سورہ الصافات (37): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ As-Saaffaat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصافات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الصافات کے بارے میں معلومات

Surah As-Saaffaat
سُورَةُ الصَّافَّاتِ
صفحہ 446 (آیات 1 سے 24 تک)

وَٱلصَّٰٓفَّٰتِ صَفًّا فَٱلزَّٰجِرَٰتِ زَجْرًا فَٱلتَّٰلِيَٰتِ ذِكْرًا إِنَّ إِلَٰهَكُمْ لَوَٰحِدٌ رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ ٱلْمَشَٰرِقِ إِنَّا زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِزِينَةٍ ٱلْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَٰنٍ مَّارِدٍ لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى ٱلْمَلَإِ ٱلْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ ٱلْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُۥ شِهَابٌ ثَاقِبٌ فَٱسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَآ ۚ إِنَّا خَلَقْنَٰهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍۭ بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ وَإِذَا ذُكِّرُوا۟ لَا يَذْكُرُونَ وَإِذَا رَأَوْا۟ ءَايَةً يَسْتَسْخِرُونَ وَقَالُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ أَءِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَٰمًا أَءِنَّا لَمَبْعُوثُونَ أَوَءَابَآؤُنَا ٱلْأَوَّلُونَ قُلْ نَعَمْ وَأَنتُمْ دَٰخِرُونَ فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَٰحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنظُرُونَ وَقَالُوا۟ يَٰوَيْلَنَا هَٰذَا يَوْمُ ٱلدِّينِ هَٰذَا يَوْمُ ٱلْفَصْلِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ ۞ ٱحْشُرُوا۟ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ وَأَزْوَٰجَهُمْ وَمَا كَانُوا۟ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَٱهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْجَحِيمِ وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْـُٔولُونَ
446

سورہ الصافات کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الصافات کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssaffati saffan

درس نمبر 208 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا۔۔۔ 68

والصفت صفا۔۔۔۔۔ ورب المشارق (1 – 5) ۔ ۔ ” ، ۔ “۔

قطاروں میں صف آرا ہونے والے ، زجر کرنے والے اور تلاوت کرنے والے دراصل وہ فرشتے ہیں جو ان اعمال کے حامل ہیں۔ صفیں باندھنے والے یعنی نمازوں میں یا اللہ سے احکام لینے کے انتظار میں صف بستہ مراد ہوں اور زجر و توبیخ سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ جن نافرمانوں کی روح قبض کرنا مقصود ہو تو وہ ڈانٹتے ہوئے لیتے ہیں ، یا وہ جو حشر میں ان کو ڈانٹ ڈپٹ سے جہنم کی طرف چلائیں گے۔ یا کسی بھی حال میں اللہ کی مرضی کے مطابق زجر کرنے والے۔ اور تلاوت و ذکر کرنے والوں سے مراد کتاب الٰہی پڑھنے والے اور اللہ کی تسبیحات کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ غرض ملائکہ کی ان خاص اقسام و انواع کی قسم کھانے کی غرض وغایت یہ ہے کہ لوگو ! جان لو کہ۔

ان الھکم لواحد (37: 4) ” تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی ہے ؛۔ اور ان فرشتوں کی اس حالت کی پھر قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ فرشتوں کے بارے میں عربوں کا مقصود بہت غلط تھا جیسا کہ ہم نے کہا کہ عرب فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور بعض عرب فرشتوں کو الہہ بھی اس لیے بناتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں لہٰذا ہماری دیویاں ہیں۔

اردو ترجمہ

پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalzzajirati zajran

اردو ترجمہ

پھر اُن کی قسم جو کلام نصیحت سنانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalttaliyati thikran

اردو ترجمہ

تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna ilahakum lawahidun

اردو ترجمہ

وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام اُن چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں، اور سارے مشرقوں کا مالک

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbu alssamawati waalardi wama baynahuma warabbu almashariqi

ضروری ہوا کہ فرشتوں کی حیثیت بتانے کے بعد اللہ خود اپنی تعریف بھی فرما دے :

رب السموت والارض وما بینھما ورب المشارق (38: 5) ” وہ جو زمینوں اور آسمانوں کا اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہیں اور سارے مشرقوں کا مالک ہے “۔ یہ زمین اور آسمان جو انسانوں کے اردگرد قائم ہیں وہ انسانوں کو بتاتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کا ایک خالق مدبر ہے۔ اس جہاں میں کوئی ذات اس کے سوا نہیں ہے جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی تخلیق اور تدبیر میں اس کا بھی حصہ ہے۔ کوئی عقلمند انسان اس اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا کہ اس جہاں کا خالق بےقید قدرتوں کا مالک ہے۔ اور وہ رب ہے اور وہی مالک ہے زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز کا۔ خواہ ہوائیں ہیں ، بادل ہیں ، روشنی ہے ، مخلوقات ہیں ، دیکھی جانے والی مخلوقات ہیں یا ایسی مخلوقات ہیں جو نظر نہیں اسکتیں اور آئے دن ان کے بارے میں انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ان کی اکثریت اب بھی نظروں سے اوجھل ہے۔

آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی مسافتیں اسی قدر وسیع ، اس قدر عظیم ہیں اور ان کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات اس قدر متنوع ، خوبصورت اور باہم ہم آہنگ ہیں کہ ایک زندہ دل انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور اس کائنات سے گہرے تاثر اور عبرت پکڑنے اور اس پر غور و فکر کے بغیر وہی شخص گزر سکتا ہے جس کا دل مر چکا ہو۔ اس لیے ایسے شخص پر پھر یہ خوشگوار تاثرات کوئی اثر نہیں کرتے اور اس کا دل و دماغ ان عجائبات کو دیکھ کر بھی جوش میں نہیں آتا۔

رب المشارق (37: 5) ” مشرقوں کا مالک “۔ ہر ستارے کے لیے ایک مشرق ہے اور ہر سیارے کا بھی ایک مشرق ہے۔ لہٰذا اس کائنات میں بیشمار مشارق ہیں۔ ان وسیع اجرام فلکی میں ان گنت مشارق ہیں۔ اس تعبیر میں اس زمین کی طرف بھی گہرا اشارہ ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔ زمین جب سورج کے سامنے حرکت محوری کا عمل کرتی ہے ، تو کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مشرق ہوتا ہے ۔ اسی طرح کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مغرب ہوتا رہتا ہے۔ اور یہ عمل پے در پے چلتا رہتا ہے۔ جونہی کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہ مشرق ہوتا ہے۔ اور اس کے بالمقابل حصہ مغرب ہوتا ہے۔ جوں جوں حرکت اور گردش ہوتی رہتی ہے ، مشرق بھی بدلتا رہتا ہے اور مغرب بھی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے نزول قرآن کے وقت لوگ بیخبر تھے۔ لیکن اللہ نے ان کو اس قدر قدیم زمانے میں خبر دے دی۔

یہ نہایت ہی گہرا نظام ہے ، جس کے مطابق اس زمین پر مشارق رواں دواں ہیں اور یہ خوبصورتی جو طلوع آفتاب کے وقت اس زمین پر بکھر جاتی ہے ، یہ اس قابل ہے کہ انسانی دل کو خوشگوار ، تاثر اور گہرے غور وفکر کے تاثرات سے بھر دیں۔ اور انسان چلا اٹھے کہ صانع کائنات کی کیا شان ہے اور انسان چلا اٹھے کہ بیشک اللہ وحدہ خالق کائنات ہے کہ اس عجیب صفت کے آثار اور اس کی مسافت اور طبیعت یہ بتاتی ہے کہ اس کا بنانے والا ایک ہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ کی صفت رب المشارق کو لایا گیا ہے۔ عنقریب ہم کواکب ، شہاب ثاقب ، شیاطین اور ان کے بھگائے جانے پر بحث کریں گے ، اس موقعہ پر رب المشارق کے کچھ اور مفہوم اور مناسبتیں بھی بیان کریں گے۔

اردو ترجمہ

ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna zayyanna alssamaa alddunya bizeenatin alkawakibi

ربنا زینا السمآء۔۔۔۔ الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب (6 –۔۔

سورت کے آغاز میں ملائکہ کے بارے میں عربوں کے غلط خیالات پر بحث کی گئی تھی ، یہاں شیاطین کے بارے میں ان کے غلط خیالات کو لیا جاتا ہے۔ عربوں کئ یہ خیالات تھے کہ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری ہے۔ بعض عرب محض اس خیال سے شیاطین کی پوجا کرتے تھے کہ شیاطین کو ملکوت السموات کی بعض غیوب کا علم ہوتا ہے۔ وہ ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہوتے ہیں اور یوں نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ زمین ، آسمان اور مشرقوں کے ذکر کے بعد ، چاہے ان سے مراد ستاروں کے مشرق ہوں ، زمین کے اوپر جاری مشرق ہوں ، یا دونوں مشرق ہوں یا ان سے مراد نور اور روشنی ہو ، بہرحال اب یہاں کواکب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الکواکب (37: 6) ” ہم نے آسمان دنیا کو تاروں سے آراستہ کیا ہے “۔ صرف ایک نظر ہی سے یہ زینت دکھائی دیتی ہے۔ چاندنی رات میں تارے اور کواکب کیا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کائنات میں جمال ایک اہم عنصر ہے۔ جس طرح اللہ کی تخلیق غوروفکر کے بعد انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح خوبصورت بھی معلوم ہوتی ہے۔ جمال اس کائنات کے نقشے میں کوئی عارضی رنگ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک حقیقی عنصر ہے۔ تخلیق کائنات میں دو چیزیں بنیادی مواد ہیں۔ ایک کمال درجے کا منصوبہ اور دوسرا نہایت ہی خوبصورت نقوش فطرت۔ یہ دونوں عنصر برابر اور مقصود بالذات ہیں۔ اور اس کائنات میں کمال و جمال دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔

چاندنی رات میں جب انسان تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا ہے تو وہ اس دنیا کے خوبصورت ترین منظر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ منظر اس قدر خوبصورت ہوتا ہے کہ انسان دیکھتا چلا جائے ، نظریں تھکتی نہیں اور دل ملول نہیں ہوتا۔ ہر ستارہ ضوبار ہوتا ہے اور چمکتا ہے۔ ہر سیارہ اپنا نور بکھیر رہا ہوتا ہے۔ انسان محسوس کر رہا ہے کہ یہ کائنات کی محبت بھری آنکھیں ہیں جو نظر چرا کے دیکھ رہی ہیں اور جب انسان ان پر نطر ڈالتا ہے تو یہ آنکھیں بند ہوجاتی ہیں ، چھپ جاتی ہیں اور جب آپ ان سے نظر ہٹاتے ہیں تو یہ آنکھیں پھر چمک اٹھتی ہیں اور اپنے منظور نطر کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ہر رات ان آنکھوں کا موقف مختلف ہوتا ہے اور منزل جدا ہوتی ہے یہ بھی انسان کے لیے ایک ذہبی اور نفسیاتی خوارک ہے اور اسے جس قدر بھی کوئی کھائے سیر نہیں ہوتا اور نہ ملول ہوتا ہے۔

اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ ان کواکب کا ایک دوسرا فریضہ بھی ہے ۔ ان میں سے بعض شہاب ثاقب ہوتے ہیں اور یہ ان شیاطین پر بمباری کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کے قریب جانے کی سعی کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahifthan min kulli shaytanin maridin

وحفظا من ۔۔۔۔ شھاب ثاقب (37: 7 – 10) اور ہر سرکش شیطان سے اس کو محفوظ کردیا ہے۔ یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے۔ ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے۔ تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے آرے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

بعض سیارے ایسے ہوتے ہیں جو عالم بالا کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ یہ عالم بالا میں جو فیصلے اس عالم کے بارے میں ہوتے ہیں ، شیاطین کو ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے روکتے رہیں۔ جب بھی کوئی شیطان عالم بالا سے کوئی راز چرانے کی سعی کرتا ہے تو شہاب ثاقب اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ اور ان کو مار کا ہانک دیتے ہیں۔ ایسے شیاطین متمردین کے لیے آخرت میں ایسا عذاب ہوگا جو کبھی ختم ہونے والا نہ ہوگا۔ بعض اوقات شیاطین ، بعض معلومات لے آرتے ہیں ایسے شیاطین کا پیچھا یہ شہاب ثاقب کرتے ہیں ۔ یہ شہاب ایسے شیاطین پر لگتے ہیں اور انہیں جلا کر رکھ دیتے ہیں۔

ہم ان کیفیات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے کہ یہ شیاطین جاسوسی کا یہ عمل کس طرح کرتے ہیں اور کس طرح وہ کچھ معلومات لے اڑتے ہیں اور کس طرح انہیں شہاب ثاقب کے ذریعے بھسم کردیا جاتا ہے۔ یہ عالم غیب کی باتیں ہیں اور انسانی فہم و ادراک کی جو طبیعت ہے وہ انکے معلوم کرنے سے عاجز ہے۔ اور نہ ان کی کیفیات کا تصور کرسکتی ہے۔ ہمارا طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ آجائے ہم اس کی تصدیق کردیں۔ اس جہاں کے اندر ہم طبیعات کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ سطحی علم ہے

اصل بات یہ ہے کہ یہ شیاطین جن کو عالم بالا تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کی طرف کان لگانے سے بھی ان کو روکا جاتا ہے۔ وہی شیاطین ہیں جن کے بارے میں عرب کے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان کا اور اللہ تعالیٰ کا آپس میں رشتہ ہے (نعوذ باللہ) ۔ اگر ان لوگوں کا یہ دعویٰ درست ہوتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔ اور یہ نہ ہوتا کہ اللہ کے رشتہ داروں کو اس طرح دھتکارا جاتا ، ہانکا جاتا اور اگر کچھ بات وہ لے اڑیں تو انہیں رجم کردیا جاتا۔ یہ رشتہ دار تو عالم بالا میں آزادانہ آتے جاتے۔

ملائکہ کے ذکر اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان اشیاء کے ذکر کے بعد اور ان ستاروں کے ذکر کے بعد جن سے آسمانوں کو مزین کیا گیا اور ان شیطانوں کے ذکر کے بعد جو سرکش ہیں اور جن پر شہاب ثاقب چھوڑے جاتے ہیں ، اب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ذرا ان لوگوں سے پوچھیں کہ وہ زیادہ طاقتور ہیں یا مذکورہ بالا ۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور ہے اور زیادہ قوی ہے تو پھر وہ دوبارہ اٹھائے جانے کے تصور سے کیوں دہشت زدہ ہوجاتے ہیں اور مزاح کرتے ہیں۔ اور اس کے وقوع کو مستبعد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قیامت میں لوگوں کو دوبارہ اٹھانا اس عظیم اور ہولناک مخلوقات کی پیدائش سے زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے، ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yassammaAAoona ila almalai alaAAla wayuqthafoona min kulli janibin

اردو ترجمہ

اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Duhooran walahum AAathabun wasibun

اردو ترجمہ

تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa man khatifa alkhatfata faatbaAAahu shihabun thaqibun

اردو ترجمہ

اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faistaftihim ahum ashaddu khalqan am man khalaqna inna khalaqnahum min teenin lazibin

فاستفتھم اھم ۔۔۔۔۔ اباؤنا الاولون (11 – 17)

ذرا ان سے پوچھو کہ تم مانتے ہو کہ ملائکہ ، سماوات ، زمین ، ان کے درمیان فضائیں ، شیاطین ، ستارے اور شہاب ثاقب سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ تو کیا تمہاری تخلیق زیادہ مشکل ہے یا اللہ کے ان جہانوں کی تخلیق ؟

اس سوال کے بعد ان کے جواب کا انتظار ہی نہیں کیا جاتا کیونکہ جواب تو ظاہر ہے ۔ یہ سوال تو محض سرزنش کے لیے کیا گیا ہے اور ان کی غباوت پر تعجب کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے۔ اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ حددرجہ غافل اور حیران کن حد تک نافہم نہیں۔ چناچہ ان کے سامنے یہ حقیقت رکھی جاتی ہے کہ آغاز میں تمہیں ایک لیس دار گارے سے بنایا گیا ہے۔ اور یہ گارا اسی زمین سے لیا گیا ہے۔ جو خلائق میں سے ایک ہے۔

انا خلقنھم من طین لازب (37: 11) ” ہم نے انہیں لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے “۔ لہٰذا یہ لوگ پیدائش کے اعتبار سے کوئی زیادہ دشوار نہیں ہیں اور نہ ان کی تخلیق مشکل ہے۔ لہٰذا ان کا موقف عجیب ہے کہ اپنی حماقتوں کو نہیں سمجھتے۔ الٹا اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ ان کو بعث بعد الموت کی جواب دہی سے ڈرایا جاتا ہے اور یہ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ ان کی یہی حماقت ہے جس پر حضور اکرم ﷺ کو تعجب ہوتا ہے اور یہ لوگ ہیں کہ اپنی روش پر چل رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

تم (اللہ کی قدرت کے کرشموں پر) حیران ہو اور یہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal AAajibta wayaskharoona

بل عجبت ویسخرون۔۔۔۔۔ ایۃ یستخرون (37: 12 – 14) ” تم حیران ہو اور یہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ سمجھایا جاتا ہے تو سمجھ کر نہیں دیتے۔ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹھٹھہ میں اڑا دیتے ہیں “۔ رسول اللہ ﷺ کو تو حق ہے کہ آپ ان کے معاملات پر تعجب کریں۔ کیونکہ آپ تو اللہ کو اپنے قلب میں پاتے ہیں۔ جس طرح ہر مومن پاتا ہے اور اللہ کی آیات کو واضح طور پر دیکھتا ہے۔ جو اس کائنات میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ آپ کو اس پر تعجب ہے کہ ان آیات اور نشانیوں کو دیکھتے ہوئے کس طرح ایک شخص اندھا ہوسکتا ہے اور کس طرح اس قسم کا جاہلانہ موقف اختیار کرسکتا ہے۔

ادھر رسول اللہ ﷺ ان کے رویہ کی وجہ سے انگشت بدنداں ہیں ، ادھر ان کی حالت یہ ہے کہ مسئلہ کی اس قدر وضاحت کے باوجود ، عقیدہ توحید اور بعث بعد الموت کے مسائل کے واضح ہونے کے باوجود ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے۔ اور وہ مذاق کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ مذاق طلب کرتے ہیں ۔ دوسروں کو بھی مذاق کی دعوت دیتے ہیں۔ لفظ (یستخرون) سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے مذاق اور نافہمی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید کو جادو کہتے ہیں اور اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ قرآن کریم موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے نظریہ کی دعوت دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

سمجھایا جاتا ہے تو سمجھ کر نہیں دیتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha thukkiroo la yathkuroona

اردو ترجمہ

کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raaw ayatan yastaskhiroona

اردو ترجمہ

اور کہتے ہیں "یہ تو صریح جادو ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo in hatha illa sihrun mubeenun

وقالوا ان ھذا۔۔۔۔ ابآؤنا الاولون (37: 15 – 17) ” اور وہ کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے۔ بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مرچکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اس وقت ہم پھر زندہ کرکے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آباواجداد بھی اٹھائے جائیں گے “۔

اپنے ماحول میں اللہ کی قدرت کے آثار کے دیکھنے سے یہ لوگ غافل ہیں ، خود اپنی ذات کے اندر اللہ کی قدرت کے آثار یہ دیکھ نہیں پاتے ۔ زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے اندر جو آثار پائے جاتے ہیں ، ان سے بھی یہ غافل ہیں۔ ستاروں ، سیاروں اور شہاب ثاقب پر بھی غور نہیں کرتے۔ ملائکہ ، شیاطین کی تخلیق پر غور نہیں کرتے۔ خود اپنی تخلیق پر غور نہیں کرتے کہ کسی طرح ایک لیس دار گارے سے ان کو بنایا گیا ۔ یہ سب آ ثار قدرت ان کی نظروں سے اوجھل ہیں اور یہ تعجب کرتے ہیں اس بات پر کہ جب وہ مرمٹ جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو انہیں دوبارہ کس طرح اٹھایا جائے گا اور پھر اگلے دور کے آباء کو کس طرح اٹھایا جائے گا۔ جن کی ہڈیاں بھی نہیں۔ حالانکہ اس طرح دوبارہ اٹھائے جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے نہ یہ بعید از امکان ہے۔ صرف معمولی غوروفکر کی ضرورت ہے اور انفس و آفاق کے مذکورہ مشاہدات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اردو ترجمہ

بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اُس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aitha mitna wakunna turaban waAAithaman ainna lamabAAoothoona

اردو ترجمہ

اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں گے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awaabaona alawwaloona

اردو ترجمہ

اِن سے کہو ہاں، اور تم (خدا کے مقابلے میں) بے بس ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul naAAam waantum dakhiroona

ق اگر یہ لوگ اس جہاں میں ان مشاہدات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر نہیں کرتے اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے یہ ہولناک منظر پیش فرماتا ہے کہ اب یہ لوگ گویا موت کے بعد اٹھا دئیے گئے ہیں۔ قیامت کے اس منظر کی تصویر کشی اس قدر خوفناک انداز میں کی گئی ہے کہ اس میں دو ماہی بےآب کی طرح مضطرب نظر آتے ہیں۔

۔

قل نعم وانتم داخرون (18)

” “۔ ہاں تم اور تمہارے آباؤواجدادازمنہ قدیم والے بھی اٹھا ئے جائیں گے ۔ اور نہایت ہی بےبسی کی حالت میں ، ذلیل اور گرفتار کرکے ، یوں کہ سرتابی کی مجال نہ ہوگی۔ اور یہ کس طرح ہوگا ۔ ذرا دیکھو اس منظر کو اب قیامت کا ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس منظر کے پیش کرنے کا اسلوب منضرو ہے ۔ زندہ اور متحرک ہے ۔ مکالمے اور حرکات سے بھرپور ہے ۔ کبھی بیانیہ انداز کلام ہے اور کبھی مکالمے کی شکل میں ہے اور کبھی واقعات پر بیچ میں تبصرہ آجاتا ہے ۔ چناچہ کلام کے اعلیٰ ترین خصوصیات پر یہ منظر مشتمل ہے

اردو ترجمہ

بس ایک ہی جھڑکی ہو گی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے) دیکھ رہے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fainnama hiya zajratun wahidatun faitha hum yanthuroona

فانما ھی ۔۔۔۔ ھم ینظرون (19)

یعنی پلک جھپکتے ہی وہ یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے ۔ بس ایک تنعبیہ آمیز چیخ ہوگی ۔ (زجرۃ) کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس میں سختی کلام ہوگی ۔ ایک برتر اتھارنی کی طرف سے حاکمانہ چیخ ۔ اس چیخ کے ساتھ ہی وہ اپنی نظروں کے سامنے سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ۔ یہ منظر ان کے سامنے اچانک بغیر کسی تمید کے ہوگا ۔ یہ لوگ حواس باختہ ہوکر چیخنے چلا نے لگیں گے ۔

اردو ترجمہ

اُس وقت یہ کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo ya waylana hatha yawmu alddeeni

وقالوا ۔۔۔ الدین (20)

” “۔ یہ لوگ اسی حالت میں ہوں گے ، ان کے حواس ابھی تک درست نہ ہوں گے کہ اچانک ان کے کانوں سے ایک دوسری سخت آواز ٹکرائے گی ، بالکل خلاف توقع !

اردو ترجمہ

"یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha yawmu alfasli allathee kuntum bihi tukaththiboona

ھذا یوم ۔۔۔۔ بہٖ تکذبون (21) ” “۔ ان یہاں انداز کلام ” بیانی “ اور ” خبری “ سے بدل کر خطاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور خطاب ان لوگوں سے ہے جو مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی تکذیت کرتے تھے۔ ایک سخت حکم ہے جو ان کے کانوں سے بڑی سختی سے ٹکراتا ہے ۔ فیصلہ کن انداز میں ۔ اور اس کے بعد ردئے سخن اللہ کے کارندوں کی طرف

اردو ترجمہ

(حکم ہو گا) گھیر لاؤ سب ظالموں اور ان کے ساتھیوں اور اُن معبودوں کو جن کی وہ خدا کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ohshuroo allatheena thalamoo waazwajahum wama kanoo yaAAbudoona

احشروا الذین ظلموا۔۔۔۔۔۔ انھم مسئولون (22 – 24) ( “۔ گھیر لاؤ اور اٹھالوؤ گرفتار کرکے ان لوگوں جنہوں نے ظلم کیا اور جو ظالموں کی صف میں تھے۔ یہ ایک جیسے ہیں۔ اس لیے ان کو جوڑے کہا گیا اور ان کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ انداز کلام کس قدر سخت فیصلہ کن اور توہین آمیز ہے۔

فاھدوھم الی صراط الجحیم (37: 23) ” ان کو جہنم کا راستہ دکھاؤ “۔ جنت کا راستہ تو ان کو دکھایا جا رہا تھا لیکن انہوں نے اسے رد کردیا۔ اب جہنم کا راستہ ہی ان کے لیے رہ جاتا ہے جو ان کے لائق ہے۔ چشم زدن میں ان کو جہنم رسید کردیا گیا۔ جہنم تک پہنچا دیا گیا لیکن ایک ضمنی حکم میں کہا گیا کہ ذرا ٹھہراؤ ان کو ، ان سے کچھ پوچھ ہی لیا جائے اور اچانک ان کو ملامت سے بھرپور انداز میں خطاب کیا جاتا ہے۔ سوالیہ اندا زمین مکالمہ ہے۔

اردو ترجمہ

پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min dooni Allahi faihdoohum ila sirati aljaheemi

اردو ترجمہ

اور ذرا اِنہیں ٹھیراؤ، اِن سے کچھ پوچھنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqifoohum innahum masooloona
446