سورۃ العصر (103): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Asr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العصر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ العصر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Asr
سُورَةُ العَصۡرِ
صفحہ 601 (آیات 1 سے 3 تک)

سورۃ العصر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ العصر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

زمانے کی قسم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalAAasri

سوال یہ ہے کہ ایمان کیا چیز ہے ؟.... ہم یہاں ایمان کی فقہی تشریح وتعریف نہیں کرتے۔ ہماری بات ایمان کے مزاج ، اس کی قدروقیمت اور زندگی پر اس کے اثرات تک محدود ہے۔

ایمان دراصل وہ رابط ہے جو یہ چھوٹی ، محدود ، انسانی مخلوق ، اس حقیقت کے ساتھ قائم کرلیتی ہے جو ازلی ، ابدی اور باقی رہنے والی ہے اور جو اس کائنات کی اصل ہے اور جس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ انسانی مخلوق اس حوالے سے اس کائنات کے ساتھ بھی مربوط ہوجاتی ہے کہ دونوں کا خالق ایک ہے ، اور پھر یہ حضرت انسان ان قوانین قدرت سے بھی مربوط ہوجاتا ہے جن کے مطابق یہ جہاں چلتا ہے اور انسان ان قوتوں سے بھی مربوط ہوجاتا ہے جو اس کائنات میں عمل پیرا ہیں اور انسان اپنی حقیر اور محدود ذات کے خول سے باہر آکر کائنات کی وسعتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی محدود قوت کی حدود سے نکل کر ، ان ” لامحدود قوتوں میں داخل ہوجاتا ہے ، جو اس کائنات کے اندر پائی جاتی ہیں اور یہ کائنات انسان کے مقابلے میں اس قدر بڑی ہے کہ اس کی حدود ہی انسان کے علم سے باہر ہیں ، پھر انسان اپنی محدود عمر کے دائرے سے نکل کر قیام اور قیامت کے بعد آنے والے زمانوں کے لامحدود زمانوں میں داخل ہوجاتا ہے۔

مخلوق انسانی کا یہ رابط جو قوت ، جو وسعت ، جو آزادی عطا کرتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ، مزید اس کو یہ ذوق بھی عطا کرتا ہے کہ یہ انسان اس پوری کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے حسن و جمال سے بھی لطف اٹھا سکے۔ اور ان مخلوقات کو بھی دیکھ سکے جو اس کی روح کے ساتھ محبت کرنے والی ہے۔ اس رابطے کی وجہ سے زندگی کا مختصر سفر انسان کے لئے ایک تفریحی سفر بن جاتا ہے یا کسی نمائش کی ایک سیر بن جاتی ہے جو اللہ نے اس انسان کے لئے ہر مقام ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں سجارکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے ، اعلیٰ درجے کی خوشی اور تفریح ہے اور اس پوری کائنات کے ساتھ ایک دوستی ہے ، اور یہ وہ دولت ہے جس کے مقابلے میں کسی اور دولت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان بھی ہے کہ اگر کوئی اس سے محروم ہوجائے تو اس سے بڑا نقصان اور گھاٹا اور کوئی نہیں ہے۔

پھر ، ایمان کے بنیادی عناصر بھی وہ ہیں جو انسانیت کے بھی بنیادی عناصر ترکیبی ہیں :

(1) ایک الٰہ کی بندگی سے انسان کو صرف ایک الٰہ واحد کے علاوہ تمام اطاعتوں ، بندگیوں اور پرستشوں سے نجات ملتی ہے۔ یوں انسانوں کے اندر یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ تمام بندے ایک مقام رکھتے ہیں اور باہم مساوی ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی معقول رویہ نہیں ہے کہ ایک انسان کو آزادی کی حقیقی نعمت نصیت ہوتی ہے ! یہ وہ آزادی ہوتی ہے جو انسانی ضمیر سے پھوٹتی ہے اور اس تصور سے پھوٹتی ہے جو بطور حقیقت وافعیہ موجود ہو اور وہ تصور یہ ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک حقیقی قوت ہے اور ایک ہی حقیقی معبود ہے۔ چناچہ اس تصور حیات وتصور کائنات کا طبعی تقاضا یہ ہے کہ انسان آزاد ہو اور اس عقیدے کا منطقی نتیجہ بھی یہی ہے کہ انسان آزاد ہو۔

(2) انسان میں ربانیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنے تمام تصورات ، اپنی تمام قدریں اور پیمانے اپنی تمام ترجیحات ، اپنا تمام دستور اور قانون اللہ سے اخذ کرتا ہے۔ اور اس کے روابط اللہ سے ، اس کائنات سے ، اور لوگوں سے اللہ کے احکام وقوانین کے مطابق ئام ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی سے اس کی ذاتی خواہش اور اس کی ذاتی مصلحتیں معدوم ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ اللہ کی شریعت اور عدل لے لیتا ہے۔ مومن کے شعور میں اس کے نظام زندگی کی قدر و قیمت بلند ہوجاتی ہے ، اس کی شخصیت جاہلیت کے تصورات اور اقدار سے بلند ہوجاتی ہے۔ جاہلی ترجیحات ختم ہوجاتی ہیں اور وہ تمام رابطے ختم ہوجاتے ہیں جو زمین اور اس دنیا اور مادی تصورات پر مبنی ہوں۔ اگرچہ یہ انسان ایک فرد ہو ، اس لئے کہ ایک مومن فرد بھی اپنے تصورات ، اپنی قدریں اور اپنی ترجیحات براہ راست اللہ سے لیتا ہے ، کیونکہ یہ قدریں ہی زیادہ برتر ، زیادہ محترم اور زیادہ انتقاع اور قابل لحاظ ہوتی ہیں۔

(3) ایمان کے نتیجے میں خالق و مخلوق کے تعلق کا بھی تعین ہوجاتا ہے۔ الوہیت اور بندگی ، خدائی اور عبودیت کے مقام کا بھی تعین ہوجاتا ہے اور یہ تعلق صاف وستھرا ہوکر سامنے آتا ہے۔ یہ تعلق جو ایک فانی انسان کو ایک لافانی ذات سے جوڑتا ہے۔ بڑی سادی اور قابل فہم انداز میں متعین اور واضح ہوجاتا ہے اور اس راہ میں انسان کو کسی واسطے کی ضرورت نہیں رہتی۔ تعین مراتب سے دل میں نور اور روح میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ نفس انسانی میں محبت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ تردد ، خوف ، قلق ، اضطراب ختم ہوجاتے ہیں۔ مراتب کی اس وضاحت سے انسان ناحق استکبار بھی نہیں کرتا اور نہ افترا پروازیاں کرکے ، من گھڑت تصورات کے بل بوتے پر دوسرے انسانوں پر اپنے لئے برتر مقام کا دعویٰ کرتا ہے۔

(4) ایمان کی وجہ سے اہل ایمان کو اسلامی نظام حیات پر استقامت نصیب ہوتی ہے۔ پس مومنین کے ہاں بھلائی کوئی عارضی امر نہیں ہوتا نہ کوئی اتفاقی منفرد حادثہ ہوتا ہے ، بلکہ اسلامی نظام ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کے حقیقی اسباب ہوتے ہیں اور اس کے کچھ حقیقی مقاصد ہوتے ہیں اور اسلامی نظام کو چلانے والے باہم فی اللہ مربوط لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں سے ایک سلیم جماعت تشکیل پاتی ہے ، جس کا ایک ہی مقصد ہے ، ایک ہی ممتاز جھنڈا ہوتا ہے۔ یہ جماعت ایک تاریخی جماعت ہوتی ہے اور اس کی گزشتہ رفتہ نسلیں بھی آنے والی نسلوں سے مربوط ہوتی ہیں اور آنے والی نسلیں ماضی سے مربوط ہوتی ہیں اور یہ تعلق ایک مضبوط تعلق ہوتا ہے۔

(5) اس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ انسان نہایت مکرم ہے۔ انسان خود اپنی نظروں میں بلندہوجاتا ہے اور مومن کے ضمیر میں یہ حیاجاگزیں ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے نتیجے میں وہ اس مرتبہ سے گر جائے ، جس کی طرف اللہ نے اسے اٹھایا ہے اور یہ وہ اعلیٰ وارفع مقام ہے جس تک پہنچنے کا کوئی انسان تصور نہیں کرسکتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں معزز ہے۔ ہر وہ مذہب یا فلسفیانہ تصورجو انسان کو خود اپنی نظر میں گراتا ہے اور اس کو ایک حقیر مخلوق قراردیتا ہے جو معتبر انداز میں بعد پیدا ہوئی۔ وہ دراصل انسان اور عالم بالا میں دوری پیدا کرتا ہے اور اس قسم کا مذہب یافلسفہ انسان کو گراتا ہے اور اس کو گراوٹ کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگرچہ وہ اسے یہ بات بصراحت نہ کہے۔

چناچہ ڈارون اور فرائیڈ کے فلسفے اور مارکسی نظام وہ بدترین فلسفے اور نظام تھے جنہوں نے انسان کو بدترین مصیبت میں مبتلا کیا اور اسے انسانیت ، فطرت اور انسانی لحاظ سے غلط رخ دیا اور اسے یہ باور کرایا کہ ہر گراوٹ ، ہر گندگی اور ہر حقارت دراصل انسانی زندگی کا طبعی اور لازمی حصہ ہے۔ یہ کوئی قابل تعجب بات ہی نہیں ہے ، لہٰذا اس میں شرمندہ ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ چناچہ یہ فلسفے اور یہ نظام دراصل انسانیت کے خلاف ایک گھناﺅنا جرم ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان سے نفرت کی جائے۔ (سید کی روح کیا آپ کو یہ اطلاع مل چکی ہے کہ مارکسیت کے تمام بت اشرا کی دنیا سے گرادیئے گئے ہیں) ۔

(6) فقط تصور کہ انسان اللہ کے نزدیک ایک مکرم مخلوق ہے ، انسانی شعور کو پاک وصاص کردیتا ہے ، پھر یہ تصور کہ اللہ سب کا نگران ہے اور وہ علیم بذات الصدور ہے۔ اس سے بھی انسانی شعور صاف ہوتا ہے ، ایک سلیم الفطرت انسان جس کی فطرت کو کارل مارکس ، فرائیڈ جیسے لوگوں کی تحریروں نے مسخ نہ کردیا ہو ، وہ اس بات سے حیا کرتا ہے کہ اس جیسا دوسرا انسان اس کے دل کے رازوں اور اس کے برے خیالات پر مطلع ہو۔ اور ایک سچا مومن جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے سینے کے تمام رازوں اور دفینوں سے اللہ باخبر ہے۔ وہ اس تصور سے کانپ اٹھتا ہے کہ اس کے دل میں یہ یہ خیالات ہیں۔ اس سے وہ اپنے شعور ، احساسات چھوڑتا ہے اور دل کی بھی صاف کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان پیدا ہوتے ہی انسان کے اندر ایک اخلاقی حسن پیدا ہوجاتی ہے وہ ایمان رکھتا ہے کہ ایک الٰہ ہے جو عادل ، رحیم کریم اور درگزر کرنے والا ہے۔ حلیم ہے اور محبت کرنے والا ہے ، وہ شر کو پسند نہیں کرتا ، خیر کو پسند کرتا ہے ۔ وہ آنکھوں کے خائن کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا ہے۔

(7) پھر یہ تصور کہ انسان کو ارادے کی آزادی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی جانب سے اس کو مکمل نگرانی ہورہی ہے ، اور اس کے نتیجے میں ایک کے اندر احساس اور بیداری پیدا ہوجاتی ہے اور جو سمجھ داری اور تدبر پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور ہر بھلائی کا یہ حق ہے کہ اس کے حوالے سے انسان ایک ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے اور دوسرے انسانوں کے حوالے سے بھی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اور یہ ذمہ داری اللہ کے سامنے ہے۔ اس لئے جب ایک مومن کوئی بھی حرکت کرتا ہے تو اس کا احساس و شعور یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے اور ہر قدم پر اپنے دل میں سوچتا ہے اور قدم اٹھانے سے پہلے ہی نتائج پر غور کرلیتا ہے۔ اس لئے کہ اس تصور کے مطابق انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے اس دنیا میں ایک پوزیشن حاصل ہے۔ اس لئے اس کائنات کے نظام میں وہ ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔

(8) ایمان کے آثار میں سے ایک اہم اثر یہ ہے کہ ایک مومن دنیا کے مفادات پر اس طرح نہیں ٹوٹ پڑتا جس طرح کتے ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایمان کے اشارات واثرات میں سے ایک اشارہ اور اثریہ ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو اختیار کرتا ہے جو اللہ کے نزدیک اعلیٰ مقصدیت رکھتی ہو ، اور جو ” خیر “ ہو اور باقی رہنے والی ہو۔

وفی ذلک ............................ المتنافسون (26:83) ” مقابلے کرنے والے لوگ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو بھلائی میں مقابلہ کریں “۔ اللہ کے ہاں جو انعامات ہیں ان میں باہم مقابلہ انسان کو اس دنیا سے بلند کرتا ہے ، اس کے قلب کی تطہیر کرتا ہے اور انسان صاف وستھرا ہوجاتا ہے۔ نیز اس سے ایک مومن کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ دنیا کی سرحدوں سے نکل کر آخرت میں بھی سرگرم ہوتا ہے۔ زمین کے ساتھ ساتھ وہ عالم بالا میں بھی جو لانی دکھاتا ہے اور یہی بات اس کے اندر یہ قوت پیدا کرتی ہے کہ وہ نتائج پرواہ کیے بغیر نیکی کرتا چلا جائے یانتائج کے بارے میں عجلت نہ کرے۔ اس لئے کہ وہ بھلائی اس لئے چاہتا ہے کہ وہ بھلائی ہے اور اس لئے کہ اللہ کی مرضی اسی طرح ہے ، یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس چھوٹی سی محدود عمر میں بھلائی کے نتائج بھی نکلیں۔ اس لئے کہ جس اللہ کے لئے یہ بھلائی کی جارہی ہے وہ زندہ ہے ، وہ مرتا نہیں ہے۔ وہ بھولتا نہیں ، وہ کسی چیز سے غافل نہیں۔ پھر یہ دنیا حقیقی دار الجزاء بھی نہیں ہے اور تمام حسابات اس جہاں ہی میں چکنے والے نہیں۔ لہٰذا مومن خیر کو جاری رکھنے کے لئے اس سرچشمے سے مدد لیتا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ خیر کی تحریک جاری رہتی ہے۔ یہ کوئی وقتی جوش نہیں ہوتا اور نہ کوئی انفرادی واقعہ ہوتا ہے۔ یہی ایمانی جذبہ ہے جس کی وجہ سے ، ایک مومن کے اندر اس قدر قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے رشتہ کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے ، چاہے یہ شر کسی ایک ڈکٹیٹر اور سرکش کی صورت میں ہو یا جاہلی تصورات وترجیحات کے دباﺅ کی شکل میں ہو ، یا انسان کی خواہشات نفس کی صورت میں ہو۔ یہ انفرادی دباﺅ کسی فرد پر یوں پڑتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ دنیا مختصر ہے ، عمر قلیل ہے اور اس میں عیس و عشرت کرلینا چاہیے۔

بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

یا یہ اس قدر مختصر ہے کہ اس میں نیکی کے نتائج نہیں نکل سکتے۔ اور ہمارے لئے یہ چانس نظر نہیں آتا کہ ہم باطل پر ، حق کا غلبہ دیکھ سکیں۔ اس لئے ایمان اس صورت حالات کا علاج کرتا ہے اور بنیادی علاج۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان ہی زندگی کی اساس ہے ، زندگی کی جڑ ہے اور اس سے بھلائی کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں اور اس کا ہر پھل انہی جڑوں سے معلق ہوتا ہے۔ اور اگر ایمان نہیں ہے تو گویا درخت کی جڑ کٹ گئی ہے اور اس کی تمام شاخیں مرجھا کر خشک ہوجائیں گی اور اگر وہ خشک نہ ہوں تو پھر وہ شیطانی پھل ہوگا اور اس کو دوام اور فروغ حاصل نہ ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ مرکز اور محور ہے جس کے ساتھ اعلیٰ زندگی کی تمام تاریں مربوط ہیں اور اگر ایمان نہیں ہے تو زندگی ایک غیر مربوط حرکت ہے اور ایمان کے بغیر اس زندگی کو کوئی ثبات وقرار نہیں ہے۔ خواہشات اور میلانات جدھر جائیں ، کسی کو کھینچ لے جائیں۔

ایمان دراصل ایک نظام ہے اور اس کی وجہ سے تمام متفرق اعمال ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ اعمال باہم ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ ایک سمت میں ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی حرکت ، ایک ہی محرک ، اور ایک ہی ہدف رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم ہر اس عمل کو کالعدم قرار دیتا ہے جو اس اصل پر مبنی نہ ہو۔ جو اس محور کے گرد نہ گھومتا ہو اور جو سرچشمہ ایمان سے نہ پھوٹتا ہو۔ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام عقائد اس معاملہ میں بالکل اوپن اور صریح ہے۔ سورة ابراہیم میں ہے۔

مثال الذین ............................ شیء (18:14) ” جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے کہ تیز وتندآندھی ایک طوفانی دن میں اسے اڑائے پھرے۔ جو اعمال بھی انہوں نے کئے تھے ان میں سے وہ کچھ نہ پاسکیں گے “۔ اور سورة نور میں ہے :

والذین ................................ شیئا (39:24) ” جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے چٹیل میدان میں سراب ، پیاسا اسے پانی خیال کرے لیکن جب اس کے پاس پہنچے تو وہاں کچھ نہ پائے “۔ یہ نصوص بصراحت بتارہی ہیں کہ اعمال جب تک ایمان پر مبنی نہ ہوں ، اسلام میں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ اعمال کی تہہ میں جذبہ یہ ہونا چاہئے کہ خالق کائنات نے یہ حکم دیا ہے اور ان کا مقصد اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ اور یہ منطقی نتیجہ ہے اس عقیدے کا جو تمام امور کو اللہ کی طرف لوٹاتا ہے اس لئے جس عمل کا تعلق ایمان سے کٹ گیا وہ اپنا مفہوم اور قیمت کھو بیٹھا۔ (استاد محمد عبدہ ، نے آیت فمن ................ برہ (8:99) ” جو ذرہ برابر نیکی کرے گا ، اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر بدی کرے گا اسے دیکھ لے گا “ کے تحت لکھا ہے کہ ” بعض علما نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ کافر کو اس کی کوئی نیکی قیامت میں نفع نہ دے گی اور اس کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی ، لیکن یہ ایک بنیادی بات ہے “۔ ہم سمجھتے ہیں یہ مسئلہ اجماع کا نہیں قرآن کی صریح نصوص کا ہے اور قرآن وسنت اس معاملہ میں بالکل واضح ہیں۔ (سید قطب)

ایمان اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب ایمان کی فطرت درست ہے اور اس کی شخصیت کی ساخت صحیح سالم ہے اور وہ اس پوری کائنات کے ساتھ ہمقدم ہے۔ اور وہ اپنے ماحول میں پائے جانے والی فطرت کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس لئے وہ اس کائنات میں زندہ رہ رہا ہے۔ اور جس مومن کی شخصیت صحیح سالم ہوتی ہے اس کے اور ان کائنات کے درمیان ایک توافق ہوتا ہے اور یہ توافق اور یہ اتحاد صرف ایمان کا ثمرہ ہوتا ہے کیونکہ اس کائنات میں ایسے دلائل واشارات موجود ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ ایک ہی دست قدرت صانع کائنات ہے اس لئے انسان اور کائنات کے درمیان سے یہ توافق ختم ہوجائے تو یہ بات اس پر دلیل ہوہگی کہ اس انسان کی شخصیت میں خلل آگیا ہے اور انسان کی وہ صلاحیت ختم ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کائنات سے دلائل واشارات اخذ کرتا ہے اور اس فساد کی وجہ سے انسان گھاٹے ہی میں رہے گا۔ اگرچہ بظاہر کچھ اعمال نیکی کی چھاپ والے معلوم ہوتے ہیں لیکن ایمان نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعمال ناقابل قبول ہوں گے .... غرض مومن کی دنیا وسیع ، جامع ، لمبی ، بلند ، خوبصورت اور کامیاب ہوتی ہے۔ جس کے مقابلے میں ان لوگوں کی دنیا جو مومن نہیں ہیں ، چھوٹی ، حقیر ، گری ہوئی ، کمزور اور نامراد اور بدبختی پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ اور انجام خسران اور نامرادی ہوتا ہے۔

وعملوالصلحت (3:103) ” اور نیک اعمال کرتے رہے “۔ نیک عمل درحقیقت ایمان کا قدرتی پھل ہوتا ہے اور جب ایمان کسی قلب میں جاگزیں ہوتا ہے تو عمل صالح اس کی ذاتی حرکت ہوتی ہے (جس طرح دل متحرک ہوتا ہے) لہٰذا ایمان ایک متحرک اور مثبت حرکت کا نام ہے جونہی وہ کسی شخصیت میں بیٹھتا ہے تو وہ عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے ایمان ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلام میں کسی ایسے ایمان کا تصور نہیں ہے۔ جو بجھا ہوا ہو اور جس کے نتیجے میں کوئی حرکت نہ پیدا ہوتی ہو ، جو پوشیدہ ہو اور زندہ شکل میں مومن کی ذات سے باہر نہ آتا ہو ، اگر اس کے اندر اس قسم کی طبعی حرکت نہ ہو تو وہ ایمان کھوٹا اور مردہ ایمان ہے ، ایمان تو ایک پھول ہے جس کی خوشبو کو روکا نہیں جاسکتا۔ جہاں پھول ہوگا ، اس سے خوشبو پھوٹتی رہے گی۔ اور اگر کسی شخص میں ایمان کی بو نہیں ہے تو گویا وہ موجود ہی نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان حرکت ، عمل اور تعمیر کا نام ہے۔ اور یہ سب امور اللہ کی طرف سے متوجہ ہوتے ہیں۔ ایمان میں سکیڑ نہیں ہے ، نہ وہ منفی چیز ہے۔ نہ وہ ضمیر کی تہوں میں جاگزیں ہوتا ہے۔ نہ ایمان نیک خواہشات کا نام ہے۔ جن کی پشت پر کوئی حرکت نہ ہو ، یہ اسلام کا کھلا مزاج ہے جو اسلام کو ایک اعلیٰ تعمیری ذات بنا دیتا ہے اور یہ قوت عملی زندگی کے اندر کی مرکزی قوت محرکہ ہوتی ہے۔

یہ ہے مفہوم اس بات کا کہ ایمان کو اسلامی نظام حیات کے ساتھ متعلق ہونا چاہئے ، اسلامی نظام حیات چونکہ ایک مسلسل حرکت کا نام ہے ، جو اس پوری کائنات میں چل رہی ہے ، اور یہ حرکت ایک قوت مدبرہ نے پیدا کی ہے اور اس کا ایک ہدف ہے اور انسانیت قیادت ایمان کے ہاتھ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی قیادت وجود میں لائی جائے جو حرکت کا ایک ایسا منہاج وجود میں لائے جو اس پوری کائنات کے مزاج کے مطابق ہو ، بالفاظ دیگر ایک اچھی ، پاک تعمیری جدوجہد کو برپا کرنا جو اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نظام زندگی کے شایان شان ہو۔

وتواصو ........................ بالصر (3:103) ” جو ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں “۔ حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کے اعمال میں سے امت مسلمہ کے خدوخال اچھی طرح واضح ہوتے ہیں۔ امت مسلمہ ہی کے خطوط پر جماعت مسلمہ بھی قائم ہوتی ہے ۔ اس کا ایک خاص وجود اور شخصیت ہوتی ہے۔ اس کے افراد کے درمیان ایک امتیازی رابطہ ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کی سمت ایک ہوتی ہے ، اس امت یا جماعت کو اپنے وجود کا شعور بھی ہوتا ہے ، اور اس کے جو فرائض ہیں وہ بھی اس کے پیش نظر ہوتے ہیں ، اور یہ امت یہ جانتی ہے کہ اس نے ایمان اور عمل صالح کے حوالے سے کیا کچھ کرنا ہے ؟ اور وہ جانتی ہے کہ ایمان وعمل صالح کے زاویہ سے اس نے پوری انسانیت کی قیادت بھی کرنی ہے ، لہٰذا ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے امانت کبریٰ کو لے کر اٹھنا ہے۔

غرض لفظ ” تواصی “ اور اس کے اس مفہوم ، اس کے مزاج اور حقیقت ہی میں سے امت مسلمہ کا وجود نمودار ہوتا ہے ، یا ایک باہم متحد جماعت کا تصور ابھرتا ہے۔ یعنی ایسی امت جو ممتاز ہو ، جو دانش مند ہو ، جو اس کرہ ارض پر سچائی ، بھلائی اور عدل و انصاف کے قائم کرنے کی ذمہ دار ہو۔ یوں امت مسلمہ کی یہ نہایت ہی اعلیٰ اور خوبصورت تصویر ہے۔ اسلام اس طرح کی امت چاہتا ہے ، ایک ممتاز ، قوی ، دانش مند اور حق اور بھلائی کی نگرانی کرنے والی امت۔ جس کے افرادایک دوسرے کو ہر وقت حق کی نصیحت کرتے ہوں اور صبر کی تلقین کرتے ہوں۔ باہم محبت اور تعاون سے زندگی بسر کرتے ہوں ، ان کے درمیان ایک خصوصی اخوت کارفرما ہو۔ جسے قرآن مجید وصیت سے تعبیر کرنا ہے۔

حق کی تلقین اس لئے ضروری ہے کہ حق کو لے کر چلنا ایک دشوار کام ہے ، اس دنیا میں بیشمار ایسے عوامل ہیں جو انسان کو سچائی کی راہ سے دور لے جاتے ہیں۔ خواہشات نفسانیہ ، مصلحتیں ، قومی اور خاندانی تصورات ، سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے مظالم ، ظالموں کے ظلم ، حد سے گزرنے والوں کے تجاوز اور تعدیاں وغیرہ۔ ایک دوسرے کو نصیحت کرنے سے دراصل یاددہانی ہوجاتی ہے۔ انسان کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اغراض ومقاصد کے لحاظ سے افراد جماعت کے درمیان اتحاد اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اور ذمہ داریاں اٹھانے میں دراصل ایک دوسرے کا بوجھ اٹھایا جاتا ہے۔ نصیحت سے تمام انفرادی رجحانات کٹھے ہوکر کئی گنا ہوجاتے ہیں اور وہ تمام لوگ جو سچائی کے نگران اور حامی ہوتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ حق اور صداقت کی حفاظت کے کام میں میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں۔ جو اس کو نصیحت کرتے ہیں ، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس سے محبت کرتے ہیں ، اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اور یہ کبھی اسے شرمندہ ہونے نہ دیں گے۔ یہدین ہی دراصل حق ہے اور اس دین کی حفاظت ایک جماعت ہی کرسکتی ہے۔ جو باہم متعارف ہو ، باہم کفیل ہو ، اور ایک دوسرے کی معاون ہو اور ایک دوسرے کی کمزوریاں پوری کرنے والی ہو۔

اور صبر کی تلقی بھی بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ ایمان وعمل صالح پر گامزن رہنا اور حق و انصاف کی نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس میں صبر اور مصابرت اور نفس کے اندر کے عوامل کے خلاف سخت جہاد کی ضرورت ہے اور نفس سے باہر کے عوامل کے خلاف جہاد کی بھی ضرورت ہے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر ومشقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح باطل کے استکبار اور فخر پر صبر کرنا ، راستے کی طوالت پر صبر کرنا اور کامیابی کی سست روی پر صبر کرنا اور راستے کے نشانات کا ناپید ہونا اور مٹ جانا اور ان پر صبر کرنا۔

صبر کی تلقین سے انسانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر ایک اجتماعی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب کا ہدف واحد ہے ، رخ ایک طرف ہے ، اس طرح اس سے سب کو ایک سہارا ملتا ہے۔ کارکن اس راہ میں کام کرتے ہوئے باہم شیروشکر ہوجاتے ہیں اور نہایت عزم ، ثابت قدمی اور اپنے مقصد پر اصرار کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ نیز اس سے کئی اور اجتماعی صفات بھی پیدا ہوتی ہیں او یہ کئی اسلامی جماعت کے استحکام کے لئے ضروری ہیں کیونکہ اسلام جماعتی فضا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسلام کا ظہور بھی ایک سوسائٹی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی سوسائٹی ہی نہیں ہے تو اسلام نہ ہوگا اور یہ سراسر خسارہ ہوگا۔

قرآن نے ہمارے لئے جو دستور واضع کیا اور جس کے مطابق کسی سوسائٹی کو ایک کامیاب اور خسران دنیوی اور اخروی سے محفوظ قرار دیا ہے۔ اگر ہم اس دستور کی عینک لگا کر اس وقت دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے دنیا کی یہ خوفناک تصویر آئے گی کہ اس وقت پوری دنیا مکمل خاسرے سے دوچا رہے۔ اس خسارے کا زیادہ خوفناک پہلو یہ ہے کہ آخرت سے بھی پہلے ہم محض دنیاوی نقطہ نظر سے بھی سخت خسارے میں پڑچکے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت نے اس بھلائی سے مکمل روگردانی اختیار کرلی ہے ، جس کے فیوض وبرکات اللہ نے انسانوں کے لئے عام کردیئے تھے۔ نیز اس دنیا سے وہ اقتدار اعلیٰ ختم ہوچکا ہے جو ایمانی اور اسلامی ہو ، جو بھلائی اور حق و انصاف کے اصول پر قائم ہو۔ اس تصویر کا نہایت ہی بھدا پہلو یہ ہے کہ مسلمان یا زیادہ صحیح الفاظ میں وہ لوگ جو اس زمین پر بسنے والے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں ، اس بھلائی اور خیر سے بہت دور پڑگئے ہیں ، وہ اس نظام زندگی سے بہت دور ہوگئے جو اللہ نے ان کے لئے پسند فرمایا تھا۔ انہوں نے اس آئین ودستور کو پامال کردیاجو اللہ نے ان کے لئے تجویز کیا تھا۔ جسے اللہ نے خسارے اور ناکامی سے نجات پانے کا واحد راستہ قرار دیا تھا۔ خصوصاً وہ علاقے جہاں سے اس بھلائی کے جھنڈے سب سے پہلے بلند ہوئے تھے۔ انہوں نے خود ان جھنڈوں کو گرادیا ہے ، جو ان کے لئے اللہ نے بلند کیے تھے۔ یہ تھے ایمان کے جھنڈے۔ اور نہایت بدقسمتی یہ ہے کہ جن علاقوں سے اللہ کے دین کے یہ جھنڈے بلند ہوئے تھے انہوں نے نسلی قومیت کو اپنا لیا ہے حالانکہ اس زمین کی تاریخ شاہد ہے کہ نسلی قومیت کے ذریعہ کبھی بھلائی تک کوئی قوم نہیں پہنچ سکی۔ ان لوگوں نے جس نسلی قومیت (عرب نیشنلزم) کے جھنڈے بلند کر رکھے ہیں۔ یہ قومیت اس کے پاس اسلام سے پہلے بھی تھی ، لیکن اس کی وجہ سے نہ اس زمین پر انہوں نے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام دیا اور نہ آسمان میں ان کا کوئی کارنامہ ریکارڈ ہوا ، جب اسلام آیا تو عربوں کے ذریعہ اس نے ایک ایساجھنڈا بلند کیا جو صرف اللہ کا جھنڈا تھا ، اس میں کوئی اور عنصر شریک نہ تھا ، یہ اللہ کے نام سے تھا ، نام میں بھی کوئی شریک نہ تھا ، یہ صرف اللہ کی طرف منسوب تھا ، جس میں کوئی اور نسبت نہ تھی ، صرف اللہ کا رنگ تھا ، کوئی اور رنگ نہ تھا۔ اس جھنڈے کے زیر سایہ عربوں کو عروج نصیب ہوا۔ وہ دنیا کے قائد بن گئے۔ اور ان کی قیادت سے بھلائی کی قیادت تھی۔ ایک قوی قیادت تھی ، دانشمند قیادت تھی اور ہر پہلو سے کامیاب قیادت تھی۔ یہ قیامت عربوں کی تاریخ میں بھی پہلی بار کامیاب ہوئی اور انسانی تاریخ میں بھی اسلامی انقلاب انسانیت کے لئے ایک نمایاں کامیابی تھی۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی مشہور کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کا عروج وزوال کا اثر “ کے فصل ” اسلامی اقتدار اور مسلمان قائدین “ میں فرماتے ہیں :

” مسلمان میدان میں آئے ، دنیا کی رہنمائی کی باگ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لی اور ان بیمار قوموں کو رہنمائی کے اس منصب سے معزول کیا جس پر وہ قابض ہوگئی تھیں اور جس کو انہوں نے کبھی صحیح طور پر استعمال نہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے پوری دنیا کے انسانوں کو اپنے ساتھ لیا اور متوازن اور صحیح رفتار سے اپنی صحیح منزل کی طرف بڑھانا شروع کیا۔ ان میں وہ تمام خصوصیات جمع تھیں ، جو ان کو تمام اقوام کی رہنمائی کے منصب جلیل کا اہل ثابت کرتی تھیں اور ان کی نگرانی اور قیادت میں قوموں کی فلاح اور سعادت کی ضمانت دیتی تھیں۔ یہ امتیازی خصوصیات کیا تھیں وہ یہ ہیں :

(1) ان کے پاس آسمانی کتاب اور خدا کی شریعت تھی ، وہ اپنی جانب سے قانون سازی اور شریعت سازی نہ کرتے تھے ، اس لئے کہ انسانی قانون سازی جاہلیت ، ظلم اور غلطیوں کا سرچشمہ ہوتی ہے اور جب انسان انسانوں کے لئے قانون بناتے ہیں تو ہر روز ان میں ردوبدل اور ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ آسمانی کتابیں ان غلطیوں سے محفوظ ہوتی ہیں۔ مسلمان اپنے روز مرہ کے معاملات اور سیاست اور سیادت میں اندھا دھند چلنے اور اندھیرے میں ہاتھ پاﺅں مارنے سے محفوظ تھے۔ ان کے پاس وحی الٰہی کی روشنی تھی جس کے سہارے وہ چلتے تھے۔ اور جس سے زندگی کی تمام راہیں اور موڑ ان کے لئے روشن تھے۔ ان کا ہر قدم روشنی میں پڑتا تھا۔ اور ان کو اپنی منزل مقصود صاف نظر آتی تھی۔ سورة انعام (122) میں ہے۔

اومن کان ........................................ منھا (122:6) ” کیا وہ جو پہلے مردہ تھا ، پھر ہم نے اس میں جان ڈالی اور اس کو ایک روشنی عطا فرمائی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے ، کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ اندھیرے میں گھرا ہوا ہے ، وہاں سے نکل نہیں سکتا۔

ان کے پاس ایک خدائی قانون اور شریعت تھی جس کے مطابق وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ وہ حق و انصاف کے علم بردار بنائے گئے تھے اور ان کو سخت سے سخت اشتعال اور برہمی اور عداوت ، اور نفرت کی حالت میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سچائی اور انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اور یہ نہ ہو کہ وہ حق و انصاف کے معاملے میں انتقام لیں۔

یایھا الذین ........................................ تعملون (8:5) ” اے ایمان والو ! ہر وقت انصاف کے ساتھ گواہی دینے کے لئے تیار رہو ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں مجبور نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ دو ، عدل کرو ، یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ کو ان باتوں کا علم ہے جو تم کرتے ہو “۔

(2) وہ حکومت اور قیادت کے منصب پر مستحکم اخلاقی تربیت اور تہذیب نفس کے بعد فائز ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا کی عام حکمران قوموں اور اہل حکومت کی طرح اپنے تمام اخلاقی عیوب اور نقائص کے ساتھ ، پستی سے بلندی کی طرف جست نہیں لگائی تھی ، بلکہ ایک طویل عرصہ تک وحی الٰہی ان کی اصلاح وتربیت کرتی رہی تھی اور سالہا سال وہ رسول اللہ ﷺ کی کامل نگرانی اور تعلیم میں رہے تھے۔ آپ ان کا تذکیہ فرماتے رہے ، ان کی مکمل تربیت فرمائی۔ زہدو ورع کی زندگی کا عادی بنایا ، عفت وامانت ، ایثار وقربانی ، خوف خدا کا ان کو خوگر کیا۔ حکومت ومناصب کی حرص وطمع ان کے دل سے بالکل نکال دی۔ آپ کا ارشاد تھا ” بخدا ہم کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کو سپرد نہیں کریں گے جس نے فرمائش کی یا جس کو اس کی خواہش ہے “۔ ترفع ، سربلندی اور اعزاز کا شوق اور فتنہ وفساد کی خواہش سے ان کے دل بالکل صاف ہوگئے تھے ، ان کے کانوں میں ، رات دن قرآن مجید کے یہ الفاظ پڑتے تھے۔

تلک الدار ........................ للمتقین (83:28) ” یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو عطا کریں گے ، جو دنیا میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور فساد کے خواہاں نہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے “۔

اس لئے وہ حکومت کے عہدوں اور منصبوں پر سروانہ وار نہ گرتے تھے ، بلکہ اس کے برعکس وہ ان کو قبول کرنے سے گریز کرتے تھے اور ان کی ذمہ داریوں کو سوچ کرکے وہ لرزہ براندام ہوجاتے تھے۔ ان میں سے جس کو بھی کسی منصب کی پیش کش کی جاتی وہ پیچھے ہٹتا تھا۔ اور اپنے کو اس بار کا قابل نہ سمجھتا تھا۔ چہ جائیکہ ان میں سے کوئی اپنا نام حکومت کے لئے پیش کرے۔ یا اپنی ذات کے لئے پروپیگنڈا کرے۔ پھر وہ جب کسی ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو اس کو مال غنیمت یا لقمہ تر نہ سمجھتے تھے بلکہ اس کو اپنے ذمہ ایک امانت اور اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتے تھے۔ اور یقین رکھتے تھے کہ اللہ کے سامنے ان کو حاضر ہونا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جواب دینا ہے۔ اور وہ یہ آیت ہمیشہ پڑھتے تھے :

ان اللہ ............................ بالعدل (58:4) ” مسلمانو ! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کو پہنچا دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ کرو “۔ نیز یہ ارشاد۔

وھوالذی ................................ رحیم (165:6) ” اور اسی نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے اور تم میں سے بعض کو دوسروں پر درجے دیئے ہیں تاکہ تمہیں آزمائے ، ان انعامات میں جو تمہیں دی گئیں۔ بیشک تمہارا پروردگار بڑی سزا دینے والا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

(3) وہ کسی قوم کے خدمت گزار اور کسی نسل او وطن کے نمائندے نہ تھے ، جن کے پیش نظر محض اس قوم اور نسل کی خوشحالی ہو ، یا وہ کسی قوم کی برتری اور اسے تمام اقوام پر قیادت وسیادت کا مقام دلانے کے قائل ہوں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ ہماری قوم قیادت کرنے کے لئے ہے اور باقی اقوام صرف محکوم بننے کے لئے ہیں۔ وہ عالم عرب کے حدود سے باہر اس لئے نہ نکلے تھے کہ دنیا پر عرب شہنشاہیت قائم کریں۔ اور اس کے زیر سایہ راحت اور عشرت کی زندگی گزاریں۔ اور اس کے زیر حمایت دوسروں پر فخر وتکبر کریں۔ نہ اس لئے کہ لوگوں کو رومیوں اور ایرانیوں کی غلامی سے نکال کر عربوں کی اور اپنی غلامی میں داخل کرائیں۔ وہ صرف اس لئے نکلے تھے کہ وہ بندگان خدا کو اپنے جیسے تمام لوگوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی میں داخل کریں۔ مسلمانوں کے سفیر ربعی ابن عامر نے پروگرد شاہ ایران کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اعلان کیا ۔ انہوں نے کہا : اللہ نے ہم کو اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے رہائی دے کر اللہ کے وسعتوں کی صرف ، اور مذاہی کے ظلم وستم سے رہائی دلا کر اسلام کے عدل و انصاف میں لائیں۔ بس دنیا کی تمام قومیں اور تمام انسان ان کی گناہ میں ایک حیثیت رکھتے تھے۔ اگر فرق تھا تو محض دین کا تھا۔ غرض رسول اللہ کے اس ارشاد پر ان کا پورا عمل تھا ” سب لوگ آدم ہیں اور آدم مٹی سے ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، ماسوائے تقوی کے “۔

اور سورة حجرات کی آیت 13 میں ہے۔

یایھا الناس انا ............................ اتقکم (13:49) ” اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ، اور تمہیں قوم قبیلے میں تقسیم کیا تاکہ تمہارا باہم تعارف ہو ، اللہ کے نزدیک تم میں سے مکرم وہی ہے جو زیادہ متقی ہے “۔

حاکم مصر حضرت عمر بن العاص کے بیٹے نے ایک موقعہ پر ایک مصرف کو کوڑا مارا اور اپنے باپ دادا پر فخر کیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس مصری کو اس سے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ اور عمر ابن العاص سے کہا : کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنالیا حالانکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہیں “۔

ان فاتحنیں اور حکمرانوں نے دین وعلم وتہذیب کی بخشش میں کبھی بخل اور تنگ دلی سے کام نہیں لیا اور حکومت اور مناصب حکومت کے بارے میں کبھی وطنیت اور رنگ ونسل کا لحاظ نہیں کیا ، وہ تو ایک ابرکرم تھے جو تمام عالم پر محیط تھا۔ اور اس کا فیض سب کے لئے عام تھا۔ جو سارے عالم کو سیراب کرتا گیا اور زمین کے ہر حصے نے اس کو دعائیں دیں اور مخلوقات نے اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق اس سے نفع اٹھایا۔

ان لوگوں کے زیر سایہ اور زیر حکومت دنیا کی تمام قوموں کو بلا اختلاف رنگ ووطن اور دین ، علم وتہذیب اور حکومت میں اپنا پورا پورا حصہ لینے اور عربوں کے ساتھ تعمیر نو میں شریک ہونے کا پورا پورا موقعہ ملا۔ بلکہ ان کے بہت سے افراد بہت فضیلتوں میں عربوں سے سبقت لے گئے تھے اور ان میں ایسے ائمہ اور فقہا اور محدثین پیدا ہوئے جو خود عربوں کے سرکاتاج اور مسلمانوں کا سرمایہ افتخار تھے۔

(4) انسان مجموعہ ہے جسم ، قلب اور عقل کا۔ انسان حقیقی فلاح وسعادت اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا اور انسانیت کو متوازن ترقی اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسان کی یہ تمام قوتیں متناسب طور پر اس کے مرتبہ کے شایان شان ، نشوونما اور پرورش نہ پائیں۔ دنیا میں صالح تمدن کا اس وقت تک وجود نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک ایسا ہی دینی ، اخلاقی ، عقلی اور مادری ماحول نہ قائم ہوجائے۔ جس میں انسان کے لئے پوری پوری سہولت سے کمال تک پہنچنا ممکن ہو اور تجربہ نے ثابت کردیا کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کسی زندگی کی رہنمائی اور تمدن کی جہاز رانی ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو جو روحانیت اور مادیت دونوں کے قائل ہوں۔ اور دینی اور اخلاقی زندگی کا نمونہ کامل ہوں اور عقل سلیم اور علم صحیح سے متصف ہوں۔ (ص 100 تا 164) ۔

اور ایک دوسرے فصل دور خلافت راشدہ کے عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں :

” چناچہ ہم کو تاریخ میں خلافت راشدہ کے دور سے زیادہ ان تمام حیثیتوں سے مکمل اور کامیاب دور کا علم نہیں ، اس دور میں روحانی ، اخلاقی ، دینی وعلمی ، روحانی وسائل و سامان ، انسان کامل اور صالح تمدن کے وجود میں لانے میں ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ اس حکومت میں ، جس کا شمار دنیا کی عظیم ترین حکومتوں میں تھا ، ایسی سیاسی ومادی قوت کے جو تمام معاصر قوتوں سے فائق و برتر تھی۔ اعلیٰ اخلاقی نمونے اور اعلیٰ معیار کام دیتے تھے۔ تجارت وصنعت کے ساتھ اخلاق اور فضیلت بھی اپنے پورے عروج پر تھی۔ فتوحات کی وسعت اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق اور افادیت دونوں کی ترقی بھی جاری تھی۔ چناچہ اسلامی حکومت کی غیر معمولی وسعت ، آبادی کی انتہائی افزوئی عیش و عشرت کے وسائل واسباب ترغیبات کے باوجود ، جرائم ، بداخلاقی کے واقعات بہت کم پیش آتے تھے۔ فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ اور فردہ جماعت کا باہمی تعلق حیرت انگیز طریقے پر تھا۔ یہ ایک معیاری دور تھا جس سے زیادہ ترقی یافتہ دور کا انسان خواب بھی نہیں دیکھ سکا۔ اور اس سے زیادہ مبارک اور پر بہار زمانہ فرض ہی نہیں کیا جاسکتا “۔ (ص 167) یہ تھے اس دور سعید کے بعض خدوخال جس میں انسانیت نے ایک مختصر سے عرصے کے لئے سورة عصر کے وصع کردہ اسلامی دستور کے زیر سایہ زندگی بسر کی۔ اس عرصہ میں لوگوں پر ایسے لوگوں کی ایک ایسی ایمان والی جماعت کی حکومت تھی جس نے ایمان کے جھنڈے اٹھائے تھے اور عمل صالح اس کا پروگرام تھا اور حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین اس کا شعار تھا۔

یہ ایک ایسا سنہری دور تھا جس کا مقابلہ اس بربادی سے ہرگز نہ کیا جاسکتا۔ جس سے آج پوری انسانیت دوچار ہے۔ معرکہ ، خیروشر میں پوری انسانیت خسارے اور تباہی میں مبتلا ہے۔ پوری انسانیت نے ، اس عظیم خیر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ، جو کبھی عربوں نے پوری انسانیت کے قائد اور رہنما تھے اور اس کے بعد کے ادوار میں جب انہوں نے یہ جھنڈے پھینک دیئے تو وہ قافلہ انسانیت کے خادم بن گئے جبکہ یہ قافلہ بھی بربادی کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے اور جاتے جاتے یہ حالت ہوگئی ہے کہ پوری انسانیت نے شیطانی جھنڈے سے اٹھا لیے اور ان میں سے کوئی جھنڈا انسانی جھنڈا نہیں ہے۔ پوری انسانیت نے باطل کے جھنڈے اٹھا لئے ، کہیں بھی حق کا کوئی جھنڈا نظر نہیں آتا۔ پوری انسانیت نے اندھے پن اور گمراہی کے جھنڈے اٹھالئے ، ان میں کہیں بھی ہدایت اور نور کا کوئی ایک جھنڈا نظر نہیں آتا۔ سب جھنڈے خسارے کے ہیں ، کامیابی کا کوئی ایک جھنڈا بھی نظر نہیں آتا۔ اللہ کا وہ جھنڈا جس کے ذریعہ عرب دنیا پر چھا گئے تھے۔ آج بھی موجود ہے۔ یہ جھنڈا آج بھی کسی اٹھانے والے ہاتھ کا منتظر ہے ۔ کسی ایک جماعت یا قوم کی ضرورت ہے جو اس جھنڈے کے نیچے بھلائی ، ہدایت ، صلاح اور فلاح کی راہ پر چلے۔

یہ ہے ، اس جہاں میں نفع ونقصان کی کہانی۔ یہ دنیاوی عظمت اپنی جگہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اگ رہم اس کا تقابل اخروی کامیابی کے ساتھ کریں تو یہ بہت ہی حقیر ہے۔ اصل نفع ونقصان آخرت کا ہے۔ وہاں ہی حقیقی نفع ونقصان ہے۔ اس لئے کہ وہ طویل زندگی ہے۔ اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے۔ اور ہمیشہ رہنے والا جہاں ہے۔ اصل منافع اور اصل خسارہ وہاں ہے۔ جنت ، اللہ کی رضامندی کا منافع یا جہنم ، اللہ کی ناراضگی کا خسارہ۔ آخرت میں جہاں انسان اپنے اعلیٰ ترین ترقی و کمال تک پہنچ سکا ہوگا یا اس قدر کرچکا ہوگا کہ اپنی انسانیت میں کھو بیٹھا ہوگا۔ وہ ایک پتھر کی قدرو قیمت تک گر جائے گا اور راحت و آرام میں پتھر سے بھی کم ہوگا۔

یوم ینظر ............................ ترابا (40:78) ” جس دن ہر شخص وہ کچھ دیکھ لے گا جو اس نے کما کر آگے بھیجا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہوجاتا “۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سورت ایک فیصلہ کن اور دو ٹوک راہ حق بتاتی ہے ، یہ بتاتی ہے کہ تمام راہیں خسارے کی ہیں ماسوائے۔

الا الذین ........................................ بالصبر (3:103) ” ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق کی وصیت کی اور صبر کی وصیت کی “۔ اور یہ ایک ہی راہ ہے اس میں تعدد نہیں ہے ، یہ ایمان اور عمل صالح کی راہ ہے۔ ایک اسلامی جماعت کے قیام کی راہ ہے۔ ایک ایسی جماعت کی راہ جو حق کی نصیحت کرتی ہو اور جو خیر کی تلقین کرتی ہو ، جو سچائی کی سیاہ ہو اور صبر اس کی تنخواہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ راستہ ایک ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی رسول اللہ کے دو ساتھی ایک دوسرے سے ملتے تو تب جدا ہوتے جب وہ سورة عصر پڑھ لیتے۔ اس کے بعد وہ ایک دوسرے کو سلام کہہ کر چلے جاتے۔ دراصل ان کا باہم معاہدہ ہوتا تھا کہ اس انقلابی دستور پر چلیں گے وہ باہم معاہدہ کرلیتے تھے کہ ایمانی صلاح کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہیں گے۔ اور اس کا عہد کرتے تھے کہ وہ اس دستور کے چوکیدار رہیں گے اور اس جماکعت کے فرد رہیں گے جو اس دستور پر گامزن ہوگی۔

اردو ترجمہ

انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alinsana lafee khusrin

اردو ترجمہ

سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati watawasaw bialhaqqi watawasaw bialssabri
601