سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 151 (آیات 1 سے 11 تک)

الٓمٓصٓ كِتَٰبٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِى صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِۦ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ٱتَّبِعُوا۟ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَٰهَا فَجَآءَهَا بَأْسُنَا بَيَٰتًا أَوْ هُمْ قَآئِلُونَ فَمَا كَانَ دَعْوَىٰهُمْ إِذْ جَآءَهُم بَأْسُنَآ إِلَّآ أَن قَالُوٓا۟ إِنَّا كُنَّا ظَٰلِمِينَ فَلَنَسْـَٔلَنَّ ٱلَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْـَٔلَنَّ ٱلْمُرْسَلِينَ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ وَٱلْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ ٱلْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَٰزِينُهُۥ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَٰزِينُهُۥ فَأُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا يَظْلِمُونَ وَلَقَدْ مَكَّنَّٰكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَٰيِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ
151

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ا، ل، م، ص

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeemsad

اس کے بعد اس قصے پر کئی تبصرے سامنے آتے ہیں ۔ ایک تبصرہ فطری عہد کے بعد آتا ہے اس میں اس شخص کی صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا ہے جسے اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں اور وہ اس سے نکل گیا ۔ مثلا بنی اسرائیل اور وہ تمام دوسری اقوام جنہیں اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں لیکن انہوں نے ان کی پابندی نہ کی ۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جس میں تمام اشکال اور تمام حرکات اور اشارات ہماری نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور سورة انعام جیسے مناظر اور مشاہد سامنے آتے ہیں ۔

آیت ” وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ (175) وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (176) سَاء مَثَلاً الْقَوْمُ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَأَنفُسَہُمْ کَانُواْ یَظْلِمُونَ (177) مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ وَمَن یُضْلِلْ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (178) وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (179) (7 : 175 تا 179)

” اور اے محمد ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا ۔ گر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا ۔ آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑگیا ۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا ۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے ‘ مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ‘ لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے ۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات انکو سناتے رہو ‘ شاید کہ یہ غور وفکر کریں ۔ بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ‘ اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے ۔ اور جسے اللہ اپنی راہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام ونامراد ہو کر رہتا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں ‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے ہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

اب براہ راست نظریاتی مباحث آتے ہیں ۔ نظریاتی مباحث کے ساتھ بعض کائناتی شواہد ومؤثرات بھی پیش کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سخت پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے ان کے دلوں کو ٹٹولا جاتا ہے کہ وہ غور وہ فکر کریں ‘ اللہ کی آیات میں تدبر کریں اور اس رسول اور اس کی رسالت کے بارے میں سوچ سے کام لیں ۔

آیت ” 179) وَلِلّہِ الأَسْمَاء الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ أَسْمَآئِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (180) وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّۃٌ یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ (181) وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُم مِّنْ حَیْْثُ لاَ یَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِیْ لَہُمْ إِنَّ کَیْْدِیْ مَتِیْنٌ(183) أَوَلَمْ یَتَفَکَّرُواْ مَا بِصَاحِبِہِم مِّن جِنَّۃٍ إِنْ ہُوَ إِلاَّ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(184) أَوَلَمْ یَنظُرُواْ فِیْ مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْء ٍ وَأَنْ عَسَی أَن یَکُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُہُمْ فَبِأَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ (185) مَن یُضْلِلِ اللّہُ فَلاَ ہَادِیَ لَہُ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (186) ”(7 : 180 تا 186)

” اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ‘ اس کو اچھے ناموں ہی سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھتے ہیں وہ راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ ہو پاکر رہیں گے ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی ۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ‘ میری چال کا کوئی توڑ نہیں ۔ اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو صاف صاف متنبہ کررہا ہے ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ جس کو اللہ راہنمائی سے محروم کر دے اس کے لئے پھر کوئی راہنمائی نہیں ہے اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے ۔

اس کے بعد اللہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی دعوت کی نوعیت سے آگاہ کریں اور اس نظریہ حیات میں رسول کے حدود کار سے آگاہ کریں ۔ یہ بات ان کے اس سوال کے جواب میں آتی ہے جس میں انہوں نے رسول سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قیامت کے وقت کا تعین کردیں جس سے وہ انہیں ہر وقت ڈراتے رہتے ہیں۔

آیت ” یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّہِ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ (187) قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوء ُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (188) (7 : 187 تا 188)

” یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔ آسمانوں اور زمین میں بڑا سخت وقت ہوگا ۔ وہ تم پر اچانک آجائے گا ۔ “ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو ۔ کہو ” اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ “ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ ” میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ‘ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے ‘ وہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں ایک محض خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں۔

اس کے بعد قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ نفس انسانی جس سے اللہ نے عہد لیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پر قائم رہے گا کس طرح اس عقیدہ توحید کو ترک کردیتا ہے جس کا اقرار اس کی فطرت نے کیا تھا۔ یہاں شرک کی کراہت اور شریک معبودوں کی کمزوری کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان معبودوں کی تحدی کریں کہ وہ کس قدر عاجز ہیں ۔

آیت ” قُلِ ادْعُواْ شُرَکَاء کُمْ ثُمَّ کِیْدُونِ فَلاَ تُنظِرُونِ (195) إِنَّ وَلِیِّـیَ اللّہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (196) وَالَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ نَصْرَکُمْ وَلا أَنفُسَہُمْ یَنْصُرُونَ (197) وَإِن تَدْعُوہُمْ إِلَی الْہُدَی لاَ یَسْمَعُواْ وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُونَ (198) (7 : 195 تا 198)

” اے محمد ان سے کہو کہ ” بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ‘ پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو ‘ میرا حامی وناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ‘ بخلاف اس کے تم جنہیں ‘ خدا کو چھوڑ کر ‘ پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لئے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے ۔ بظاہر تم کو ایسا بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقعہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے “۔

اب آگے خطاب صرف حضور ﷺ سے کیا جاتا ہے اور یہ آخر تک چلتا ہے ۔ یاد رہے کہ سورة کا آغاز بھی براہ راست حضور ﷺ کے خطاب کے ساتھ ہوا تھا ۔ یہاں حضور ﷺ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کریں گے ۔ دعوت کو لے کر کس طرح بڑھیں گے ۔ راستے کی مشکلات پر کس طرح قابو پائیں گے ‘ لوگوں کی سازشوں اور ایذا رسانیوں پر کس طرح قابو پائیں گے ۔ وہ اور اہل ایمان قرآن پر کس طرح کان دھریں گے ۔ وہ اللہ کو ہر وقت کس طرح یاد کریں گے اور اس کے ساتھ ایک تعلق کس طرح قائم رکھیں گے ۔ نیز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں ملائکہ کس طرح اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔

آیت ” خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ (199) وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ إِنَّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(200) إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُہُمْ یَمُدُّونَہُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُونَ (202) وَإِذَا لَمْ تَأْتِہِم بِآیَۃٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَیْْتَہَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا یِوحَی إِلَیَّ مِن رَّبِّیْ ہَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (203) وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (204) وَاذْکُر رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَخِیْفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْنَ (205) إِنَّ الَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُونَ (206) (7 : 199 تا 206)

” اے نبی ‘ نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو ‘ معروف کی تلقین کئے جاؤ ‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فورا چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگ جاتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے ۔ رہے ان کے (شیطانوں کے) بھائی بند ‘ تو وہ انہیں کج روی میں کھینچتے لئے چلے جاتے ہیں اور انہی بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ اے نبی ‘ جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے ان کے لئے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو ” میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اسے قبول کریں۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ‘ شاید کہ تم پر بھی رحمت کی جائے ۔ “ اے نبی اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو۔ دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور ﷺ تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکتے ہیں ۔ “

امید ہے کہ اس خلاصے اور ان اقتباسات سے سورة اعراف کے خدوخال واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اور اس میں اور سورة انعام میں فرق و امتیاز بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ دونوں سورتیں ایک ہی موضوع کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتی ہیں ۔ دونوں کا موضوع اسلامی عقیدہ اور نظریہ حیات ہے ۔ جہاں تک ہر موضوع پر تفصیلی بات کا تعلق ہے وہ نصوص پر تفصیلی بحث کے وقت آئے گی ۔ انشاء اللہ اللہ کے فضل وکرم سے !

(المص) الف لام میم صاد ‘ سورة کا آغاز ان حروف مقطعات سے کیا گیا ہے ۔ سورة بقرہ کے آغاز میں ہم ان پر بحث کر آئے ہیں ۔ اسی طرح سورة آل عمران کے آغاز میں بھی ۔ ان کی تفسیر کے سلسلے میں ہم نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ ان سے مراد یہ ہے کہ یہ سورة ایسے ہی حروف سے بنی ہوئی ہے اور عربی زبان کے ان حروف تہجی کو تمام لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی شخص اس میڑیل سے قرآن جیسا کلام نہیں بنا سکتا اور یہ بذات خود اس بات کے لئے شاہد عادل ہے کہ قرآن انسان کا بنایا ہواکلام نہیں ہے کیونکہ یہ حروف اور عربی زبان کے الفاظ ان کے سامنے موجود ہیں۔ لیکن وہ ان سے قرآن نہیں بنا سکتے ۔ ہم نے یہ رائے بطور ترجیح اختیار کی ہے ۔ ہم جزم سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے واللہ اعلم ۔

اس لحاظ سے پھر ترکیب یوں ہوگی کہ المص مبتدا ہے اور کتاب انزل الیک اس کی خیر ہے ۔ یعنی ان حروف اور کلمات سے مرکب یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے ۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (المص) صرف اشارہ ہے جس سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے اور کتاب خیر ہے اور مبتدا محذوف ہے یعنی (ھذا کتب)

اردو ترجمہ

یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kitabun onzila ilayka fala yakun fee sadrika harajun minhu litunthira bihi wathikra lilmumineena

آیت ” نمبر 1 تا 2۔

یہ کتاب تمہاری جانب اتاری گئی ہے تاکہ تم لوگوں کو بھلایا ہوا سبق یاد دلاؤ اور انجام بد سے ڈراؤ ۔ اس میں جو سچائی ہے اسے صاف صاف لوگوں کے سامنے بیان کردیں اور اس بات کا خیال نہ کریں کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں یا نہیں ۔ یہ کتاب آئی ہی اس لئے ہے کہ لوگوں کے سامنے وہ حقائق پیش کرے جسے وہ پسند نہیں کرتے ‘ یہ آئی ہی اس لئے ہے کہ غلط عقائد ‘ رسومات اور غلط تعلقات کو ختم کرے اور باطل نظامہائے حکومت ‘ باطل قوانین اور باطل معاشروں کا مقابلہ کرے ۔ لہذا اس کتاب کی راہ میں مشکلات بہت ہیں ‘ اس کتاب کا پیغام لے کر جو بھی آئے گا ‘ اے مشکلات کو انگیز کرنا ہوگا ۔ اس کتاب کے اس پہلو کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے ‘ جیسا کہ ہم نے سورة پر تبصرے کے وقت کہا ‘ جو اس کے پیغام کو لے کر اٹھے ۔ اس کتاب کے نظریات کا اعلان ببانگ دہل کردے اور اس راہ میں جو مشکلات پیش ہوں انہیں برداشت کرے ۔ اس حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے لئے اہداف طے کرے اور وہ جاہلی معاشرے کو جڑوں سے ‘ اس کے تنے اور شاخوں سمیت اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ مکمل تغیر اور انقلاب لانے کا داعیہ اپنے اندر رکھتا ہو ‘ جس طرح اس کتاب کے حامل اول حضرت محمد ﷺ نے اسے لے کر دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اور طاغوت اور جاہلیت کا مقابلہ کیا اور پہلے جزیرۃ العرب میں اور پھر پوری دنیا کی کایا پلٹ دی تھی ۔

اس کتاب کے ساتھ یہ طرز عمل اس وقت جزیرۃ العرب اور اس کے اردگرد کے ماحوال میں لائے جانے والے انقلاب تک ہی موقوف ومخصوص نہ تھا ‘ کیونکہ اسلام کوئی حادثہ یا تاریخ نہیں ہے کہ ایک وقفہ تاریخ میں واقعہ ہوگیا اور اس کے بعد لوگوں نے اسے تاریخ میں لکھنا شروع کردیا ۔ اسلام تو انسانیت کے بالمقابل ایک دائمی تحریک ہے اور یہ تحریک قیامت تک رہے گی ۔ اسلام لوگوں کے لئے وہی پیغام ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا ۔ جب بھی انسانیت صراط مستقیم سے انحراف کرے ‘ اسلام اسے روکتا ہے اور واپس اسے جادہ مستیقم پر ڈال دیتا ہے اس لئے کہ تاریخی عوامل کے تحت انسانیت بار بار جاہلیت کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔ یہ اس کی پسماندگی اور رجعت ہوتی ہے لیکن اسلامی تحریک اس مرحلے پر آگے بڑھتی ہے ‘ دوبارہ اسلام کی تجدید ہوجاتی ہے اور اس کمزوری کے بعد اسلام دوبارہ ایک قوت بن کر اٹھتا ہے اور دوبارہ انسانیت کو ترقی اور تہذیب و تمدن کی راہ پر ڈال دیتا ہے ہر دور میں اس تحریک کے قائدین کو وہ مشکلات پیش آتی ہیں جو داعی اول کو پیش آئیں ‘ اس لئے کہ جب انسانیت جاہلیت کے گندے کیچڑ میں لت پت ہوتی ہے تو انہیں اس پوری انسانیت کو کھینچ کر واپس لانا ہوتا ہے ‘ کیونکہ جاہلیت میں انسانیت فکری گمراہی میں مبتلا ہوتی ہے ۔ اس کے تصورات تاریک ہوجاتے ہیں ‘ وہ نفسیاتی خواہشات کی تاریکیوں میں گرفتار ہوتی ہے ‘ وہ ظلم اور ذلت ‘ غلامی اور ذاتی خواہشات ‘ مفادات واغراض کا شکار ہوتی ہے اور جو شخص انسانیت کو اس جاہلیت اور گندگی سے نکالنا چاہتا ہے ‘ اسے اس قسم کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اس جہان کو ان گندگیوں سے پاک کرنے کے لئے تحریک چلاتا ہے اور اس تحریک میں وہ اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کو خوب سمجھ سکتا ہے ۔

آیت ” المص (1) کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2) (7 : 1۔ 2)

” ا ‘ ل ‘ م ‘ ص۔ یہ ایک تاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد ﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان والوں کو نصیحت ہو ۔ ‘

ایک مومن اپنے معاشرے کے حالات سے یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ مومن کون ہیں جنہیں نصیحت کی جاتی ہے اور غیر مومن کون ہیں جن کے لئے اندار کا حکم ہے ۔ اس تحریکی کارکن کے لئے یہ قرآن ایک زندہ کتاب ہوتی ہے جسے پڑھتے ہوئے وہ محسوس کرتا ہے کہ گویا یہ کتاب ابھی نازل ہو رہی ہے ۔ یہ کتاب اس شخص کے لئے تازہ پیغام ہوتی ہے جب وہ اسے بطور پیغام لے کر پوری دنیا کے خلاف جدوجہد شروع کردے ۔

اس وقت پوری انسانیت کی حالت ویسی ہی ہے جس طرح اس وقت تھی جب یہ کتاب حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی تھی ۔ اس وقت حضور ﷺ کو حکم تھا کہ آپ تذکیر اور انذار کا فریضہ سرانجام دیں اور جب آپ جاہلیت کے مقابلے میں اٹھیں تو آپ کے دل میں کوئی جھجک نہیں ہونا چاہئے ۔ آپ کے اندر یہ داعیہ ہونا چاہئے کہ آپ نے جاہلیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔

آج گردش دوران نے حالات کو اسی مقام پر لا کر کھڑا کردیا ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے نزول قرآن کے وقت تھے ۔ اس وقت دنیا مکمل طور پر جاہلیت کی طرف لوٹ گئی ہے ۔ اس نے اصول و فروع دونوں میں جاہلیت کو اپنا لیا ہے ‘ اس کا ظاہر و باطن اور اس کی سطح اور گہرائی سب کی سب جاہلیت میں ہے ۔

اس وقت انسانیت کے تمام تصورات ونظریات جاہلی ہیں ۔ یہاں تک کہ جن کے آباؤ اجداد مومن تھے اور مومنین مخلصین تھے انہوں نے بھی پوری طرح جاہلی افکار کو اپنا لیا ہے ۔ ان کے تصورات وخیالات میں دین اسلام کا وہ مفہوم باقی نہیں رہا جو حقیقت میں ہے ۔ انہوں نے اسلامی نظام کا مفہوم ہی بدل دیا ہے ۔

یہ دین تو اس دنیا میں اس لئے آیا تھا کہ وہ اس کرہ ارض کے خدوخال ہی بدل دے اور اس کی جگہ اسے ایک نیا روپ دے ۔ یہاں صرف اللہ کا اقتدار اعلی قائم کرے اور طاغوت کے اقتدار کا خاتمہ کردے ۔ یہ دنیا ایک دنیا ہو جس میں صرف اللہ کی مکمل بندگی ہو ‘ اور اللہ کے علاوہ انسانوں میں سے کوئی اپنی بندگی نہ کرائے ۔ ایک ایسی دنیا ہو جس میں لوگ آزادی کے ساتھ انسانوں کی بندگی سے باہر نکل آئیں ۔ اس دنیا میں آزاد ‘ شریف اور پاکدامن انسان پیدا ہوں ‘ وہ خود اپنی شہوات سفلیہ سے بھی آزاد ہوں اور دوسرے لوگوں کی غلامی سے بھی آزاد ہوں ۔

یہ دین اس لئے آیا تھا کہ دنیا میں یہ اصول قائم کرے ۔ (لا الہ الا اللہ) یعنی اللہ کے سوا کوئی حاکم اور مقتدر اعلی نہیں ہے ۔ انسانی تاریخ میں تمام انبیاء یہی دعوت لے کر آتے ہیں ۔ یہ سورة اور قرآن کریم کی دوسری نصوص وآیات اس بات کی صراحت کرتی ہیں ۔ کہ (لا الہ الا اللہ) کا مفہوم صرف یہی ہے کہ اقتدار اعلی اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں ہے اور جس طرح اللہ اس کائنات کے اوپر حاکم ہے ‘ اسی طرح وہ انسان کی زندگی کے اوپر بھی حاکم ہے ۔ وہ اپنے نظام قضا وقدر کے ذریعے اس کائنات اور خود انسان کی طبیعی زندگی پر حکمران ہے لہذا وہ انسانوں کے قانونی اور ذاتی نظام کے متعلق امور پر بھی حاکم ہے ۔ اس اصول کے تحت جب طرح ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جہاں کی تکوینی زندگی میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ۔ صرف وہی متصرف ہے اور ایک مسلمان بندگی کے مراسم جس طرح صرف اللہ کے سامنے بجا لاتا ہے اسی طرح دستور و قانون میں بھی وہ صرف اسی اللہ کا مطیع ہے ۔ وہ اپنی اقدار اور حسن وقبح کے پیمانے بھی اسی سے اخذ کرتا ہے ۔ عقائد ونظریات بھی اللہ سے اخذ کرتا ہے اور وہ ہرگز کسی طاغوت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے اس اقتدار اعلی کا کوئی حصہ اپنے لیے مختص کرلے یا اللہ کے ساتھ شریک ہوجائے ۔

غرض اعتقاد ونظریے کے اعتبار سے یہ اس دین کا بنیادی اصول ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں اگر ہم آج دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا نے اس اساسی اصول کو ترک کردیا ہے ۔ اس دنیا میں فرقے فرقے ہیں اور یہ سب فرقے جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

ایک گروہ ملحدین کا گروہ ہے اور یہ لوگ سرے سے وجود باری تعالیٰ کے منکر ہیں ‘ ان پر کسی تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک گروہ بت پرستوں کا ہے ‘ جو ایک الہ کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن وہ اس خدا کے ساتھ دوسرے خداؤں کو شریک کرتے ہیں اور انہوں نے کئی رب بنا رکھے ہیں ۔ مثلا ہند اور وسطی افریقہ اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ایسے لوگ ہیں ۔

ایک گروہ اہل کتاب کا ہے یعنی یہود ونصاری کا ۔ یہ لوگ اللہ کے بیٹے کے قائل ہیں اور بیٹے کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اپنے احبار اور رہبان کو ایسا سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے احبارو رہبان کی حاکمیت اعلی اور حق قانون سازی کو تسلیم کرلیا ہے اگرچہ یہ انکی نماز نہیں پڑھتے اور انکے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتے اور انہ ان کے سامنے جھکتے ہیں ۔ آج کے دور میں عیسائیوں نے اپنی زندگی سے اللہ کے اقتدار کو خارج کردیا ہے اور انہوں نے اپنے لئے نظامہائے زندگی تجویز کر لئے ہیں جنہیں وہ سرمایہ داری ‘ اشتراکیت اور دوسرے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے لئے نظامہائے حکومت بھی تجویز کرلئے ہیں جسے وہ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے اللہ کے اصول ودستور کو کلیتا ترک کردیا ہے ۔ جیسا کہ یونانی اور رومی جاہلیت نے اللہ کے اقتدار اعلی کو ترک کرکے اپنا نظام زندگی اور نظام حکومت خود گھڑ لیا تھا ۔

ایک گروہ وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اپنی زندگی میں وہ اہل کتاب کے نظام کا مطیع ہے ۔ وہ پوری طرح اہل مغرب کے عیسائیوں کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے ۔ یہ فرقہ اللہ کے نظام کو ترک کرکے اہل مغرب کے نظام کو اپنا چکا ہے ۔ اللہ کا دین قرآن وسنت اور اسلامی شریعت ہے اور یہی اسلامی نظام قانون ودستور ہے اور انسانوں کا دین انسانوں کا بنایا ہوا دستور اور قانون ہے ۔

لہذا بات یہی ہے کہ زمانہ گردش کر کے اسی مقام پر آگیا ہے جس پر اس وقت تھا جب پہلے پہل دین اسلام انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ۔ لوگ دین اسلام کو ترک کرکے جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ہیں اور فرقے فرقے بن گئے ہیں لیکن کوئی فرقہ دین اسلام کا مطیع نہیں ہے ۔ آج قرآن پوری انسانیت کے لئے اسی طرح دعوت فکروعمل ہے جس طرح اپنے نزول کے وقت تھا ۔ اس دین کا آج بھی ہدف یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے عقیدے اور نظریات کے زاوے سے اسلام میں داخل کرے ‘ پھر نظام زندگی اور میدان عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے ۔ چناچہ آج جو شخص بھی قرآنی دعوت کو لے کر اٹھتا ہے وہ ویسی ہی مشکلات سے دو چار ہوگا جس طرح کی مشکلات سے رسول اللہ دو چار رہے تھے ۔ کیونکہ آپ نے جب انسانیت کو خطاب فرمایا تو وہ جاہلیت کی گندگی میں آلودہ تھی ۔ جاہلیت کے صحرا میں گم کردہ راہ تھی ۔ اس نے شیطان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا اور بھٹک رہی تھی ۔ لہذا آج پہلا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کے دل میں کلمہ شہادت کے مطابق اسلامی تصور حیات اور اسلامی سوچ پیدا کی جائے اور دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں صرف اللہ کی عبادت ہو ‘ اور اللہ کے سوا کوئی اور حاکم اور مقتدر اعلی نہ ہو ۔ یوں انسان کو ایک نئی اسلامی زندگی عطا کی جائے جس میں انسان انسانوں کی زندگی سے آزاد ہو کر اور اپنی خواہشات سے آزاد ہو کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل ہوجائے ۔

اسلام کوئی تاریخی حادثہ نہیں ہے کہ وہ ایک دفعہ پیش آگیا اور پھر جس طرح اس سے پہلے کا دور ایک تاریخ ہے اور بعد کا دور بھی ایک تاریخ ہے ۔ اسے آج بھی وہی کردار ادا کرنا ہے جو اس نے ایک بار پہلے ادا کیا تھا ۔ وہ اس طرح کام کرے گا جیسے حالات اور واقعات میں ‘ جیسے نظام اور معاشرے میں ‘ جیسے عقائد و تصورات میں ‘ جیسی اقدار اور پیمانوں میں اس نے پہلے کام کیا تھا اور نظام باطل کا مقابلہ کیا تھا ۔

یاد رہے کہ جاہلیت ایک صورت حال ہوتی ہے ۔ جاہلیت تاریخ کے کسی مخصوص دور کا نام نہیں ہے ۔ اس وقت اطراف عالم میں یہ جاہلیت چھائی ہوئی ہے ۔ تمام فرقوں ‘ تمام تصورات ‘ تمام مذاہب اور تمام نظامہائے زندگی میں جاہلیت قائم ودائم ہے ۔ اس کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان انسانوں کے غلام ہوں اور اس میں اللہ کی ہمہ گیر حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا انکار ہو۔ اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ وہ انسانی خواہشات پر قائم ہوتی ہے ‘ چاہے ان کی شکل و صورت جو بھی ہو۔ اس کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں اللہ کی شریعت کو بطور نظام حکومت تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اس کے بعد اس کی شکل و صورت ‘ اس کے خدوخال ‘ اس کے جھنڈے اور شعائر اس کے نام والقاب ‘ اس کے گروہ اور مذاہب اور اسکے ملل ونحل اگرچہ مختلف ہوتے ہیں لیکن ان تمام میں مذکورہ بالااساسی ضابطے اور اصول موجود ہوتے ہیں ۔

ان اصولوں کی روشنی میں ‘ آج اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ہر طرف جاہلیت چھائی ہوئی ہے ۔ بلکہ اس وقت پوری دنیا پر جاہلیت حکمران ہے ۔ اس وقت دنیا میں اسلامی نظام زندگی معطل ہے اور جو لوگ اس وقت دنیا میں اسلامی نظام زندگی کی طرف دعوت دے رہے ہیں ‘ انہیں ویسی ہی مشکلات درپیش ہیں جیسی حضور اکرم ﷺ کو درپیش تھیں ۔ ان کا ہدف وہی ہے جو رسول اللہ کا تھا اور آج یہ آیت ان سے اسی طرح مخاطب ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ سے مخاطب تھی ۔

آیت ” کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2)

” یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد ﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ “

اس وقت دنیا میں جس قدر معاشرے موجود ہیں ‘ وہ جاہلی معاشرے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ یہ پسماندہ ‘ رجعت پسند معاشرے ہیں کیونکہ وہ دبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ہیں حالانکہ اسلام نے انہیں اس جاہلیت سے نجات دی تھی ۔ آج بھی اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ اس جاہلی معاشروں کو رجعت پسندی اور پسماندگی سے نجات دے ۔ اور ترقی اور زبانی ہدایات کے مطابق تہذیب و تمدن کے حصول کے لئے ان کی قیادت کے فرائض سرانجام دے ۔

جب اقتدار اعلی صرف اللہ کے لئے مخصوص ہوجائے اور یہ اقتدار ایک معاشرے کی صورت میں ردبعمل آجائے جس میں اسلامی شریعت نافذ ہو ‘ تو یہی ایک صورت حالات ہوگی جس میں انسانیت انسانوں کی غلامی سے پوری طرح آزاد ہوگی ۔ وہ ہوائے نفس اور مطلب پرستی کی غلامی سے آزاد ہوگی اور صرف یہی صورت حالات اسلامی اور متمدن صورت حالات ہوگی ‘ اسلامی اقدار کے مطابق ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جس تہذیب و تمدن کو انسان کے لئے پسند فرماتے ہیں وہ ہر فرد کی مکمل آزادی اور شرف کے اصول پر مبنی ہے ۔ اس طرح کا کوئی تمدن اللہ کو پسند نہیں ہے جس میں انسان کو ایسی آزادی حاصل ہو جس میں وہ دوسرے انسانوں کا غلام ہو اور جس میں انسان انسانوں کے رب اور خدا ہوں اور ان کے حاکم اور قانون ساز ہوں ۔ بعض تابع ہوں اور بعض متبوع اور حاکم ہوں ۔ قانون سازی سے مراد محض رسمی قوانین ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد حسن وقبح کے پیمانے ‘ اخلاق اور رسم و رواج بھی ہیں ۔ یہ سب قوانین و ضوابط ہیں اور لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں چاہے لوگ شعوری طور پر ان کے پابند ہوں یا غیر شعوری طور پر ۔ اس قسم کے معاشروں کو رجعت پسند اور پسماندہ معاشرے تصور کیا جاتا ہے اور اسلامی اصطلاح کے مطابق انہیں جاہلی معاشرے کہا جاتا ہے ۔

جب کسی معاشرے میں اجتماعیت کی اساس نظریہ حیات پر ہو ‘ اس کی اساس پر ایک نظام حیات بھی ہو اور یہ تصور اور نظام دونوں کا مصدر ذات باری تعالیٰ ہو ‘ کسی ایک فرد کی خواہش نہ ہو ‘ کسی ایک بندے کا ارادہ نہ ہو ‘ تو یہ معاشرہ ترقی یافتہ مہذب معاشرہ ہوگا ۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق اسے ربانی اور مسلم معاشرہ کہا جائے گا ۔ کیونکہ اس معاشرے میں اجتماعیت انسانی خواص پر نہ ہوگی بلکہ روحانی اور فکری تصورات پر ہوگی ۔ لیکن اگر کسی اجتماعی نظام اور معاشرے کی اساس قوم ‘ نسل وغیرہ اور زمین کی اساس پر ہو تو ایسا معاشرہ رجعت پسند اور پسماندہ معاشرہ کہلائے گا یا اسلامی اصطلاحات کے مطابق اسے جاہلی اور مشرک معاشرہ کہا جائے گا ۔ اس لئے کہ قوم ونسل اور زمین ورنگ کوئی اعلی انسانی اقتدار نہیں ہیں کیونکہ انسانی کسی نسل ‘ کسی قوم ‘ کسی زمین ‘ کسی زنگ میں بھی ہو وہ بہرحال انسان رہتا ہے ۔ اور اس کے اندر اگر کوئی فرق ہوتا ہے تو روح اور فکر کے ذریعے ہوتا ہے ۔

انسان اپنے آزادانہ اختیار اور ارادے سے اور یہ اختیار ارادہ وہ عظیم شرف ہے جو انسان کو عطا ہوا ہے ‘ اپنے عقائد واپنے تصورات کو بدل سکتا ہے ‘ بشرطیکہ اپنے فہم کے ادراک کے ذریعے وہ کسی سمت میں مائل ہوجائے اور اسے اطمینان ہوجائے اس صورت میں گمراہی کو ترک کرکے ہدایت اپنا سکتا ہے ‘ اور کوئی اچھا نظام حیات اپنا سکتا ہے ‘ لیکن کوئی انسان اپنی نسل اپنا رنگ اپنی قوم اور اپنے اس ملک کو نہیں بدل سکتا اور زمین کا تعین نہیں کرسکتا ۔ اس لئے وہ معاشرہ اور وہ اجتماعی نظام جسے لوگوں نے خود اپنے آزادانہ ارادہ سے اپنایا ہو وہ بہتر یا وہ نظام جس کے اندر کوئی شخص مقہور ومجبور ہو ۔ اور اس میں اس کی آزادی اور ارادے کا کوئی دخل نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت حالات شرف انسانیت کے لئے اعلی وارفع ہے اور اسے زیادہ ترقی پسندانہ کہا جاسکتا ہے ۔

اگر کسی معاشرے میں انسان کی انسانیت ہی اعلی قدر قرار پائے انسان کے انسانی خصائص اہمیت اور رعایت کے مستحق قرار پائیں تو وہ معاشرہ ترقی پسند اور مہذب معاشرہ قرار پائے گا اور اسلامی اصطلاح میں وہ ربانی اور مسلم معاشرہ ہوگا۔ لیکن اگر کسی معاشرے کی اساس مادے پر ہو ‘ چاہے جس شکل و صورت میں بھی وہ ہو ‘ اور مادہ ہی اعلی قدر ہو ‘ وہ مارکسی نظریات کے مطابق ہو ‘ یا مادی پیداوار کے نظریہ کے مطابق ہو۔ مثلا یورپ وامری کہ کے تمام معاشرے جہاں اعلی قدر و قیمت مادی پیداوار ہے جس کے لئے انہوں نے تمام اعلی انسانی اقدار اور انسانی خصوصیات کو قربان کردیا ہے ۔ اس کے لئے ان معاشروں نے تمام اخلاق اقدار ثانوی حیثیت دے دی ہے تو یہ معاشرہ پسماندہ اور رجعت پسند معاشرہ تصور ہوگا اور اسلامی اصطلاح میں اسے جاہلی اور مشرکانہ معاشرہ کہا جائے گا ۔

اسلام کا ربانی معاشرہ بھی مادے کو حقارت کی نظروں سے نہیں دیکھتا ‘ نہ اس نقطہ نظر سے کہ اس پوری کائنات کی تشکیل اسی مادے سے ہوئی ہے اور نہ اس اعتبار سے کہ اس سے پیداوار حاصل کرکے انسان کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے ‘ کیونکہ مادہ اور مادی پیداوار اس کرہ ارض پر انسان کے لئے اپنے فرائض خلافت ادا کرنے کے لئے از حد ضروری ہیں ۔ دنیا کی حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانا اسلام جائز سمجھتا ہے بلکہ اس کی دعوت دیتا ہے جیسا کہ آگے ہم اس سورة میں بتائیں گے لیکن اسلام مادے اور مادی پیداوارکو اس کائنات کی اعلی قدر قرار نہیں دیتا جس کے حصول کے لیے اعلی انسانی اقدار کو قربان کردیا جائے جیسا کہ تمام جاہلی اور مادی معاشرے کرتے ہیں۔

انسانی اقدار اور انسانی اخلاق ہی اگر کسی معاشرے میں اگر کسی معاشرے میں سربلند ہوں ‘ اس طرح جس طرح انہیں اللہ تعالیٰ نے وضع کیا ہو تو یہ معاشرہ مہذب اور ربانی معاشرہ ہوگا ۔ اب سوال یہ ہے کہ انسانی اخلاق کیا ہیں اور انسانی اقدار کیا ہیں ؟ تو یہ کوئی پوشیدہ اور ناقابل فہم مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اخلاق واقدار تغیر پذیر ہوتے ہیں یا ایک حالت پر نہیں رہتے جیسا کہ وہ لوگ رائے رکھتے ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میں طوائف الملوکی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ اعلی اقدار اور اعلیٰ اخلاقی معیار انسان کی ان خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں وہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں نفرد ہے ۔ انسان کے انسانی پہلو کو اس کے حیوانی پہلو پر غالب کرتے ہیں ۔ اخلاقی قدریں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک خصوصیات کو پروان نہیں چڑھاتیں ۔ اگر اس مسئلے کو اس انداز سے لیا جائے تو اعلی اقدار اور اخلاق اور محض حیوانیت کے درمیان ایک حد فاصل چڑھاتیں ۔ اگر اس مسئلے کو اس انداز سے لیا جائے تو اعلی اقدار اور اخلاق اور محض حیوانیت کے درمیان ایک حد فاصل قائم ہوجائے گی اور اعلی قدروں کو اچھی طرح سمجھا جاسکے گا ۔ چناچہ اس طرح ترقی پسندوں کے تمام فلسفے ڈھیر ہوجاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ اخلاق ‘ اشتراکی اخلاق غرباء کے اخلاق اور مالداروں کے اخلاق جیسی کوئی تقسیم نہیں باقی رہتی ‘ صرف انسانی اخلاق اور حیوانی اخلاق رہ جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرتی اخلاق اور معاشی اخلاق کی تقسیم کوئی مستقل تقسیم نہ رہے گی ۔ یہ چیزیں تعمیر اخلاق میں مستقل عوامل شمار نہیں ہوں گی اور تعمیر اخلاق میں ان کا اثر حتمی تصور ہوگا ۔ اس زاویہ سے ایک طرف انسانی اخلاقی اور انسانی اقدار ہوگی اور یہ اسلامی معاشرے کے اخلاق ہوں گے اور دوسری جانب حیوانی اخلاق اور اقدار ہوں گی اور اسے پسماندہ کہا جائے گا ۔ اسلامی اصطلاحات میں اس تقسیم کو اسلامی اور ربانی اخلاق واقدار اور رجعت پسندانہ جاہلی اخلاق واقدار کہا جاتا ہے ۔

وہ معاشرے جن پر حیوانی خواہشات اور میلانات چھائے ہوئے ہوتے ہیں ‘ وہ کبھی مہذب معاشرے نہیں بن سکتے اگر وہ صنفی اور اقتصادی اعتبار سے بہت ہی ترقی یافتہ ہوں ۔ انسان کی ترقی میں یہ معیار کبھی غلط ثابت نہیں ہوا ہے ۔

دورجدید کے جاہلی معاشروں نے اعلی اخلاق اور اعلی اقدار کو ان تمام شعبوں سے نکال دیا ہے جن کا تعلق انسان کے حیوانی پہلو سے ہے ۔ ان معاشروں میں فری سیکس کا اصول کارفرما ہے ۔ ان لوگوں کے ہاں نہایت ہی سوقیانہ جنسی حرکات کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں اگر ان کوئی قومی مفادتقاضا کرتا ہو تو وہ شخصی معاملات اقتصادی روابط اور سیاست میں اخلاق کے قائل ہیں ‘ اپنی قومی مصلحتوں کے دائرے کے اندر اندر ۔ ان ممالک کے صحافی ‘ ادیب اور میڈیا کے تمام شعبے نوجوانوں کو جنسی بےراہ روی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور ان میں جنسی اتصال کو اخلاق رذیلہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔

اس قسم کے معاشرے اسلامی نقطہ نظر سے پسماندہ معاشرے ہیں اور انسانی زاویہ سے بہت ہی گرے ہوئے ہیں۔ اسلامی لحاظ سے تو یہ اس لئے قابل رد ہیں کہ اسلام انسان کی حیوانی خواہشات کو ضبط میں لاتا ہے اور اس کے انسانی پہلوؤں کو نرمی دیتا ہے اور انسانی پہلو کو حیوانی پہلو پر غالب کرتا ہے ۔

آج کے انسانی معاشروں پر یہاں ہم اس سے زیادہ بحث نہیں کرسکتے ۔ یہ معاشرے درحقیقت جاہلیت میں غرق ہیں۔ نظریات سے لے کر اخلاق تک میں اور تصورات سے لے کر طرز عمل تک میں ۔ ان معاشروں کے خدوخال کی وضاحت کے لئے یہ اشارات ‘ میں سمجھتا ہوں یہاں کفایت کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ان کا تعارف ان اشارات سے ہوجاتا ہے ۔ ہمارے دور میں تحریک اسلامی کا اپنے اہداف ‘ دعوت اسلامی اور احیائے دین کیلئے اس قدر تعارف کافی ہے ۔ آج کی دعوت دین اور تحریک اسلامی کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسانیت کو از سر نو اسلام کی طرف دعوت دی جائے ۔ نظریات کے اعتبار سے بھی ‘ اخلاق کے اعتبار سے بھی اور نظام زندگی کے اعتبار سے بھی ۔ یہ وہی جدوجہد ہے جس کا آغاز حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا ۔ ہماری دعوت کا آغاز بھی اسی مقام سے ہونا چاہئے جہاں سے داعی اول نے کیا تھا ۔ جس طرح داعی اول نے اس کتاب کے ساتھ رویہ اختیار کیا تھا وہی ہمارا بھی ہونا چاہئے اور دوبارہ اس آیت پر غور کرنا چاہئے ۔

(یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو)

اللہ نے اس کتاب کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نازل فرمایا اور حضور ﷺ نے سب سے پہلے کتاب کو لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ۔ قیامت تک جب بھی کوئی شخص اس کتاب کو کسی قوم کے سامنے پیش کرے گا تو وہ ان کو لوگوں کو سب سے پہلے یہی حکم دے گا کہ تم ان احکام کی پیروی کرو جو اس کتاب میں ہیں ۔ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور کارساز نہ بناؤ۔ کیونکہ دعوت اسلامی کا اصل محور ہی یہ ہے کہ اسلامی احکامات کا اتباع کیا جائے بجائے اس کے کہ دوسرے لوگوں کا اتباع کیا جائے ۔ جو لوگ اس کتاب کا اتباع کرتے ہیں وہ مسلمان ہیں اور اگر وہ دوسروں کا اتباع کرتے ہیں تو مشرک ہیں ۔ اہل کتاب کے مقابلے میں صرف یہی دو موقف ہیں یا مسلم یا مشرک ۔

اردو ترجمہ

لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

IttabiAAoo ma onzila ilaykum min rabbikum wala tattabiAAoo min doonihi awliyaa qaleelan ma tathakkaroona

آیت ” نمبر 3۔

یہ اس دین کا اساسی مسئلہ ہے ‘ یہ کہ یا تو اس وحی کی پیروی ہوگی تو یہ اسلام ہوگا اور اس میں اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہوگا ۔ اس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کا اعتراف ہوگا ‘ اللہ حکم دے گا اور لوگ اطاعت کریں گے ۔ اللہ نہیں کرے گا اور لوگ رک جائیں گے یا اگر لوگ اپنے لئے کچھ اور لوگوں کو سرپرست بنا لیں گے تو یہ شرک ہوگا اور شرک کے معنی یہ ہوں گے کہ لوگ صرف اللہ کو رب تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ ربوبیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے وقت یہ فرمایا گیا کہ (کتب انزل الیک) (7 : 2) یعنی نزول آپ کی ذات پر ہوا ہے اور جب لوگوں کو خطاب ہوا تو فرمایا آیت ” اتبعوا ماانزل الیکم ) (7 : 3) رسول کی طرف تو کتاب نازل ہوئی کہ آپ اس پر ایمان لائیں اور اسے لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں انجام بد سے ڈرائیں اور لوگوں کی طرف کتاب کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں اور اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ۔ دونوں صورتوں میں الیک اور الیکم کے ذریعے حضور اکرم ﷺ اور آپ کی امت کی عزت افزائی کی گئی ہے اور ان کے حوصلے بڑھائے گئے ہیں اس لئے کہ جس کی طرف اللہ کتاب بھیج دے اور اسے اس عظیم کام کے لئے چن لے اور اس پر یہ کرم کردے کہ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ اس کا شکر بھی بجا لائے ۔ اس فریضے کو اچھی طرح سرانجام دے اور اس میں سستی نہ کرے ۔

چونکہ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے ‘ اس میں پیش نظریہ ہے کہ جاہلیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔ اس کے تصورات اس کے افکار اس کی اقدار اس کی عادات ‘ اس کی رسومات ‘ اس کے انتظامات ‘ اور اس کی اجتماعی عادات واطوار ‘ اقتصادی نظام کو اور اس کائنات اور انسانوں کے ساتھ اس کے روابط کو یکسر ختم کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے اس لئے یہاں انسانوں کے ضمیر کو خوب جھنجوڑا جاتا ہے اور انسانی اعصاب کو حساس بنایا جاتا ہے ۔ انہیں بلا مارنا اور ان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگانا ‘ جو زمانہ جاہلیت میں جاہلی تصورات اور اطوار میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ مقصود ہے چناچہ اس مقصد کے لئے لوگوں کے سامنے ازمنہ ماضی کے مکذبین کے انجام کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آج دنیا کی خواری کے بعد آخرت میں وہ زیادہ برباد ہوں گے ۔

اردو ترجمہ

کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب وہ آرام کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakam min qaryatin ahlaknaha fajaaha basuna bayatan aw hum qailoona

آیت ” نمبر 4 تا 9۔

اقوام سابقہ کا انجام سبق آموز ہوتا ہے ۔ وہ نہایت ہی اونچا ڈراوا ہوتا ہے ۔ قرآن کریم اقوام سابقہ کے عبرت آموز حصوں کو نہایت ہی موثر انداز میں لاتا ہے جس سے انسان خواب غفلت سے جاگ اٹھتا ہے ۔ اور دل پر سے غفلت کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔

بیشمار ایسی بستیاں ہیں جو غفلت کی وجہ سے اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہریں ۔ ان پر جب ہلاکت آئی تو وہ خواب غفلت میں مدہوش تھیں۔ یہ عذاب ان پر رات کے وقت آیا یا دن کے وقت وہ سوتے میں مارے گئے ۔ بالعموم لوگ دوپہر کے وقت آرام کرتے ہیں اور اس وقت ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ امن وامان سے رہیں۔

آیت ” وَکَم مِّن قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا فَجَاء ہَا بَأْسُنَا بَیَاتاً أَوْ ہُمْ قَآئِلُونَ (4)

” کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا ۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا ‘ یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جبکہ وہ آرام کر رہے تھے۔ “

یہ دونوں حالتیں یعنی قیلولہ کی حالت اور رات کی وقت سونے کی حالت ایسی ہوتی ہے جس میں انسان بےپرواہ ‘ پرامن اور غفلت کی حالت میں ہوتا ہے اور ایسی حالت میں کسی کا پکڑا جانا اور عذاب میں مبتلا ہونا نہایت ہی خوفناک اور زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں ڈر ‘ نصیحت آموزی ‘ احتیاط وتقوی ‘ زیادہ سہولت کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے ۔

ایسے حالات میں جب یہ مجرمین پکڑے گئے اور ان پر عذاب آیا تو ان کا ردعمل کیا تھا اعتراف اور مطلق اعتراف جرم ۔ ماسوائے اقرار کے ان کے پاس اور کوئی بہانہ نہ رہا۔

اردو ترجمہ

اور جب ہمارا عذاب اُن پر آ گیا تو ان کی زبان پر اِس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama kana daAAwahum ith jaahum basuna illa an qaloo inna kunna thalimeena

آیت ” فَمَا کَانَ دَعْوَاہُمْ إِذْ جَاء ہُمْ بَأْسُنَا إِلاَّ أَن قَالُواْ إِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ (5)

” اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے ۔ “

انسان ہر قسم کے بہانے تلاش کرتا ہے لیکن اعتراف اس کے لئے مشکل کام ہوتا ہے ۔ وہ آخری وقت تک اقرار نہیں کرتا ۔ لیکن ان لوگوں کو عذاب الہی نے اس قدر اچانک آلیا تھا کہ ماسوائے اقرار کے ان میں اور کوئی حجت نہی رہی تھی اس لئے کہ وہ نہایت ہی خوفناک اور مرعوب کن پوزیشن میں ڈال دیئے گئے تھے ایسی پوزیشن میں جہاں اقرار و اعتراف آخری کوشش ہوتی ہے ۔ یہاں انہوں نے ظلم یعنی شرک کا اقرار کیا ۔

یہاں ظلم سے مراد وہ شرک لیتے ہیں ۔ قرآن کریم کی تعبیرات میں سے بیشتر میں ظلم سے مراد شرک ہی ہے ۔ ظاہر ہے شرک ظلم ہے اور ظلم شرک ہے اس لئے کہ جو شخص اپنے خالق کے ساتھ کسی کو شریک کرے اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے ۔ ؟

اب ذرا دیکھئے کہ دنیا کے عذاب کا منظر نظروں کے سامنے ہے ‘ جھٹلانے والے عذاب الہی کی گرفت میں ہیں اور وہ اعتراف کررہے ہیں کہ بیشک وہ ظالم تھے ‘ حق ان کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور وہ حق کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں لیکن اب یہ اعتراف ان کے لئے مفید مطلب نہیں ہے ۔ یہ عذاب اب ندامت اور اعتراف کی وجہ سے نہیں ٹل سکتا ‘ نہ اب توبہ مفید ہے اس لئے کہ توبہ وندامت کا وقت چلا گیا ہے اور توبہ کا دروازہ بند ہے ۔

یہ منظر ابھی چل رہا ہے اور دنیا کی سطح پر وہ عذاب الہی سے کچلے جا رہے ہیں ‘ کہ اچانک دیکھنے والے اپنے آپ کو میدان حشر میں پاتے ہیں ‘ کوئی وقفہ درمیان میں نہیں ہے ۔ سیاق کلام ایک ریل پر چل رہا ہے جو جڑی ہوئی ہے اور منظر کے بعد منظر سامنے آتا ہے ۔ زمان ومکان کی طنابیں کھنچ جاتی ہیں اور دنیا وآخرت باہم مل جاتے ہیں ۔ عذاب دنیا ابھی ختم نہیں ہوا کہ آخرت کا عذاب شروع ہوجاتا ہے ۔ اچانک دوسرا منظر سامنے ہے۔

اردو ترجمہ

پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falanasalanna allatheena orsila ilayhim walanasalanna almursaleena

آیت ” فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِیْنَ أُرْسِلَ إِلَیْْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (6) فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْْہِم بِعِلْمٍ وَمَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ (7) وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یِظْلِمُونَ (9)

” پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں ۔ پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں ‘ آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔ “

یہ تصویر کشی کا انداز بیان قرآنی تعبیرات کا خاصہ ہے ۔ طرز تعبیر ہمیں لحظہ بھر میں پوری دنیا کی سیر کرا دیتا ہے ۔ پھر قرآن کی ایک سطر میں دنیا اور آخرت مل جاتے ہیں ۔ اور آغاز و انجام ایک ہوجاتے ہیں ۔

اس جہان میں تو یہ لوگ عذاب الہی سے دو چار ہیں اور اس جہان میں ان سے باز پرس ہو رہی ہے اور جب عذاب آگیا تھا اور وہ غفلت میں تھے تو پھر اچانک انہوں نے اعتراف کرنا شروع کردیا اور کہا آیت ” انا کنا ظلمین “۔ (بےشک ہم ظالم تھے) لیکن اس جہان میں ۔

آیت ” فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِیْنَ أُرْسِلَ إِلَیْْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (6)

” پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں ۔ “

یہ سوال نہایت ہی جامع ومانع ہے ۔ یہ رسولوں سے بھی ہوگا اور ان کی امتوں سے بھی ہوگا ۔ یہ سوال و جواب کھلی مجلس میں ہوگا ‘ ایک بڑے اجتماع میں اور اس میں تمام راز کھل جائیں گے ۔ امت دعوت سے سوال ہوگا اور ان کی جانب سے اعتراف ہوگا ‘ رسولوں سے بھی باز پرس ہوگی اور وہ جواب دیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کا ریکارڈ پوری تفصیلات کے ساتھ پیش کریں گے اس لئے کہ اللہ تو ہر چیز کے پاس تھا ‘ اس سے کوئی چیز غائب نہ تھی ۔ یہ نہایت ہی موثر ٹچ ہے۔

آیت ” وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ “۔ (7 : 8) ” اس روز عین حق ہوگا ۔ “ اس دن وزن کے اندر کوئی غلطی کا امکان نہ ہوگا اور نہ فیصلے میں کوئی غلطی ہوگی ۔ دنیا میں فیصلوں پر جو جدل وجدال اور واقعات ہوتے ہیں وہ نہ ہوں گے ۔

آیت ” فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) ”۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے “۔ اللہ کا ترازو سچا ہے ۔ اب وہ بھاری ہوگیا ہے لہذا آگ سے بچاؤ ہوگیا ۔ جنت کی طرف سفر شروع ہوگیا اور یہ اس طویل سفر کا آخری ٹھکانا ہے ۔

آیت ” وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یِظْلِمُونَ (9)

” اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔ “

اللہ کے ترازو میں غلطی کا امکان ہی نہیں ہے ۔ یہ لوگ گھاٹا کھا گئے ہیں ۔ اب تو کمائی کا وقت ختم ہے ۔ انسان اپنے لئے کماتا ہے ‘ جب خسارہ ہی ہوگیا کاروبار میں تو کیا کمائے گا اور کیا رہے گا ۔ انہوں نے کفر کیا ‘ اپنی جان ہی کو گنوا دیا ۔ کیونکہ آیات الہیہ کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے تھے ‘ جیسا کہ کہا گیا ظلم سے مراد شرک ہے کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے ۔ آیت ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ وزن اور میزان کی شکل کیا ہوگی ۔ اسلامی عقائد کی تاریخ میں اس پر بحثیں ہوچکی ہیں ‘ کیونکہ اللہ کے افعال کی شکل و صورت اور کیف وکم کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کی کوئی مثال نہیں ۔ آیت ” لیس کمثلہ شیء “ اس لئے ہم قرآن کے فرمان ہی پر اکتفا کرتے ہیں کہ اس دن حساب برحق ہوگا کہ انسان کے کسی بھی نیک عمل میں نہ کمی ہوگی نہ وہ شمار سے رہ جائے گا اور نہ ہی ضائع ہوگا ۔

اردو ترجمہ

پھر ہم خود پور ے علم کے ساتھ سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falanaqussanna AAalayhim biAAilmin wama kunna ghaibeena

اردو ترجمہ

اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalwaznu yawmaithini alhaqqu faman thaqulat mawazeenuhu faolaika humu almuflihoona

اردو ترجمہ

اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman khaffat mawazeenuhu faolaika allatheena khasiroo anfusahum bima kanoo biayatina yathlimoona

اردو ترجمہ

ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad makkannakum fee alardi wajaAAalna lakum feeha maAAayisha qaleelan ma tashkuroona

درس نمبر 73 تشریح آیات :

10۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 25۔

یہاں سے انسانیت کے عظیم سفر کا آغاز ہوتا ہے اور نسل انسانی کو کرہ ارض کا چارج دیا جاتا ہے ۔ یہ فقرہ قصہ انسانیت کے لئے ایک تمہید ہے ۔ تفصیلات آگے آرہی ہیں۔

آیت ” نمبر 10۔

اس زمین اور انسانوں کے خالق ہی نے یہاں انسانوں کو بسایا اور اسی نے زمین کے اندر وہ وسائل وخصائص پیدا کئے جو انسانی زندگی کے لئے سازگار ہیں جو انسانوں کے لئے قوت و ضروریات مہیا کرتے ہیں اور اس نگہداشت کرتے ہیں جن میں وسائل رزق ومعاش شامل ہیں۔

یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے کرہ ارض کو ایک ایسے مقام پر رکھا جو انسانوں کی نشوونما کے لئے ساز گار ہے ۔ زمین اپنی ترکیب ‘ حجم اور سورج و چاند سے اپنے متعین فاصلے اور سورج کے گرد اپنی گردش ‘ اور اپنے طور پر ایک طرف جھکاؤ اور اپنی گردش کی رفتار وغیرہ کے اعتبار سے انسانی زندگی کے لئے مفید ہے ۔ پھر یہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے اندر بےحد و حساب خزانے ودیعت کئے ہیں اور اس میں اکثر چیزیں انسان کی خوراک اور استعمال کے لئے فراونی سے پیدا کی ‘ جو اس انسان کے لئے یہاں نشوونما پانے اور ترقی کرنے کا سبب ہیں۔ پھر وہ اللہ ہی ہے جس نے جنس انسانی کو اس زمین کا سردار بنایا ہے ۔ وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان قوتوں کو تسخیر کرے اور انہیں اپنی آسائش کے لئے استعمال کرے پھر اللہ نے انسانوں کو ایسی عقلی قوت دی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اس کائنات کے بعض پوشیدہ رازوں تک رسائی حاصل کرلی ہے ۔ اور اس علم کو پھر وہ اپنی ضروریات کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔

اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ قوت نہ دیتا تو یہ ضعیف انسان اس کائناتی قوتوں کو ” تسخیر “ نہ کرسکتا (جس طرح قدیم وجدید جاہلیت کے علمبردار اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں) اور اس عظیم کائنات اور طویل و عریض دنیا کی قوتوں کا مقابلہ نہ کرسکتا ۔

دور جدید کی تہذیب پر رومی اور یونانی جاہلی افکار کی چھاپ لگی ہوئی ہے ۔ یہ جاہلی تصورات کائناتی قوتوں کو انسان کی دشمن قوتیں سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ قوتیں انسان کے وجود اور اس کی سرگرمیوں کی دشمن ہیں ۔ ان تصورات کے مطابق انسان اور کائناتی قوتوں کے درمیان مسلسل جنگ ہے ۔ اس لئے انسان جب اس کائنات کے بھیدوں میں سے کسی بھید کو جان لیتا ہے تو یہ لوگ اسے ” تسخیر فطرت “ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن یہ تصورات غلط ہیں اور پھر ان کے پس منظر میں خباثت بھی چھپی ہوئی ہے۔

اگر یہ کائناتی قوتیں انسان کی دشمن ہوتیں ‘ اس کی زندگی کا نقیض ہوتیں ‘ اس کے خلاف مورچہ زن ہوتیں ‘ اس کی مخالفت کرتیں ‘ اور ان کے پس منظر میں کسی مدبر ذات کا ارادہ کام نہ کر رہا ہوتا ‘ جس طرح ان لوگوں کا خیال ہے تو انسان سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا ۔ اگر پیدا ہوتا تو وہ اس کائنات کے اندر کسی طرح نشوونما نہ پاسکتا تھا ۔ کیونکہ ان تصورات کے مطابق یہ پورا جہان انسان کا دشمن ہے محض اس لئے کہ وہ وجود میں آگیا ہے ۔ لہذا وہ یہاں زندگی بسر کر رہا ہے ‘ یہ کوئی معقول توجیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر یہ پوری کائنات ہی انسان کی دشمن ہے تو وہ کس طرح یہاں چل سکتا ہے ۔ ان لوگوں کا تصور یہ تھا کہ یہ کائنات خود مختار ہے اور اس کے اوپر کوئی مقتدر اعلی نہیں ہے ۔

ان تصورات کے مقابلے میں اسلامی تصور کائنات ہی وہ حقیقی تصور ہے جو یہاں کائنات کے تمام اجزاء کی پوری پوری تشریح کردیتا ہے ۔ وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ وہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور یہ وہی اللہ ہے جس نے اس کائنات کے مزاج کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ اپنی ساخت کے اعتبار ہی سے انسان کے لئے ممدومعاون ہے ۔ انسان کے اندر اسی اللہ نے ایسی قوتیں ودیعت کی ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کائنات کی قوتوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرپاتا ہے ۔ یہ موافقت اور یہ ہم آہنگی ہی وہ قابل لحاظ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہر چیز کی تخلیق کو بہترین بنایا ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ کائنات کی یہ قوتیں باہم دگر برسر جنگ ہیں۔

اس اسلامی تصور کے مطابق انسان اس کائنات کے ساتھ باہم دوست کی طرح زندگی گزار رہا ہے ۔ ایک قوت مدبرہ یعنی باری تعالیٰ کی نگرانی میں ۔ اس کا قلب مطمئن ہے ۔ اس کا نفس خوش ہے ۔ اس کے قدم مضبوط ہیں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کرہ ارض پر اپنے فرائض خلافت انسانی کو سرانجام دے رہا ہے ۔ وہ کائنات کا انیس وہم نشیں ہے اور اللہ کا شکر گزار ہے کہ اس نے اس کائنات کا راز بخشا ہے ۔ جونہی وہ اس کائنات کے راز ہائے نہفتہ میں سے کوئی راز دریافت کرتا ہے ‘ جو اس کے فرائض کیلئے معاون ہوتا ہے تو اس کی ترقی آرام اور خوشحالی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

اس کائنات کے بارے میں یہ تصور جو اسلام دیتا ہے انسان کو اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ اس کائنات کے مزید راز معلوم کرے ۔ یہ تصور اسکی اس بات کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے نہایت ہی اطمینان اور خود اعتمادی کی کیفیت دیتا ہے کیونکہ اس کی حرکت ‘ ایک ایسے دوست کی ہمرکابی میں ہوتی ہے جو بخیل نہیں ہے جو اسے اپنے راز نہ بتاتا ہو۔ وہ اپنے تعاون اور امداد سے بھی ہاتھ نہیں کھینچتا ۔ اس کی وجہ سے انسان کا کسی ایسے دشمن سے رابطہ نہیں ہوتا جو ہر وقت مخالفت کرتا ہے اور راستے میں روڑے اٹکاتا ہے اور اسکی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھیرتا ہے ۔

فلسفہ وجودیت کا یہ عظیم المیہ ہے کہ اس کائنات کے بارے میں ایک برا اور خبیث تصور رکھتا ہے ۔ اس فلسفے کا تصور کائنات یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اور اس کے اندر انسان کا اجتماعی نظام انسانی کے انفرادی وجود کا دشمن ہے اور اس کائنات کا بوجھ اور پھر انسان کی اجتماعیت کا بوجھ انسان کے لئے تباہ کن ہے ۔ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ اس پر یقین رکھنے والا انسان رجعت پسندی ‘ عزلت نسبتی بلکہ عدم کے دامن میں لوٹ جاتا ہے یا پھر اس کے نتیجے میں انفرادیت اور خود سری اور سرکشی جنم لیتی ہے ۔ دونوں حالتوں میں ایک انسان بےچینی اور قلق میں مبتلا ہوتا ہے جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرسکتا عقل وخرد انسان کے لئے وبال بن جاتے ہیں۔ وہ عملی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے اور یا وہ سرکشی کی راہ اختیار کرلیتا ہے یاعدم کے صحرا میں گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے اور یہ دونوں حالتیں ایک ہی طرح کی مصیبت ہیں۔

یورپی افکار کے شعبہ وجودیت ہی کا یہ المیہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے پورے فلسفے کا بھی یہی المیہ ہے ۔ یورپ کے تمام مکاتب فکر اور رجحانات اسی المیہ میں گرفتار ہیں بلکہ ہر قسم کا جاہلی نظام ہر دور میں اور ہر معاشرے میں اس المیے سے دوچار ہوتا ہے ۔ اس المیے کا مقابلہ صرف اسلامی نظام فکر وعمل ہی کرتا ہے کیونکہ اسلام ہی انسان کو اس کائنات کے بارے میں ایک دوست زاویہ فکر دیتا ہے ۔ بلکہ وہ و رائے کائنات بھی ایک معقول تصور دیتا ہے ۔

انسان اس زمین کا بیٹا ہے ‘ وہ اس کائنات کی پیداوار ہے ۔ وہ اس زمین سے پیدا کیا گیا ‘ اسی میں پروان چڑھا ۔ اس کی بودوباش اور نشوونما کا انتظام اسی زمین میں ہے اور اسے یہاں ایسی عقلی قوت دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ اس جہان کے پوشیدہ رازوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور یہ راز اور قوتیں انسانی وجود کے لئے سازگار ہیں۔ جب ان رازوں تک انسان رسائل حاصل کرلیتا ہے تو یہ انسان کے معاون ہوتے ہیں اور اس کی زندگی کی تفسیر وتعبیر کرتے ہیں۔

لیکن انسان ! انسان کی اکثریت ناشکری ہے اس لئے کہ وہ اپنی جہالت اور جاہلیت میں گم گشتہ راہ ہے ۔ جو لوگ اس کائنات کے راز ہائے نہفتہ سے واقف ہوگئے ہیں وہ بھی حق شکر ادا نہیں کرتے ۔ وہ شکر وثنا بھی کیسے سکتے ہیں جب اللہ کو ان کی جانب سے یہ اعزاز قبول ہی نہیں ۔ (وہ انسانیت کے بجائے اپنی حیوانیت ثابت کرتے ہیں)

آیت ” وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (10)

” ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا ‘ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔ “

اب قصہ انسانیت کے دلچسپ واقعات بیان ہوتے ہیں ۔ ایک عظیم محفل میں انسانیت کی ولادت کی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔ یہ ملاء اعلی میں ایک عظیم الشان تقریب ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو ایک عظیم اور جلیل القدر بادشاہ ہے ‘ اس کی جانب سے تخلیق آدم کا اعلان ہوتا ہے ‘ خود بادشاہ کائنات اعلان کرتے ہیں ۔ یہ اس بندہ انسان کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ اس محفل میں تمام ملائکہ حاضر ہیں ۔ ان میں حضرت ابلیس بھی موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ دراصل فرشتہ نہیں تھا لیکن اس تقریب میں پوری کائنات اور اس کی مخلوقات موجود ہیں ‘ اس لئے کہ یہ نہایت ہی اہم واقعہ ہے اور عظیم الشان معاملہ ہے جس کی اہمیت پوری کائنات کی اسکیم میں مرکزیت کی حامل ہے ۔

اردو ترجمہ

ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqnakum thumma sawwarnakum thumma qulna lilmalaikati osjudoo liadama fasajadoo illa ibleesa lam yakun mina alssajideena

آیت ” نمبر 11 تا 18۔

یہ پہلا منظر ہے اس قصے کا ۔ نہایت ہی دلچسپ ‘ نہایت ہی اہم ۔ ہم اس قصے کے مناظر اس کی تفسیر سے پہلے پیش کریں گے ۔ ان مناظر سے فارغ ہونے کے بعد ہم اس قصے کے اشارات واثرات پیش کریں گے ۔

آیت ” وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11)

” بیشک ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداء کی ‘ پھر تمہاری صورت بنائی ‘ پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔

لفظ خلق کبھی تو محض وجود میں لانے کے لئے آتا ہے ۔ اسی طرح تصویر کا مفہوم کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو شکل و صورت اور خصائص دینا ۔ اس اعتبار سے خلق وتصویر کی تخلیق کے دو مرحلے نہیں ہوتے بلکہ بیک وقت کسی تخلیق میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ثم کا لفظ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لئے استعمال ہو ۔ یہ معنوی ترقی کے مفہوم میں بھی آتا ہے ۔ معنوی اعتبار سے محض وجود کے مقابلے میں مصور ہونا زیادہ ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ محض مادے پر بھی وجود کا اطلاق ہوتا ہے ۔ البتہ تصویر کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں مجرد وجود ہی نہیں بخشا گیا بلکہ ایک ترقی یافتہ مصور اور صاحب خصائص و کمالات وجود دیا گیا ہے ۔ دوسری جگہ آیت ” الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ جس نے ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر ہدایت دی “۔۔۔۔ ۔۔ اس لئے کہ اللہ نے ہر چیز کو اس کے خصائص اور اس کے مقاصد وفرائض اسی وقت دے دیئے تھے جس وقت انہیں پیدا کیا تھا اور تخلیق کے وقت ہی ہدایت کردی تھی کہ اپنے ان وظائف وفرائض کے لئے کام کرو ‘ اور تخلیق اور ہدایت کے درمیان کوئی زمانی فاصلہ نہ تھا ۔ اگر ہدایت سے مراد رب کی طرف ہدایت لی جائے تب بھی مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ تخلیق کرتے ہی اللہ نے انسان کو ہدایت کردی تھی ۔ اسی طرح آدم کو بھی خصائص انسانیت تخلیق کے وقت ہی دے دیئے گئے تھے ۔ اور ثم کا لفظ یہاں ترقی اور مرتبہ کی بڑائی کے معنوں میں ہے ۔ زمانہ ماقبل یا مابعد کے معنی میں نہیں ہے ۔ ہمارے خیال میں یہی مفہوم درست ہے ۔

بہرحال خلق آدم کے بارے میں جس قدر نصوص وارد ہیں اور اس کرہ ارض کے اوپر نسل انسانی کے بارے میں جس قدر آیات آئی ہیں ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے انسانی خصائص اور فرائض منصبی دے دیئے گئے تھے اور انسانی تاریخ میں جو ترقی نظر آتی ہے وہ صرف ان صلاحتیوں کے ظہور میں ہوئی ہے انسان کے تجربے اور اس کی مہارت میں اضافہ بہرحال ہوتا ہے ۔ یہ ترقی انسان کے وجود اور اس کی ذہنی صلاحیت میں نہیں ہوئی لہذا یہ فلسفہ بالکل غلط ہے جو ڈارون نے گھڑا ہے کہ انسان کی ساخت میں ترقی ہوتی رہی ہے۔

ڈارون کا یہ نظریہ کہ حیوانات کے انواع میں ترقی ہوتی رہی ۔ آثار قدیمہ اور پتھروں کی کھدائی پر مبنی ہے ۔ اور محض ظن وتخمین ہے ۔ طبقات الارض کے لحاظ سے بھی پتھروں اور پہاڑوں کی عمر کا تعین کوئی یقین امر نہیں ہے ۔ یہ محض ظنی اور تخمینی فیصلے ہیں۔ مثلا شعاعوں کے ذریعے ستاروں کی عمر معلوم کرنا ۔ یہ علوم جو محض ظن وتخمین اور مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرے مفروضے بھی ہوسکتے ہیں جو ان سے زیادہ معقول ہو سکتے ہیں ۔

اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پتھروں اور چٹانوں کی عمر یقینی طور پر متعین ہوگئی ہے تب بھی یہ ممکن ہے کہ قدیم زمانوں سے حیوانات کی مختلف اقسام اپنی موجودہ شکل میں تھیں ۔ ان ادوار میں ان کے لئے حالات ساز گار تھے لیکن بعد میں ان کے لئے حالات ساز گار نہ رہے اور ان کی نوع دنیا سے ختم ہوگئی ۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک نوع دوسری نوع کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ ہم دونوں کو مستقل انواع مان سکتے ہیں ۔ ڈارون کی کھدائیاں اور اس کے بعد دریافت ہونے والے انواع اس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں کرسکتے ۔ ان چٹانی تصاویر سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی ایک نوع سے زیادہ ترقی یافتہ نوع فلاں وقت میں موجود تھی اور اس بات کی تاویل کی جاسکتی ہے کہ اس وقت اس نوع کے وجود کے لئے حالات سازگار تھے اور بعد میں حالات ناساز گار ہونے کے باعث وہ نوع ختم ہوگئی اور اس کی جگہ دوسری قسم کے حیوانات وجود میں آگئے اور ترقی کر گئے ۔

اس لئے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوع انسانی روز اول سے ایسی ہی ہے جس طرح کہ آج ہے اور اسے اللہ تعالیٰ زمین پر اس وقت وجود میں لائے جب یہاں کے حالات انسان کے لئے ساز گار بنا دیئے گئے ۔ تمام قرآنی نصوص اسی بات کی تائید کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ انسانی طبیعیاتی ‘ عضویاتی اور عقلی و روحانی اعتبار سے اس قدر منفرد ہے کہ دور جدید کے ڈارونی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں کہ انسان کسی دوسری نوع کی ترقی پذیر نوع نہیں ہے اور وہ کسی دوسری نوع کے ساتھ عضویاتی مماثلت نہیں رکھتا ۔ حالانکہ ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو سرے سے ذات باری کے قائل ہی نہیں ہیں اور ان کی جانب سے یہ ایک قسم کا اعتراف ہے کہ انسان کا وجود اور اس کی نشوونما بالکل منفرد ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا اعلان فرشتوں کے اجتماع میں کیا اور یہ اجتماع عالم بالا میں منعقد ہوا ۔

آیت ” ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11)

پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔

ملائکہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مستقل مخلوق ہے اور ان کے اپنے خصائص وفرائض ہیں ۔ ہم ان کے بارے میں اسی قدر جانتے ہیں جس قدر اللہ نے ہمیں بتایا ہے ۔ ظلال القرآن میں ہم اس سے قبل فرشتوں کے بارے میں ایک نوٹ دے آئے ہیں ۔ اسی طرح ابلیس بھی ایک مستقل نوع کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ۔ قرآن میں کہا گیا ہے کان من الجن نفسق عن امر ربہ ” یہ جنوں میں سے تھا ‘ اس نے اپنے رب کی حکم عدولی کی “۔ جنات فرشتوں سے الگ ایک مخلوق ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں اللہ نے بتایا ہے ۔ ان کے بارے میں بھی ہم نے ایک مجمل حاشیہ اسی پارے میں دے دیا ہے ۔ اس سورة میں آگے جا کر یہ بات آئے گی کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اس لئے وہ ملائکہ سے الگ ایک مخلوق سے وابستہ ہے ۔ ابلیس کو بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا تھا اس لئے کہ یہ زمرہ ملائکہ میں شامل تھا اور اس وقت وہ عالم بالا کی اس محفل میں موجود تھا ‘ جہاں تخلیق آدم کی تقریب ہوئی ۔

رہے فرشتے تو وہ تو ایسی مخلوق ہیں جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے مطیع فرمان ہو کر سجدہ کردیا اور اللہ کے حکم کی تعمیل کردی ۔ کیونکہ وہ کسی معاملے میں نہ تردد کرتے ہیں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ وہ اللہ کی نافرمانی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ‘ چاہے کوئی سبب اور کوئی جواز ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ان کا مزاج ہے ۔ یہ اطاعت شعاری ان کی خصوصیت ہے اور یہ انکے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت انسان کی ذات کس قدر مکرم ہے اور یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ فرشتے اللہ کے مطیع مطلق ہیں ۔

رہا ابلیس تو اس نے امتثال امرنہ کیا اور نافرمانی کردی۔ یہ بات آگے آرہی ہے کہ کس وجہ سے اس کے دل میں خلجان پیدا ہوا ۔ اس پر کیا خیالات چھاگئے جس کی وجہ سے اس نے نافرمانی کی جرات کی ؟ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اللہ رب العالمین ہے اور خود اس کا بھی خالق ہے ۔ وہ اس کے امور اور خود اس کے وجود کا بھی مالک ہے ‘ اسے ان معاملات میں کوئی شک نہیں تھا ۔

اس منظر میں اللہ کی مخلوقات کے تین نمونے پائے جاتے ہیں ۔ ایک نمونہ وہ ہے جو ہر لحاظ سے مطیع فرمان ہے اور اس کی فطرت میں تعمیل امر ہے ۔ دوسرا نمونہ ہے جو مکمل طور پر نافرمان ہے اور اس کی فطرت میں استکبار اور نافرمانی ہے۔ تیسری مخلوق انسانی مخلوق ہے ۔ اس کی صفات ‘ اس کی کمزوریوں اور کمالات پر بھی عنقریب بات ہوگی ۔ پہلی قسم کی مخلوق خالص الہی مخلوق ہے اور انہوں نے اپنا فرض اس محفل ہی میں پوری طرح ادا کردیا ۔ دوسری دو قسم کی مخلوقات کے بارے میں عنقریب تفصیلات آئیں گی کہ ان کے رجحانات کیا ہیں ؟

151