اس صفحہ میں سورہ Al-Mursalaat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المرسلات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں، ہاں (والعاصفات) میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور (ناشرات) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے، جیسے اور جگہ فرمان باری (وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22) 15۔ الحجر :22) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46) 30۔ الروم :46) الخ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے، (عاصفات) سے بھی مراد ہوائیں ہیں، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں (فارقات) اور (ملقیت) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہوجاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے، اس دن ستارے بےنور ہو کر گرجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا01005ۙ) 20۔ طه :105) ، اور فرمایا آیت (وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47ۚ) 18۔ الكهف :47) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ01009) 5۔ المآئدہ :109) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) 39۔ الزمر :69) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے، جیسے فرمایا آیت (فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ 47ۭ) 14۔ ابراھیم :47) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے پیش ہوجائیں گے، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی ﷺ تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوسکتے، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔
حسرت و افسوس کا وقت آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے میرے رسولوں کی رسالت کو جھٹلایا میں نے انہیں نیست و نابود کردیا پھر ان کے بعد اور لوگ آئے انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہم نے بھی انہیں اسی طرح غارت کردیا ہم مجرموں کی غفلت کا یہی بدلہ دیتے چلے آئے ہیں، اس دن ان جھٹلانے والوں کی درگت ہوگی، پھر اپنی مخلوق کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل پیش کرتا ہے کہ ہم نے اسے حقیر اور ذلیل قطرے سے پیدا کیا جو خالق کائنات کی قدرت کے سامنے ناچیز محض تھا، جیسے سورة یس کی تفسیر میں گذر چکا کہ اے ابن آدم بھلا تو مجھے کیا عاجز کرسکے گا میں نے تو تجھے اسی جیسی چیز سے پیدا کیا ہے، پھر اس قطرے کو ہم نے رحم میں جمع کیا جو اس پانی کے جمع ہونے کی جگہ ہے اسے بڑھاتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے، مدت مقررہ تک وہ وہیں رہا یعنی چھ مہینے یا نو مہینے، ہمارے اس اندازے کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور بہترین ہے، پھر بھی اگر تم اس آنے والے دن کو نہ مانو گے تو یقین جانو کہ تمہیں قیامت کے دن بڑی حسرت اور سخت افسوس ہوگا۔ پھر فرمایا کیا ہم نے زمین کو یہ خدمت سپرد نہیں کی ؟ کہ وہ تمہیں زندگی میں بھی اپنی پیٹھ پر چلاتی رہے اور موت کے بعد بھی تمہیں اپنے پیٹ میں چھپا رکھے، پھر زمین کے نہ ہلنے جلنے کے لئے ہم نے مضبوط وزنی بلند پہاڑ اس میں گاڑ دیئے اور بادلوں سے برستا ہوا اور چشموں سے رستا ہوا ہلکا زور ہضم خوش گوار پانی ہم نے تمہیں پلایا، ان نعمتوں کے باوجود بھی اگر تم میری باتوں کو جھٹلاتے ہی رہے تو یاد رکھو وہ وقت آ رہا ہے جب حسرت و افسوس کرو گے اور کچھ کام نہ آئے۔