سورۃ العصر (103): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Asr کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العصر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ العصر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Asr
سُورَةُ العَصۡرِ
صفحہ 601 (آیات 1 سے 3 تک)

سورۃ العصر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ العصر کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

زمانے کی قسم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalAAasri

آیت 1{ وَالْعَصْرِ۔ } ”زمانے کی قسم ہے۔“ یعنی اس حقیقت پر زمانہ گواہ ہے یا پوری تاریخ انسانی شاہد ہے کہ :

اردو ترجمہ

انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alinsana lafee khusrin

آیت 2{ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ } ”یقینا انسان خسارے میں ہے۔“ اگلی آیت میں اس نقصان اور خسارے سے بچائو کے لیے چارشرائط بتائی گئی ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی ایک یا دو یا تین شرائط پوری کردینے سے مذکورہ خسارے سے بچنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ کامیابی کے لیے بہرحال چاروں شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔

اردو ترجمہ

سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati watawasaw bialhaqqi watawasaw bialssabri

آیت 3{ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ } ”سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔“ ان شرائط میں پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان لائے۔ اس میں ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت سمیت تمام ایمانیات شامل ہیں۔ یعنی انسان اس کائنات کے مخفی اور غیبی حقائق کو سمجھے ‘ ان کا شعور حاصل کرے اور ان کی تصدیق کرے۔ ایمان لانے کے بعد دوسری شرط اس ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر انسان اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے عمل اور کردار سے ثابت ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بندہ ہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرتا ہے۔ غرض وہ ہر اس عمل کو اپنے شب و روز کے معمول کا حصہ بنانے پر کمربستہ ہوجائے جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اور ہر اس فعل سے اجتناب کرنے کی فکر میں رہے جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ تیسری شرط ”تواصی بالحق“ کی ہے۔ یعنی جس حق کو انسان نے خود قبول کیا ہے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا ہے اس حق کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن جائے۔ اس کے بعد چوتھی اور آخری شرط ”تواصی بالصبر“ کی ہے اور یہ ”تواصی بالحق“ کا لازمی اور منطقی نتیجہ بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو بندہ ”تواصی بالحق“ کا َعلم اٹھائے گا اسے شیطانی قوتوں کی مخالفت مول لے کر آزمائش و ابتلا کی مشکل گھاٹیوں سے بھی گزرنا ہوگا اور اس راستے پر چلتے ہوئے نہ صرف اسے خود صبر و استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا بلکہ اسے اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کو بھی اس کی تلقین و نصیحت کرنا ہوگی۔ اسی لیے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جب امر بالمعروف کی نصیحت کی تو ساتھ ہی صبر کی تلقین بھی کی تھی : { یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَط } لقمٰن : 17 ”اے میرے بچے ! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو بھی تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو !“ بہرحال راہ حق کے مسافروں کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ راستہ آزمائش و ابتلا کے خارزاروں سے ہو کر گزرتا ہے : { وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ } البقرۃ ”اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ اور اے نبی ﷺ ! بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو۔“ ؎ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! آمین !

601