سورہ مزمل: آیت 1 - يا أيها المزمل... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ مزمل

يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمُزَّمِّلُ

اردو ترجمہ

اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha almuzzammilu

آیت 1 کی تفسیر

یایھا المزمل (1:73) قم ........(2:73) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے کھڑے ہوجاؤ ........“ آسمانوں کی پکار ، اللہ اور کبیر اور متعال کا حکم ” تم “ کھڑے ہوجاؤ۔ اس عظیم کام کے لئے کھڑے ہوجاؤ جو ایک عرصہ سے تمہارے انتظار میں ہے۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے اور یہ تمہارے لئے ہے۔ اٹھو اور اس راہ میں جدوجہد کرو۔ ان تھک جدوجہد کرو ، اٹھو نیند اور آرام کا وقت اب گیا۔ تیاریاں کرو اس عظیم جدوجہد اور اس چومکھی لڑائی کے لئے ۔

یہ ایک عظیم حکم ہے ، ایک خوفناک حکم ہے۔ نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ گرم ونرم بستر کو چھوڑ دو ۔ آرام دہ اور پر سکون گھر کو چھوڑ دو ۔ غرض اس حکم کے ذریعہ آپ کو ایک عظیم کشمکش اور عظیم جدوجہد کے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور پھر یہ کشمکش خشکیوں میں ، سمندروں اور انسانوں کی عملی زندگی میں اور انسانی ضمیر میں ہر جگہ برپا ہوتی ہے۔

جو شخص صرف اپنے لئے زندگی بسر کرتا ہے بعض اوقات وہ بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا ہے ، لیکن وہ نہایت صغیر و حقیر زندگی بسر کرتا ہے اور ایک معمولی انسان کی طرح مرتا ہے۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو بڑی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے آدمی کے لئے سونا ممکن ہی نہیں رہتا ، اسے آرام نصیب ہی نہیں ہوتا ، اسے گرم بستر کم ہی نصیب ہوتے ہیں ، اسے عیش و عشرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہتا۔ اسے سازو سامان فراہم کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ حضور اکرم ﷺ نے حقیقت کو پالیا تھا ، اس لئے آپ نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا جبکہ وہ آپ ﷺ کو مطمئن کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ سو جائیں۔ ” خدیجہ ........ سونے کا زمانہ تو گیا “۔ ہاں وہ دور چلا گیا۔ اب تو جاگنے کا دور ہے ، مسلسل بیدار رہنے کا زمانہ ہے۔ اب تو جدوجہد ہے یا جہاد ہے۔ اور طویل مشقتیں ہیں۔

یایھا المزل (1)........ قلیلا (2) نصفہ ............ قلیلا (3) اوزد ........ .... ترتیلا (4) (73:1 تا 4) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم ، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلو ، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو ، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو “۔

یہ ایک عظیم مہم کے لئے منجانب اللہ تربیت تھی اور اس تربیت میں ایسے ذرائع استعمال کیے گئے جن کی کامیابی کی ضمانت من جانب اللہ دی گئی تھی۔ قیام اللیل ، جس کی زیادہ سے زیادہ حد نصف رات یا دوتہائی رات سے کم یا ایک تہائی ہے۔ اس میں صرف ترتیل قرآن اور نماز ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن کا مطلب ہے قرآن کو تجوید کے ساتھ قرآن کے اصولوں کے مطابق پڑھنا ، جلدی جلدی بھی نہ ہو اور محض گانے بجانے کا انداز بھی نہ ہو۔

نبی ﷺ سے صحیح روایات وارد ہیں کہ آپ نے قیام اللیل کے دوران گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھا تھا لیکن ان گیارہ رکعات میں رات کے دو تہائی حصے سے قدرے کم وقت گزارتے تھے اور آپ قرآن مجید کو خوب رک رک تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے۔

امام احمد نے اپنی سند میں روایت کی ہے ، یحییٰ ابن سعید سے (یہابن عروبہ ہیں) انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے زرارہ ابن اوفی سے ، انہوں نے سعید ابن ہشام سے کہ وہ حضرت ابن عباس کے پاس آئے اور ان سے وتروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمام اہل زمین سے حضور ﷺ کے وتروں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے ؟ فرمایا عائشہ ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو۔ اور پوچھ کر ان کا جو جواب ہو ، وہ مجھے بھی بتا دو ۔ سعید ابن ہشام کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے ام المومنین۔ مجھے بتائیے کہ حضور ﷺ کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا پڑھتا ہوں۔ انہوں نے کہا بس رسول اللہ کا اخلاق قرآن تھا۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ حضور ﷺ کے قیام اللیل کے بارے میں پوچھوں تو میں نے کہا ام المومنین رسول اللہ قیام اللیل کس طرح فرماتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم سورة المزمل نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا ہاں پڑھتا ہوں۔ اللہ نے اس سورت کے پہلے حصے میں قیام اللیل فرض فرمایا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی ایک سال تک قیام اللیل پر عمل پیرا رہے۔ یہاں تک کہ ان کے پاؤں پھول گئے اور اللہ نے اس کا اختتام آسمانوں میں بارہ مہینے روکے رکھا۔ اس کے بعد اس سورت کے آخری حصے میں تخفیف نازل فرمائی ، اس کے بعد قیام اللیل نفلی ہوگیا جبکہ پہلے فرض تھا۔ میں نے پھر ارادہ کرلیا کہ اٹھ کر چلا جاؤں تو مجھے حضور ﷺ کے وتر کے بارے میں خیال آگیا۔ میں نے پوچھا ام المومنین مجھے حضور ﷺ کے وتر کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار کرتے تھے۔ تو اللہ رات کو آپ کو اٹھاتا تھا ، جس وقت اللہ اٹھانا چاہتا۔ آپ پہلے مسواک کرتے ، پھر وضو فرماتے ، پھر آپ آٹھ رکعات پڑھتے اور ان میں نہ بیٹھتے ، صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے۔ آپ بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ، دعا کرتے ، پھر سلام پھیرے بغیر آٹھویں رکعت کے بعد اٹھتے تاکہ نویں رکعت پڑھیں۔ پھر بیٹھتے اور اللہ وحدہ کو یاد کرتے ، پھر دعا کرتے اور پھر سلام پھیرتے اور ہم سلام پھیرنے کی آواز سنتے۔ اس کے بعد آپ بیٹھ کر دو رکعات پڑھتے۔ یہ سلام پھیرنے کے بعد پڑھنے بیٹھتے۔ یہ گیارہ رکعات ہوگئے۔ جب حضور ﷺ معمر ہوگئے اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہوگیا تو ساتویں رکعت وتر ہوتی۔ پھر ساتویں کے بعد دو رکعات بیٹھ کر پڑھتے۔ اس طرح نوررکعتیں ہوتی ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کی یہ عادت تھی کہ آپ جو نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اس پر مداومت کریں اور جب کبھی حضور ﷺ جاگ نہ سکتے ، یا کسی درد یا بیماری کی وجہ سے رات کو نہ اٹھتے تو دن کو بارہ رکعات ادا فرماتے۔ اور مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ رسول خدا نے ایک ہی رات میں تمام قرآن مجید کو پڑھ کر ختم کیا اور یہ بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ ماسوائے رمضان کے آپ نے کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ (امام مسلم نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے ، دیکھئے ، زادالمعاد ، ابن قیم مفصلا) رسول اللہ ﷺ کی یہ تربیت اس لئے کی جارہی تھی کہ ایک بھاری ذمہ داری آپ کے سپرد کی جانے والی تھی۔

آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ۔ } ”اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ﷺ !“ فداہ آباونا وامّھاتنا۔

رسول اللہ کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کرلیں، جیسے فرمان ہے آیت (تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16؀) 32۔ السجدة :16) ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں، حضور ﷺ پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀) 17۔ الإسراء :79) ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے، یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت حضور ﷺ اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضور ﷺ عامل تھے، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہوجاتی تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور ﷺ خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمٰن پر لفظ رحیم پر مد کیا، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الحمد للہ رب العلمین) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (مالک یوم الدین) پڑھ کر ٹھہرتے۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی ؒ اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کردی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی نسبت حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بےادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو (بغوی) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہوگا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور ﷺ ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے، یعنی عمل میں ثقیل ہوگی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہوگی، حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے، مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہوجاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہوجاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہوجاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کرلیتا ہوں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور ﷺ سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشئتہ اللیل کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہوجاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بنسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شورغل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت انس نے آیت (اقوم قیلاً) کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا (اصوب اقوم اھیاء) اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے، نیند کرسکتے ہو، سو بیٹھ سکتے ہو، راحت حاصل کرسکتے ہو، نوافل بکثرت ادا کرسکتے ہو، اسے دنیوی کام کاج پورے کرسکتے ہو۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کرلو، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کردی اور فرمایا تھوڑی سی رات کا قیام کرو، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت (ان ربک) سے (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀) 73۔ المزمل :20) تک پڑھا اور آیت (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀) 17۔ الإسراء :79) ، کی بھی تلاوت کی۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ ﷺ کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہوجائیں۔ حضور ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے ؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آجاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت ﷺ کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ ؓ بتاسکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے ؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون ؟ عامر کے لڑکے ؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیا تھے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا بس حضور ﷺ کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آگیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کرلوں، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورة مزمل نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کرلوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور ﷺ کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے (اور ایک وتر پڑھتے) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہوگیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کردو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ ﷺ نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نبی ﷺ کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور ﷺ کی اقتداء کرنے کے لئے وہ بھی آگئے حضور ﷺ غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہوجائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آجائے آٹھ مہینے اسی طرح گذر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورة مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گذر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورة مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر آیت (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀) 73۔ المزمل :20) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہوگئی۔ حضرت سعید بن جبیر ؒ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں (ابن جریر) حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت (عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى 20؀) 73۔ المزمل :20) سے (ما تیسر منہ) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کردی اور تنگی نہ رکھی فلہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہوجا، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہوجا، جیسے اور جگہ ہے آیت (فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۙ) 94۔ الشرح :7) ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کیطرف جھک جاؤ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ، جیسے اور آیت میں ہے آیت (فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ01203) 11۔ ھود :123) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، یہی مضمون آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) میں بھی ہے، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت، اطاعت، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے۔

آیت 1 - سورہ مزمل: (يا أيها المزمل...) - اردو