے قریب ہوجاتا ہے کہ اس دن اس قدر خوف اور اضطراب ہوگا کہ مضبوط سے مضبوط شخص کے قدم اکھڑ جائیں گے اور وہ بےقرار ہوجائے گا۔ انسان اس بات کو پالیتا ہے کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہے۔

قلوب ................ خاشعة (9:79) ” کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے ، نگاہیں ان کی سہمی ہوئی ہوں گی “۔ کیونکہ یہ دل شدید اضطراب میں مبتلا ہوں گے ، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ خوف ، دہشت اور ٹوٹ پھوٹ کے آثار ان پر نمایاں ہوں گے۔ زلزلہ ہوگا اور تباہی کا سماں ہر طرف نمایاں ہوگا۔ اور ایسا ہی ٹوٹ پھوٹ اس دن زمین اور آسمان کے نظام میں ہوگا۔

یوم .................................... الرادفة (7:79) اور یہی سماں اور یہی منظر ان الفاظ کلمات سے بھی ظاہر ہوتا ہے جن کے ساتھ قسم کھائی گئی۔

والنزعت ............................ امرا (1:79 تا 5) ” یہ تمام مناظر (دل کی دنیا کے ، اس زمین و آسمان کے اور ان قسمیہ کلمات کے) سب کی فضا ، اور اثرات ہم رنگ اور ہم آہنگ ہیں۔ غرض یہ پوری سورست ایک ہنگامہ عظیم کے انداز میں ہے۔

اب اس منظر کے بارے میں خود ان کے تاثرات یہاں نقل کیے جاتے ہیں کہ جب دوسرا صور پھونکے جانے کے بعد یہ ناگہاں اٹھیں گے اور سخت حیراں ہوجائیں گے۔

اردو ترجمہ

اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

TatbaAAuha alrradifatu

اردو ترجمہ

کچھ دل ہوں گے جو اُس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Quloobun yawmaithin wajifatun

اردو ترجمہ

نگاہیں اُن کی سہمی ہوئی ہوں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Absaruha khashiAAatun

اردو ترجمہ

یہ لوگ کہتے ہیں "کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaqooloona ainna lamardoodoona fee alhafirati

یقولون ............................ نخرة (11:79 ) ” یہ لوگ کہیں گے ” کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے گئے ہیں ؟ جب کہ ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے تھے ؟ “۔ یہ گفتگو وہ اس وقت کررہے ہوگے ، جب پہلے پہل حشر کے میدان میں اٹھیں گے۔ کہا جاتا ہے۔

رجع فی حافرنہ ” یعنی اس راستے سے گیا جس سے آیا تھا “۔ یہ گفتگو وہ مدہوسی اور حیرانی میں کریں گے کہ آیا وہ دوبارہ اسی زندگی میں آگئے ہیں۔ وہ حیران ہوں گے کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہونے کے باوجود کس طرح اندہ انسان بن گئے۔

نخرة (11:79) ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو اندر سے خالی ہوگئی ہوں اور ان کے اندر جب ہوا چلتی ہے تو سرسر کی آواز آرہی ہو۔ لیکن جب وہ ذرا ہوش میں آئیں گے اور ان کے حواس بحال ہوں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ تو فی الواقعہ زندہ کردیئے گئے ہیں لیکن یہ تو اخروی زندگی ہے۔ اب ان کو اپنے خسارے اور نقصان کا اندازہ ہوجائے گا۔ اب ان کا تبصرہ یہ ہوگا۔

اردو ترجمہ

کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aitha kunna AAithaman nakhiratan

اردو ترجمہ

کہنے لگے "یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہوگی!"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo tilka ithan karratun khasiratun

قالوا .................... خاسرة (12:79) ” کہیں گے ” یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہے “۔ یہ ایک ایسی زندگی ہے جس کو انہوں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ اس کے لئے کوئی توشہ انہوں نے جمع کرکے نہ بھیجا اور اب تو کمائی کی جگہ نہیں ہے لہٰذا خسارہ ہی خسارہ ان کا مقدر ہے۔

ایسے حالات میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ قیام قیامت کا یہ ہنگامہ عظیم بسہولت برپا کردیا جائے گا اور اس کی حقیقت تو بس اتنی ہی ہے۔

اردو ترجمہ

حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fainnama hiya zajratun wahidatun

فانما ........................ الساھرة (14:79) ” حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی اور یکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں گے “۔ الزجر کے معنی ہیں تیز آواز۔ یعنی الصیحة۔ لیکن یہاں الصیحة کی بجائے الزجرة کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ یہ لفظ اس ورت کی فضا اور ماحول کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔ یہاں ماحول شدت اور سختی کا ہے۔ ساھرہ سفید اور چمکدار زمین کو کہتے ہیں۔ مراد میدان حشر ہے۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یہ میدان کہاں ہوگا۔ اس کے بارے میں ہماری معلومات مخبر صادق کی فراہم کردہ معلومات تک محدود ہیں۔ لہٰذا اس کے بارے میں ہم اس سے زیادہ کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتے کیونکہ مخبر صادق کے علاوہ کوئی بات وثوق اور محفوظ طریقے سے نہیں کہی جاسکتی۔

اس ڈانٹ سے مراد ، مطابق نصوص قرآن وسنت ، دوسرا نفح صور ہے ، جس کے ہوتے ہی تمام لوگ اپنی اپنی جگہ اور اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے ، جو الفاظ اس کے لئے چنے گئے ہیں ، ان سے اس عمل کی سرعت معلوم ہوتی ہے کہ یہ عمل نہایت تیزی سے ہوگا۔ اس پوری سورت کے بیان کردہ واقعات سرعت اور خوف کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی سرعت اور خوف کی وجہ سے دلوں پر کپکپی اور جسموں پر لرزہ طاری ہوگا۔ اس سورت کی ہر حرکت ، ہر لمحہ اور ہر منظر اور فضا میں ہم آہنگی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اب اگلے مرحلے میں تیزی ، حرکت اور خوف کی یہ فضا قدرے تھم جاتی ہے۔ کیونکہ اس میں قصہ موسیٰ وفرعون کی طرف مختصراً اشارات ہی۔ اس میں اس سرکشی کا انجام دکھایا گیا ہے ، اس لئے بیان میں قدرے سکون اور نرمی آجاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور یکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha hum bialssahirati

اردو ترجمہ

کیا تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ataka hadeethu moosa

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے۔ اور اس کی بہت تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس سے قبل کی سورتوں میں اس کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔ ہر جگہ اس قصے کا حصہ آیا ہے۔ مختلف انداز اور مختلف اسلوب بیان میں آیا ہے۔ ہر جگہ قصے کا وہ حصہ اور اس انداز میں آیا ہے ، جس کی ضرورت ہو اور جو موضوع ومحل کے مناسب ہو۔ اس قصے کے بیان میں قرآن کریم کا اسلوب بیان اپنے عروج پر ہوتا ہے اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے کہ وہ قصے کو نہایت برمحل اور مناسب انداز میں پیش کرتا ہے۔

یہاں یہ قصہ نہایت اختصار کے ساتھ آیا ہے ، اس کے مناظر جھلکیوں کی شکل میں بڑی تیزی سے گزرجاتے ہیں۔ کوہ طور کی وادی مقدس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا جاتا ہے۔ اور انہیں فرعون کی طرف تبلیغی مشن پر جانے کے احکامات دیئے جاتے ہیں اس کی سرکشی اور پھر دنیا وآخرت میں اس کے انجام بد اور اللہ کی گرفت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں اس کا انجام اس سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوجاتا ہے کیونکہ سورت کا بنیادی موضوع ہے حشرونشر اور حساب و کتاب ہے۔ چند مختصر آیات میں ، الف کے ساتھ طویل مد کے ترنم کے ساتھ اس قصے کی جھلکیاں بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتی ہیں۔ یوں اس کا انداز اور اس کا اثر اس سورت کے مزاج کے مطابق ہوجاتا ہے۔

ان مختصر آیات میں نہایت تیزی اور سرعت کے ساتھ اس قصے کے کئی پہلو دکھائے گئے ہیں۔

اس کا آغاز حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کرکے کیا جاتا ہے۔

ھل اتک ................ موسیٰ (15:79) ” کیا تمہیں موسیٰ کے قصے کی خبر پہنچی ہے ؟ “۔ یہ سوالیہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے تاکہ مخاطب پوری توجہ سے قصے کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوجائے اور پوری طرح اخذ کرلے۔

اس کے بعد پھر واقعات کی تفصیلات آتی ہیں۔ اس قصے کو لفظ حدیث (بات) سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ قصہ دراصل ہے ہی موسیٰ اور رب کا مکالمہ۔ اس لئے لفظ حدیث لانا نہایت واقعیت پسندی ہے۔ چناچہ سوال و جواب اور رب کے ساتھ مناجات۔

583