سورہ لقمان (31): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Luqman کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ لقمان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ لقمان کے بارے میں معلومات

Surah Luqman
سُورَةُ لُقۡمَانَ
صفحہ 411 (آیات 1 سے 11 تک)

الٓمٓ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْحَكِيمِ هُدًى وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُم بِٱلْءَاخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِىٓ أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَهُمْ جَنَّٰتُ ٱلنَّعِيمِ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ هَٰذَا خَلْقُ ٱللَّهِ فَأَرُونِى مَاذَا خَلَقَ ٱلَّذِينَ مِن دُونِهِۦ ۚ بَلِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ
411

سورہ لقمان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ لقمان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

الم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeem

درس نمبر 185 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 19

الم ۔۔۔۔۔۔ واولئک ھم المفلحون (1 – 5)

حروف مقطعات ا۔ ل۔ م سے آغاز ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد یہ فقرہ آتا ہے۔

تلک آیت الکتب الحکیم (31: 2) ” یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں “۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ کتاب الٰہی حروف سے مرکب ہے۔ جیسا کہ دوسری سورتوں میں بھی یہی اشارات موجود ہیں۔ کتاب کو کتاب حکمت کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس کا اصل موضوع ہی فلسلفہ و حکمت ہے لہٰذا یہاں اس کتاب کی اس صفت کو لایا گیا کیونکہ اس سورة کے مضامین کے ساتھ اس کی مناسبت ہے اور یہی قرآن کا انداز ہے۔ کتاب کو کتاب حکیم کہہ کر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ ایک زندہ کتاب ہے۔ اور یہ ارادتاً ایک ہدف کی بڑھ رہی ہے۔ گویا یہ ایک زندہ شخصیت ہے۔ بہت ہی دانشمند اور اس کی گفتگو میں ایک مقصد ہے۔ اس کا ایک متعیقن ہدف ہے ، اور یہ اس ہدف کی طرف بالارادہ بڑھ رہی ہے۔ اس میں روح ہے ، اس میں زندگی ہے۔ اس میں حرکت ہے ، اور اس کتاب کی ایک ذات اور شخصیت ہے جو متعین ہے۔ یہ محبت کرنے والی ہے اور یہ ہر اس شخص کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے جو اس کی صحبت میں بیٹھے۔ جو اس کے سایوں میں زندگی بسر کرے اور وہ اس کی اس کشش کو محسوس کرے جس طرح ایک زندہ دوسرے زندہ کی طرف رکھتا ہے اور جس طرح دوست دوست کی طرف کھینچتا ہے۔

یہ ہے کتاب حکیم ۔ اور اس کی آیات ہدایت اور رحمت ہیں محسنین کے لیے۔ یہ اس کی اصل ماہیت ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور یہ محسنین کے لئے ہمیشہ ہدایت رہتی ہے۔ یہ ان کو ایک متعین منزل مقصود تک پہنچاتی ہے جس طرح ایک زندہ شخص کسی کو راہ دکھاتا ہے مگر کرخت طریقے سے نہیں بالکل الفت اور محبت کے ساتھ نہایت آرام اطمینان کے ساتھ اور اس کی ہدایت یہ ہے کہ پہلے نماز قائم کرو اور اپنے رب سے رابطہ قائم کرو اور پھر زکوٰۃ ادا کرو ، اہل ایمان کے دل اس کے ذریعے بالم جوڑ کر رکھ دو اور پھر تمام اہل ایمان اللہ کی اس کائنات کے لیے ہمکلام اور مربوط ہوجائیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ یہ کتاب وہ اقدار اور وہ حالات پیدا کرتی ہے جس میں تمام انسانوں کا مقام متعین ہو اور وہ اپنی اصل پہچان جان سکیں۔ اس کتاب کے ہدایت یافتہ لوگ اس فطرت سے بھی متعارف ہوں جس فطرت پر انہیں پیدا کیا گیا ہے اور سیدھے ہوں اور ان کے اندر کوئی زیغ اور ٹیڑھ نہ ہو۔

یہ کتاب جن محسنین کے لیے ہدایت ہے وہ کون ہیں ؟

الذین یقیمون ۔۔۔۔۔ ھم یوقنون (31: 4) ” جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں “۔ جب کوئی نماز قائم کرتا ہے ۔ اس کے پورے ارکان کے ساتھ اسے ادا کرتا ہے ، بروقت ادا کرتا ہے اور مکمل طور پر ادا کرتا ہے تو اس کی حکمت ، اس کا اثر انسانی شعور اور انسانی طرز عمل میں واضح ہو کر سامنے آتا ہے ، اور اس کے ذریعہ اللہ اور بندے کے درمیان وہ تعلق قائم ہوجاتا ہے ، جو مطلوب ہے۔ اللہ سے انس پیدا ہوتا ہے اور نماز کے اندر مٹھاس پیدا ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر جو فطری بخل ہے ، اس پر انسان قابو پالیتا ہے۔ وہ امت مسلمہ کے لیے ایک اجتماعی نظام کی بنیاد ہوتی ہے اور امت کے اندر اجتماعی کفالت کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس سوسائٹی میں امیروں اور غریبوں دونوں کے اندر ارتماد ہوتا ہے۔ اطمینان ہوتا ہے اور باہم مودت اور محبت ہوتی ہے۔ اس کے اندر طبقاتی نفرت نہیں ہوتی اور آخرت پر ایمان تو تمام نیکیوں کی اساس ہے۔ اس سے قلب بشری ہر وقت بیدار رہتا ہے۔ اس کی نظریں عالم آخرت پر ہوتی ہیں اور زمین کی گندگیوں اور زمین کے عارضی سازوسامان کے مقابلے میں اس کی نظریں بلند ہوتی ہیں۔ خفیہ طور پر اور اعلانیہ طور پر انسان یہ دیکھتا ہے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے اور انسان درجہ احسان تک پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا ” احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو کہ اسے تم دیکھ رہے ہو ، اگر تم اسے نہ دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے “۔ (بخاری و مسلم ، کتاب الایمان)

یہ لوگ جو ایسی نماز پڑھتے ہیں ، جو اس نیت سے زکوۃ دیتے ہیں۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

اولئک علی ۔۔۔۔۔ ھم المفلحون (31: 5) ” یہی لوگ رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں “۔ جس نے ہدایت پائی۔ اس نے فلاح پائی۔ وہ ایک روشنی پر چل رہا ہوتا ہے۔ منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے ۔ گمراہیوں سے اور فساد سے بچ جاتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس کرہ ارض پر اپنے اس سفر پر وہ مطمئن ہوتا ہے ، پھرتا رہتا ہے۔ وہ اس کائنات کے ساتھ ہم سفر ہوتا ہے اور اس کائنات کے ایک جزء کے طور پر اس کے ساتھ ہم آہنگی سے سفر طے کرتا جاتا ہے ، نہایت انس و محبت کے ساتھ۔ ایسے ہی لوگ اس کتاب کی آیات سے راہنمائی پاتے ہیں۔ محسن ، غازی ، زکوٰۃ دینے والے ، آخرت کا یقین رکھنے والے۔ یہ لوگ دنیا اور آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔ یہ لوگ ایک فریق ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک فریق اور بھی ہے۔ کیا ہیں اس کے خدوخال ؟

اردو ترجمہ

یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ayatu alkitabi alhakeemi

اردو ترجمہ

ہدایت اور رحمت نیکو کار لوگوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hudan warahmatan lilmuhsineena

اردو ترجمہ

جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yuqeemoona alssalata wayutoona alzzakata wahum bialakhirati hum yooqinoona

اردو ترجمہ

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika AAala hudan min rabbihim waolaika humu almuflihoona

اردو ترجمہ

اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yashtaree lahwa alhadeethi liyudilla AAan sabeeli Allahi bighayri AAilmin wayattakhithaha huzuwan olaika lahum AAathabun muheenun

ومن الناس من یشتری ۔۔۔۔۔ فبشرہ بعذاب الیم (6 – 7)

لہو حدیث سے مراد تفریحی اور دلچسپ کلام ہے جس کسی محض وقت گزارنا مطلوب ہو۔ اس کلام سے کوئی اچھا اور مفید نتیجہ نہ نکلتا ہے اور نہ اس میں کوئی ایسی تعمیری بات ہو ، جو انسان کے منصب خلافت سے متعلق ہو۔ جو انسان کی ذہنی ، اخلاقی اور معاشی اور دینی اور اخروی کسی غرض سے وابستہ نہ ہو۔ اسلام انسان کے لیے اس دنیا میں کچھ فرائض متعین کرتا ہے۔ ان فرائض کے حدود ، وسائل اور طریقہ کار بھی متعین کرتا ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ یہ انسانوں کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے جو ہر زمان و مکان میں بالعموم پایا جاتا ہے۔ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ اسلام کی پہلی جماعت کے دور میں ایک متعین واقعہ بھی ہوا تھا ، اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ مکہ کا ایک ادیب نضر ابن الحارث ایران سے ایسی کتابیں خرید کر لاتا تھا جن میں ایرانیوں اور ان کے بڑے لوگوں کے افسانے اور تاریخی واقعات ہوتے تھے اور ان کی جنگوں کے دلچسپ واقعات ہوتے تھے۔ یہ شخص مکہ کی گلیوں میں بیٹھ کر ان لوگوں کو روکتا جو قرآن سننے کے لیے جاتے تھے اور ان کو یہ افسانے سناتا۔ یہ شخص قصص القرآن کے مقابلے میں قصص ایران سناتا تھا۔ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ یہ آیت اس واقعہ میں وارد ہے تو بھی یہ آیت عام ہے۔ یہ لوگوں کی اس قسم کے خدوخال واضح طور پر بتاتی ہے۔ اس قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ عہد رسول اللہ ﷺ میں بھی موجود تھے جس دور میں مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

ومن الناس من یشتری لھو الحدیث (31: 6) ” انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے “۔ یعنی اس کام میں اپنا مال اور اپنا وقت خرچ کرتا ہے اور اپنی زندگی اس میں کھپاتا ہے۔ اس قدر قیمتی چیزیں وہ اس قدر بےوقعت اور بےقیمت چیزوں میں خرچ کرتا ہے۔ اپنی محدود اور قیمتی عمر اس میں کھپاتا ہے۔ یہ عمر جو نہ واپس آتی ہے اور نہ واپس لائی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے۔

لیضل عن ۔۔۔۔ ھزوا (31: 6) ” تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے “۔ ایسا شخص جاہل ہے اور اسکی نظروں سے حقیقت اوجھل ہے۔ وہ کوئی بات علم و یقین کی بنیاد پر نہیں کرتا۔ نہ وہ حکمت کی بنیاد پر کوئی کام کرتا ہے۔ اسکی نیت بھی خراب ہے اور اس کی غرض بھی فاسد ہے۔ وہ لوگوں کو بدراہ کرنا چاہتا ہے۔ خود اپنے آپ کو بھی گمراہ کرتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس میں فضول ضائع کرتا ہے پھر وہ اس قدر گستاخ ہے کہ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتا ہے اور اس اسلامی نظام کے ساتھ مذاق کرتا ہے جو اللہ نے وضع کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کی زندگی کا دستور قانون ہو۔ چناچہ قرآن مجید ایسے لوگوں کی تصویر کشی سے بھی قبل ان کو اہانت آمیز عذاب کی دھمکی دیتا ہے۔

اولئک لھم عذاب مھین (31: 6) ” ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ان کیلئے توہین آمیز عذاب ہوگا ، اس لیے کہ انہوں نے یہاں دعوت اسلامی کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ لوگ اسلامی نظام زندگی کے ساتھ مزاح کرتے تھے۔ اب اس دھمکی کے بعد اس گروہ کے خدوخال قلم بند کیے جاتے ہیں۔

واذا تتلی علیہ ۔۔۔۔۔ یسمعھا (31: 7) ” اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں “۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کے اندر اس متکبر شخص کی ہیئت کذائی کو اچھی طرح قلم بند کردیا گیا ہے۔ وہ نہایت غرور سے منہ موڑ کر گزر جاتا ہے ، سنی ان سنی کردیتا ہے۔ چناچہ اگلا رنگ اس تصویر میں نہایت حقارت آمیزی سے بھرا جاتا ہے۔

کان فی اذنیہ وقرا (31: 7) ” گویا اس کے کان بہرے ہیں “۔ گویا اس کے کانوں کا یہ بھاری پن اللہ کی آیات کو اس کے کانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ ورنہ ان آیات کو کوئی انسان بھی اگر سنے تو وہ ان کے ساتھ یہ مذموم برتاؤ نہیں کرسکتا۔ یہ رنگ پھر مزید اہانت آمیز کردیا جایا ہے۔

فبشرہ بعذاب الیم (31: 7) ” مژدہ سنا دو اسے دردناک عذاب کا “۔ یہ موقع کسی بشارت کا موقع نہیں ہے لیکن یہاں ان کی توہین مطلوب ہے اور ایسے متکبرین مسخروں کے لئے یہی انداز مناسب ہے۔

اعراض کرنے والوں ، تکبر کرنے والوں اور کفر کرنے والوں کی اس اہانت آمیز سزا کی مناسب سے یہاں ضروری ہے کہ اچھے عمل کرنے والے اہل ایمان کے انعام اور جزا کا بھی ذکر دیا جائے۔ اس سورة کے آغاز میں ان کا ذکر ہوچکا ہے اور ان کی کامیابی کا ذکر کردیا گیا ہے۔ اگرچہ وہاں اجمالی تھا۔

اردو ترجمہ

اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں اچھا، مژدہ سُنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha tutla AAalayhi ayatuna walla mustakbiran kaan lam yasmaAAha kaanna fee othunayhi waqran fabashshirhu biAAathabin aleemin

اردو ترجمہ

البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، اُن کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lahum jannatu alnnaAAeemi

قرآن کریم میں جہاں جہاں اہل ایمان کی جزاء کا ذکر ہے وہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ضرور کیا گیا ہے اس لیے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج یہ نہیں ہے کہ ایمان محض منجمد ، پوشیدہ ، معطل اور مجرد تصور ہی ہو بلکہ ایمان کو ایک زندہ ، فعال اور متحرک حقیقت ہونا چاہئے۔ جب وہ دل میں پیدا ہو ، قرار پکڑے پورا ہو ، تو متحرک ہو کر عملی شکل اختیار کرے۔ وہ حرکت اور طرز عمل کی شکل اختیار کرے اور عالم واقعہ میں اس کے آثار اپنی ترجمانی کریں۔ اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس مومن کے دل میں کیا ہے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو عملی شکل دی۔

لھم جنت النعیم (31: 8) ” ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ باغات اور یہ دوام

اللہ کے عہد کے مطابق ان کو دیا جا رہا ہے۔

وعد اللہ حقا (31: 9) ” یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے “۔ اللہ کی مہربانی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ اس نے اپنے اوپر اپنے بندوں کے ساتھ احسان کرنا فرض کرلیا۔ یہ ان کی نیکی اور ان کے نیک اعمال کے بدلے میں حالانکہ اللہ تو غنی ہے۔ اسے کسی کے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

وھو العزیز الحکیم (31: 9) ” وہ تو زبردست و حکیم ہے “۔ وہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مخلوقات کو اس نے بڑی حکمت سے بنایا ہے۔ وعدہ بھی حکمت سے کرتا ہے اور پورا بھی حکمت سے کرتا ہے۔

اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اللہ عزیر و حکیم ہے اور اس سے قبل جو کچھ کہا اس کا ثبوت کیا ہے ؟ یہ عظیم کائنات جس کی تخلیق کا دعویٰ کوئی انسان اور کوئی قوت نہیں کرسکتی ماسوائے اللہ کے۔ یہ کائنات بہت ہی عظیم ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس کا نظام نہایت مستحکم اور دقیق ہے۔ اس کی ساخت نہایت ہی متوازن ہے۔ جوں جوں اس کائنات کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں اور انسان غور کرتا جاتا ہے ، عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کا تصور بھی رک جاتا ہے اور یہ عظیم کائنات ایک ایسی دلیل اور ایک ایسی شہادت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ جو بھی ذرا غور کرے ، ذات باری کے تسلیم کرنے کے سوا اس کے لیے چارہ کار ہی نہیں ہے اور جو لوگ پھر بھی اللہ وحدہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ ھق کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalideena feeha waAAda Allahi haqqan wahuwa alAAazeezu alhakeemu

اردو ترجمہ

اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alssamawati bighayri AAamadin tarawnaha waalqa fee alardi rawasiya an tameeda bikum wabaththa feeha min kulli dabbatin waanzalna mina alssamai maan faanbatna feeha min kulli zawjin kareemin

خلق السموت بغیر ۔۔۔۔۔۔۔ فی ضلل مبین (10 – 11)

یہ آسمان ، بغیر اس کے کہ ان کے بارے میں ہم جدید پیچیدہ سائنسی معلومات پیش کریں ، اپنی ظاہری حالت میں جب ہمارے حواس کے سامنے آتے ہیں تو یہ بہت ہی عظیم لگتے ہیں۔ یہ آسمان ستارے اور سیارے ہوں ، یا کہکشاں اور سدم ہوں۔ جو بلندیوں میں تیر رہے ہیں اور ان کے ھقیقی راز سے صرف اللہ ہی واقف ہے یا آسمان سے مراد یہ قبہ ہو جسے ہم دیکھتے ہیں اور جس کی حقیقت سے اللہ ہی خبردار ہے۔ غرض آسمان سے مراد جو بھی ہو ، بہرحال یہ عظیم کر ات بغیر سہارے اور ستونوں کے کھڑے ہیں۔ انسان رات اور دن ان سماوات کو دیکھتے ہیں اور جس چھوٹے سے ستارے پر انسان سوار ہیں ، اس تک ہم جس قدر دوریاں قریب کردیں اس عالم کا محض تصور ہی سر کو چکرا دیتا ہے کہ یہ عالم کس قدر عظیم اور ہولناک ہے جس کے حدود وقیود انسان کے ادراک سے ابھی تک باہر ہیں۔ پھر جب ایک انسان سوچتا ہے کہ اس عظیم کائنات کو ایک منظم نظام میں باندھ دیا گیا ہے کہ اس کی حرکت میں ایک سیکنڈ کا فرق بھی نہیں آتا۔ پھر اس عالم کو کس قدر خوبصورت بنایا گیا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔ دل سوچتا ہی رہے اور نہ تھکے۔ نظریں بھرتی ہی رہیں اور اس کے نظارے سے ملوک نہ ہوں اور جب اسنان یہ سوچے کہ اس گول آسمان میں جو چھوٹے چھوٹے نکتے نظر آتے ہیں ان میں سے ایک ایک ستارہ زمین سے ہزاروں گنا ہڑا ہے (مثلاً مشتری ایک ہزار گنا) لاکھوں گنا بڑا ہے تو کسی بھی عقلمند انسان کے لئے یہی کافی دلیل ہے۔ فضائے کائنات کے اس لا انتہا سفر سے واپس آئیے ، یہ تو قرآن نے ایک سرسری اشارہ ہی کیا ہے۔

خلق السموت بغیر عمد ترونھا (31: 10) ” اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جو تم کو نظر آئیں “۔ اب اسی زمین کی طرف ، اور ذرا جم کر دیر تک اس کے نظاروں کو غور سے دیکھئے۔ یہ چھوٹی سی زمین ، کائنات کا ایک ذرہ ، اس عظیم کائنات میں تو یہ ایک ذرہ ہی ہے جو فضا میں اڑ رہا ہے۔ ہم اس پر واپس آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زمین بہت وسیع اور طویل و عریض ہے۔ انسان اپنی مختصر زندگی میں اس کی سیر بھی نہیں کرسکتا۔ اگرچہ وہ پوری عمر اس چھوٹے سے ڈرے کے سیروسفر میں گزار دے۔ انسان کو کہا جاتا ہے کہ ذرا اسی کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کرو ، اور طویل الضت اور بار بار دیکھنے کی وجہ سے انسان سے اس کا انوکھا پن گم ہوگیا ہے۔ ذرا اس کے عجائبات کو دیکھو۔

والقی فی ۔۔۔۔ تمید بکم (31: 10) ” اور اس نے زمین میں پہاڑ جما دئیے کہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ رواسی معنی پہاڑ۔ علمائے طبقات الارض یہ کہتے ہیں کہ پہاڑ دراصل زمین کے چھلکے کی شکئیں ہیں۔ جب زمین کا چھلکا سرد ہوگیا اور اس کے اندر کی گیس سکڑ گئیں تو زمین کا حجم کم ہوتا گیا جس کی وجہ سے زمین کے چھلکے کے اندر شکنیں پیدا ہوگئیں اور اس طرح زمین کے اوپر بلندیاں اور پستیاں اور نشیب و فراز پیدا ہوگئے۔ جس قدر جہاں زیادہ سکیڑ کا عمل ہوا اسی قدر پہاڑ بلند ہوگئے۔ اب چاہے علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو یا غلط ہو ، لیکن اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے۔ اللہ نے پہاڑ جما دئیے تاکہ زمین کی رفتار کے اندر توازن ہو اور انسان اس کی سطح پر رک سکے اور اس کے اندر ڈولنے کا عمل نہ ہو۔ علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو سکتا ہے اور وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین کی رفتار محوری کے اندر وہ توازن نہ ہوتا جو ہے اور اللہ کا حکم ہر حالت میں بلند ہے اور رہے گا کیونکہ اللہ تمام متکلمین میں سے سچا اور صادق ہے۔ صدق اللہ العظیم۔

وبث فیھا من کل دآبۃ (31: 10) ” اور اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دئیے “۔ اس عظیم کائنات کے عجائبات میں سے یہ ایک حیرت انگیز عجوبہ ہے کہ اس زمین کے اوپر اللہ نے رنگا رنگ زندگی کو پھیلایا ہے۔ آج تک کوئی شخص راز حیات ہی کو نہیں پاسکا اس کی یہ بو قلمونی اور رنگا رنگی تو بڑی چیز ہے۔ انسان اس حیات کی سادہ ترین صورت کو بھی نہیں پاسکا چہ جائیکہ وہ زندگی کی اعلیٰ اقسام ، اس کی رنگارنگی اور مختلف ضخامتیں ، اور خوبصورت جانور اور پرندوں کو جان سکے جن کی تعداد کا بھی انسان کو علم نہیں ہے۔ بےحد افسوس ہے کہ بعض لوگ علم کے باوجود ان عجائبات پر آنکھیں بند کرکے گزر جاتے ہیں گویا وہ ایک بالکل معمولی چیز دیکھ رہے ہیں۔ یہی انسان جب انسان کی بنائی ہوئی ایک چھوٹی سی مشین کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے اور بار بار الٹ پلٹ کر اسے دیکھتا چلا جاتا ہے حالانکہ یہ مشین اللہ کے پیدا کردہ ایک سادہ خلیے سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہوسکتی اور ان خلیوں کے جو دقیق اور پیچیدہ تصرفات ہیں ، وہ سب اعجوبے ہیں۔ ہم صرف سادہ خلیے کے عجائبات کی بات کرتے ہیں۔ رہے وہ پیچیدہ تخلیق والے بڑے انسان جن کے جسم میں سینکڑوں کیمیاوی تجربہ گاہیں اور لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں جن کے اندر سینکڑوں سٹورز ہیں جہاں مواد جمع ہوتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں اور جن کے اندر ایک عجیب مواصلاتی نظام ہے جو لاسلکی کے طور پر پیغامات لیتا ہے اور ارسال کرتا ہے اور سینکڑوں دوسرے عوامل ہزار ہا فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

وانزلنا من ۔۔۔۔۔ زوج کریم (31: 10) ” اور آسمانوں سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں “۔ آسمانوں سے پانی برسایا عجائبات تکوینی میں سے ایک اعجوبہ ہے لیکن چونکہ یہ اکثر ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے اس لیے ہم اس پر سے غفلت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یہ پانی جس سے نہریں ہوکر بہتی ہیں جس سے بحیرے بھر جاتے ہیں جس کے ساتھ زمین میں چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ پانی ایک نہایت ہی پیچیدہ نظام کے تحت آسمانوں سے برستا ہے۔ یہ آسمانوں کے نظام کے ساتھ مربوط ہے۔ اس کا مزاج ، اس کی تشکیل اور کر ات کی دوریوں سے یہ مربوط ہے۔ پھر پانی کے نزول کے بعد زمین کے اندر مختلف النوع اور مختلف اور مختلف الشکل نباتات ، ذائقے مختلف ، رنگ مختلف ، حجم مختلف ، خواص مختلف۔ ان کے اندر ایسے ایسے عجائبات کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے نباتات میں زندگی اور نمو ان کا تنوع ، ان کی وراثتی خصوصیات جو چھوٹے سے بیج کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا بیج اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ پودا ، پھول اور درخت کی شکل اختیار کرت ا ہے۔ ایک ہی پھول کے اندر رنگوں کی تقسیم کا مطالعہ ہی انسان کو خالق کائنات کی عظیم قوتوں کی طرف کھینچ لیتا ہے اور انسان کا ایمان گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔

پھر قرآن تصریح کرتا ہے کہ اللہ نے نباتات میں بھی بوڑے پیدا کیے۔

من کل زوج کریم (31: 10) ” عمدہ قسم کے جوڑے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے کہ سائنس کو بہت ہی قریب زمانے میں اس کا علم اور تجربہ ہوسکا ہے۔ ہر پورے میں نر اور مادہ خلیے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے ایک ہی پھول میں یا ایک ہی شاخ کے دو پھولوں میں ہوتے ہیں یا یہ خلیے دو درختوں میں علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کوئی پودا اس وقت پھل نہیں دیتا جب تک نر اور مادی خلیے باہم ملتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ انسانوں اور حیوانوں کے توالد کا نظام واضح ہے۔ اور زوج کے ساتھ کریم کی صفت ، یہاں اس لفظ کے استعمال کے ذریعے ایک خاص تاثر دینا مطلوب ہے کہ یہ اللہ کریم کی تخلیق ہے اور یہ بہت ہی اہم اعجوبہ ہے جسے دیدہ عبرت سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ اس لیے بھی لایا گیا ہے کہ اللہ نے تو یہ عمدہ کام کیے ہیں اور جن ہستیوں کو تم الٰہ سمجھے ہوئے ، ذرا بتاؤ انہوں نے کیا کام کیے ہیں ۔ یہ تو ہے

ھذا خلق ۔۔۔۔۔۔ من دونہ (31: 11) ” یہ تو ہے اللہ کی تخلیق اب ذرا مجھے دکھاؤ ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے “۔ زوج کریم کے بعد یہ چیلنچ اور اب یہ نتیجہ

بل الظلمون فی ضلل مبین (31: 11) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں “۔ اور شرک سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ اس عظیم کائنات کا یہ معجزہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں پہلا سفر ختم ہوتا ہے اور نہایت ہی روداد الفاظ پر۔

اس کے بعد اب دوسرا راؤنڈ شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل جدید ترتیب سے ہے۔ یہ بالواسطہ ہدایت اور حکایتی انداز تلقین ہے۔ موضوع بحث اللہ وحدہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ اور اللہ کو ہر قسم کے شرک سے پاک قرار دینا ہے۔ اس حکایت کے درمیان آخرت اور اعمال اور ان کی جزا کی بات کی گئی ہے۔

اردو ترجمہ

یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha khalqu Allahi faaroonee matha khalaqa allatheena min doonihi bali alththalimoona fee dalalin mubeenin
411