سورہ رعد (13): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ar-Ra'd کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الرعد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ رعد کے بارے میں معلومات

Surah Ar-Ra'd
سُورَةُ الرَّعۡدِ
صفحہ 250 (آیات 6 سے 13 تک)

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِٱلسَّيِّئَةِ قَبْلَ ٱلْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ ٱلْمَثُلَٰتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ ٱلْعِقَابِ وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦٓ ۗ إِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ ٱلْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُۥ بِمِقْدَارٍ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ ٱلْكَبِيرُ ٱلْمُتَعَالِ سَوَآءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ ٱلْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِۦ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِٱلَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِٱلنَّهَارِ لَهُۥ مُعَقِّبَٰتٌ مِّنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِۦ يَحْفَظُونَهُۥ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِقَوْمٍ سُوٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُۥ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَالٍ هُوَ ٱلَّذِى يُرِيكُمُ ٱلْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ ٱلسَّحَابَ ٱلثِّقَالَ وَيُسَبِّحُ ٱلرَّعْدُ بِحَمْدِهِۦ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِۦ وَيُرْسِلُ ٱلصَّوَٰعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَآءُ وَهُمْ يُجَٰدِلُونَ فِى ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ ٱلْمِحَالِ
250

سورہ رعد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ رعد کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayastaAAjiloonaka bialssayyiati qabla alhasanati waqad khalat min qablihimu almathulatu wainna rabbaka lathoo maghfiratin lilnnasi AAala thulmihim wainna rabbaka lashadeedu alAAiqabi

اردو ترجمہ

یہ لوگ جنہوں نے تمہاری با ت ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ "اِس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayaqoolu allatheena kafaroo lawla onzila AAalayhi ayatun min rabbihi innama anta munthirun walikulli qawmin hadin

اردو ترجمہ

اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقر رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu yaAAlamu ma tahmilu kullu ontha wama tagheedu alarhamu wama tazdadu wakullu shayin AAindahu bimiqdarin

یہ تھی ایک اچٹتی سی نظر آفاق کائنات پر۔ اس پر تبصرے تھے ، اب کائنات کی بعض مخصوص وادیوں میں آپ کو لے جایا جائے گا۔ مثلاً نفس انسانی ، انسانی شعور و ادراک اور اس کرۂ ارض پر حیات انسانی اور دوسری زندہ اشیاء پر غور۔

آیت نمبر 8 تا 11

جب حیات انسانی کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں تو انسانی حس اور شعور ششدرزہ جاتا ہے۔ خصوصاً قرآن کے اس ترنم آمیز انداز بیان پر۔ اللہ کے علم اور اللہ کی حکمتوں کی کرشمہ سازیاں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ وہ علوم جو جنین کے بارے میں انسان پر ظاہر ہوچکے ہیں ، پھر وہ راز جو ہر انسان نے اپنے سینے میں چھپا رکھے ہیں ، راتوں میں انسان کی حرکات اور دوڑ دھوپ ، چھپ کر لوگوں کی سرگرمیاں اور دن کے وقت برملا لوگوں کی جدو جہد ، ان تمام امور کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ کے گماشتے ان تمام سرگرمیوں کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں۔ انسان کی یہ حیرانی دراصل خوف الٰہی کی وجہ سے ہے جس کے نتیجے میں انسان اللہ کی پناہ لیتا ہے۔ وہ اللہ کی پناہ گاہ ہی میں پناہ لیتا ہے۔ ایک مومن اچھی طرح جانتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ کا علم تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، لیکن اصولی طور پر اللہ کے علم کے شمول اور وسعت کا اقرار اور بات ہے اور یہاں قرآن مجید نے جس موثر انداز میں بعض جزئیات کا ذکر کیا ہے اس کی اثر انگیزی اور بات ہے۔

محض تجریدی کلیہ کا بیان کردینا اور بات ہے اور کلیہ کے تحت کسی مثالی جزئیہ کا مطالعہ اور بات ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ بعض جزئیات ، حساس جزئیات کا ذکر فرماتے ہیں۔

اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (13 : 8) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔

ہر حاملہ سے خیال کے پردے پر ہر حاملہ ، مطلق حاملہ آجاتی ہے ، اس پوری کائنات میں تمام زندہ حاملہ ، وسیع معنوں میں ہر حاملہ شہروں میں اور دیہاتوں میں۔ آبادیوں میں اور پہاڑوں میں ، جنگلوں میں دریاؤں میں ، گھروں میں اور غاروں میں ، ہر مادہ کے پیٹ میں جو کچھ پیدا ہو رہا ہے ، بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، ہر وہ قطرۂ خون جو بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

یہ تو ہے ایک مخصوص مثال اور یہ کوئی تجریدی کلیہ نہیں ہے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور بس ، بلکہ ایک مخصوص شعبہ علم کی بات ہے۔

سواء منکم ۔۔۔۔ امر اللہ۔ (13 : 10- 11) ” تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔

جب انسانی خیال پر سرگوشی کرنے والے ، ہر جہراً بات کرنے والے کے بارے میں سوچ ، اندھیروں میں چلنے والوں اور دن کی روشنی میں متحرک لوگوں کے بارے میں سوچ اور پھر اس پوری کائنات کے بارے میں سوچ اور پھر یہ سوچ کہ اللہ کا علم ان سب کا پیچھا کر رہا ہے اور اس کے گماشتے بھی لکھ رہے ہیں اور رات کے دونوں کناروں پر رپورٹ بھی بھیجتے ہیں۔ پھر ان جزئیات علم الٰہی کے انداز بیان پر بھی ذرا غور کیجئے :

اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (13 : 8) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔ جب اللہ نے یہ فرمایا کہ رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اللہ اسے جانتا ہے تو اس کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے۔ نقص و زیادتی کے ساتھ مقدار کا لفظ لانا ایک توازن پیدا کرتا ہے۔ پھر اس کا تعلق اس سے قبل کی اس آیت سے بھی ہے جس میں آیا ہے کہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ مرنے اور مٹی بن جانے کے بعد خلق جدید کی شکل میں لوگ کس طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نیز موضوع اور ظاہری شکل کے اعتبار سے یہ اس مضمون کے بھی مماثل ہے جس میں بارش کا ذکر ہے کہ بارش برستی ہے اور برادری اپنی مقدار کے مطابق پانی سے بہہ جاتی ہے۔ تمام امور میں مقدار ملحوظ ہے۔ کمی بیشی اور مقدار اس سورة کا نکتہ خاص ہے۔

علم الغیب ۔۔۔۔ المتعال (13 : 9) ” وہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کا عالم ہے وہ بزرگ اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے “۔ لفظ کبیر اور لفظ متعال دونوں پردۂ احساس پر ایک خاص اثر چھوڑتے ہیں ، اس کو میں پر تو سے تعبیر کرتا ہوں۔ کسی دوسرے لفظ سے اس کی تعبیر مشکل ہے۔ یعنی جو بھی مخلوق ہے ، اس کے اندر کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوتا ہے جو اسے صغیر بنا دیتا ہے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی ہم کبیر نہیں کہہ سکتے۔ یا کسی اور معاملے کو ہم کبیر نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اللہ کا ذکر آتے ہی تمام دوسرے امور صغیر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لفظ متعال کے بارے میں بھی ہماری سوچ محدود ہے۔ کسی مفسر نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ الکبیر المتعال کا دائرہ اخلاق کیا ہے۔

سواء منکم۔۔۔۔۔ بالنھار (13 : 10) ” تم میں سے کوئی شخص زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں “۔ عبارت میں تقابل واضح ہے۔ لفظ سارب قابل غور ہے۔ خود لفظ سارب اپنے مفہوم پر روشنی ڈالتا ہے۔ مفہوم ہے اخفا اور پوشیدگی یا قریب قریب پوشیدگی۔ سارب کا مفہوم ہے روشنی میں چلنے والا یعنی خفیہ چیزوں کو بھی اللہ جانتا ہے۔ حمل جو چھپا ہوا ہے ، راز جو خفیہ ہوتے ہیں ، وہ شخص جو رات کے اندھیرے میں چلتا ہے پھر اللہ کے گماشتے جو نظر نہیں آتے ، سارب خفیہ کے بالمقابل لفظ ہے لیکن خود اس کے اندر بھی نرمی ، لطف اور اخفاء کا پر تو موجود ہے۔

لہ معقبت ۔۔۔۔ امر اللہ (13 : 11) ” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقدر کئے ہوئے نگراں موجود ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔ وہ فرشتے جو انسانوں کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں ، ہر آنے جانے والے کی حفاظت کرتے ہیں ، جو انسانوں کو ہر وسوسہ اور ہر خلجان سے بچاتے ہیں۔ یہ اللہ کے احکام کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہاں ان نگرانوں کی کوئی تعریف و تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ صرف یہ تعریف ان کی یہاں ہے کہ من امر اللہ۔ جو اللہ کے حکم سے کام کرتے ہیں ، ہم بھی یہاں ان کو مجمل ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ، ان کی صفات کیسی ہیں ، وہ کس طرح یہ نگرانی کرتے ہیں ، کہاں ہوتے ہیں ، اللہ نے چونکہ اس بات کو مخفی رکھا ہے ، اور اس کے اخفاء ہی سے وہ خوف پیدا ہوتا ہے جس کو یہاں پیدا کرنا مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن نے جس قدر کہہ دیا ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور یہ اخفاء اور اجمال اتفاقی اور بےمقصد نہیں ہے ، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب کے اظہار کے بارے میں کچھ بھی تعلق رکھتے ہیں ان کے لئے یہ بات مشکل ہے کہ وہ قرآن کی پیدا کردہ ایک فضا کو ختم کردیں کیونکہ تفصیلات دینے سے وہ تاثر ختم ہوجائے گا۔

ان اللہ لا۔۔۔۔۔۔۔ بانفسھم (13 : 11) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “۔ اللہ ان کی نگرانی اپنے کارندوں کے ذریعے یوں کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ لوگ اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی کیا سعی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ترقی و پسماندگی میں ، عزت و ذلت میں ، بلندی اور زوال میں کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنی سوچ ، اپنے شعور ، اپنے اعمال اور اپنی سرگرمیوں کو بدلتے نہیں۔ چناچہ اللہ بھی لوگوں کی سوچ اور ان کے فکر و عمل کے مطابق لوگوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اگرچہ اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کریں گے اور یہ یہ نہ کریں گے ۔ عملی نتائج لوگوں کے فکرو عمل کے مطابق ہی نکلتے ہیں۔ ہاں یہ نتائج عملاً اس دور میں پیدا ہوئے جو لوگوں کی زندگی کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر بہت ہی بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت کا تقاضا تھا اور اسی کے مطابق سنت الٰہیہ جاری وساری ہے کہ لوگوں کے حالات لوگوں کے بدلنے پر موقوف ہوں گے۔ سنت الٰہیہ ان کے طرز عمل اور ان کی طرز فکر پر مرتب ہوگی۔ یہ ایک صریح نص ہے ، لہٰذا اس میں کسی تاویل اور تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سنت الٰہیہ کے تعین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت ہی مکرم بنادیا ہے کہ خود انسان کے عمل سے سنت الٰہیہ بنتی ہے۔

اس سنت الٰہیہ کے تعین کے بعد سیاق کلام بتا دیتا ہے کہ اللہ کسی قوم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سنت کیا ہوتی ہے۔ وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ جب لوگ اپنے اندر بری تبدیلی لاتے ہیں تو پھر سنت الٰہیہ بھی ان کو برے دن دکھاتی ہے۔

واذا اراد اللہ۔۔۔۔۔۔ من وال (13 : 11) ” اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی ، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہوسکتا ہے “۔

یہاں سیاق کلام زوال کا یہ پہلو اس طرح بیان کرتا ہے کیونکہ یہاں موضوع و مضمون ایسا ہے کہ لوگ اچھائی سے زیادہ برائی کے طلبگار ہیں۔ جبکہ اللہ نے ان کو بتایا کہ وہ عذاب سے قبل تمہاری مغفرت کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ کس قدر غافل ہوگئے ہیں۔ اس لئے یہاں ان کے انجام بد کا کردیا جاتا ہے تا کہ وہ ڈریں اور عقل کے ناخن لیں کیونکہ اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور جب تمہاری ہلاکت کا فیصلہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا حامی و مددگار نہ ہوگا۔

٭٭٭

اردو ترجمہ

وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالا تر رہنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalimu alghaybi waalshshahadati alkabeeru almutaAAali

اردو ترجمہ

تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے با ت کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sawaon minkum man asarra alqawla waman jahara bihi waman huwa mustakhfin biallayli wasaribun bialnnahari

اردو ترجمہ

ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہو سکتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu muAAaqqibatun min bayni yadayhi wamin khalfihi yahfathoonahu min amri Allahi inna Allaha la yughayyiru ma biqawmin hatta yughayyiroo ma bianfusihim waitha arada Allahu biqawmin sooan fala maradda lahu wama lahum min doonihi min walin

اردو ترجمہ

وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yureekumu albarqa khawfan watamaAAan wayunshio alssahaba alththiqala

اب سیاق کلام ہمیں ایک دوسری وادی میں لے جاتا ہے۔ یہ وادی بھی اس کے ساتھ متصل اور مربوط ہے جس میں ہم ابھی گھوم رہے تھے۔ یہ وادی وہ ہے جہاں طبعی مناظر اور نفس انسانی کے شعور کے مناظر باہم ملتے ہیں۔ اس وادی کے مناظر طبیعی ، ان کا پرتو اور ان کے اثرات انسانی شعور کی تصویر میں باہم جمع ہوجاتے ہیں۔ خوف ، ڈر ، جدو جہد ، امید اور خوف باہم ملے ہوئے ہیں اور انسانی شعور اس وادی میں مختلف تاثرات لیتا ہے۔

آیت 12 تا 16

چمک ، گرج اور بادل عام مناظر ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات ان مناظر میں سے برق بھی گرتی ہے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو ہر انسان کو متاثر کرتے ہیں چاہے کوئی ان کی طبعی حقیقت سے واقف ہو یا نہ ہو ، یہاں قرآن مجید ان کو پیش کرتے ہوئے ، ان کے ساتھ ملائکہ ، تسبیح ، سجود ، خوف ، طمع اور ان مشاہد کے سائے کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ سچی پکار کیا ہے اور باطل اور ناحق پکار کیا ہے۔ ان مناظر میں ایک دوسرے شخص کی شکل یوں پیش کی جاتی ہے جو پانی پینا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا ، بلکہ ہاتھ کھول کر اور منہ کھولے ہوئے یہ تمنا کرتا ہے کہ پانی خودبخود اس کے منہ میں پڑجائے ، جبکہ وہ پڑنے والا نہیں ، ایک قطرہ بھی۔

یہ تمام مناظر ، مثالیں اور اشیاء اس آیت میں محض اتفاقاً اور بےمقصد جمع نہیں کردی گئی ، ان سب چیزوں کا دراصل مدعا سے تعلق ہے۔ بلکہ یہ مناظر انسان کو ڈرانے ، امید ،۔۔۔ پیہم اور طمع اور خوف اور نفع و نقصان کی امید دلانے اور اللہ کے ساتھ انسانوں نے جو دوسرے شریک ٹھہرا رکھے ان کی قوت کی نفی کے لئے لائے گئے ہیں۔

ھو الذی ۔۔۔۔۔۔۔ وطمعا (13 : 12) ” وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں “۔ اللہ وہ ذات ہے جو تمہیں یہ تکوینی مظاہر دکھاتا ہے۔ یہ اس کائنات کے طبیعی اور موسمی مظاہر ہیں جسے اس نے پیدا کیا ہے اور اس خاص انداز پر اس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور یہ خواص ان اشیاء کے اندر پیدا کئے ہیں۔ وہ بجلی جو اللہ تمہیں دکھاتا ہے ، یہ اس کے قانون قدرت کے مطابق کام کرتی ہے۔ تم اس سے ڈر بھی جاتے ہو کیونکہ اس کی ماہیت ہی ایسی ہے جو اعصاب کو ہلا مارتے ہے۔ کبھی کبھی یہ بجلی برق بن کر بھی گرتی ہے اور خوفناک شکل میں تباہی بھی مچاتی ہے۔ جیسا کہ بارہا تم کو ۔۔۔ بھی ہوا ہوگا۔ تم اس چمک اور بجلی کے بعد باراں رحمت کے امیدوار بھی ہوتے ہو ، کیونکہ اس چمک اور گرج کے بعد بعض اوقات موسلا دھار بارش ہوتی اور مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔

وینشیء السحاب الثقال (13 : 12) ” وہی ہے جو بارش سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے “۔ بادلوں کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔ سحاب۔۔۔۔ اس جنس کا واحد سحابہ ہے جو بادل کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں۔ ثقال سے مراد وہ بادل ہیں جو بارش کی وجہ سے بوجھل ہیں۔ یہ بادل اللہ کے پیدا کردہ ناموس فطرت کے مطابق پیدا ہوتے ہیں اور موسلا دھار بارشیں برساتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ قانون قدرت اس طرح نہ وضع کرتا تو نہ بادل ہوتے اور نہ یوں بارشیں ہوتیں۔ یہ کہہ کر کہ بادل کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور بارشیں کس طرح برستی ہیں ، ان کی علمی اور سائنسی کیفیت معلوم ہونے سے ان کی خوبصورتی اور سحر آفرینی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ نہ اس سے اس مفہوم میں فرق پڑتا ہے جو قرآن کریم نے اخذ کیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام کام اور عمل صرف اللہ کے پیدا کردہ تکوینی نظام کے مطابق ہوتا ہے ، اس میں کسی انسان کی صنعت کاری کا کوئی دخل نہیں ہے۔ نہ انسانوں کا اس پورے نظام میں کوئی دخل و عمل ہے۔ یہ تکوینی اور طبیعی قواعد جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے نہ خود کائنات نے پیدا کئے ہیں اور نہ خود بخود چل پڑے ہیں ، اس میں جو کچھ بھی چل رہا ہے ایک خالق مطلق کی وجہ سے چل رہا ہے۔

رعد ، باد ، باران کے مناظر میں ایک خاص منظر ہوتا ہے ۔ یہ طویل اور کڑاکے کی آواز۔ یہ بھی اس کرۂ ارض کے قوانین قدرت کا ایک مظاہرہ ہے اور اللہ کی صنعت کاری ہے۔ اس کا سائنسی تجزیہ جو بھی ہو ، اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ اللہ کی تخلیق کا ایک حصہ ہے۔ یہ حمد و تسبیح اس معنی میں کرتا ہے کہ یہ اس قانون قدرت کے مطابق رواں دواں ہے جس کے مطابق اللہ نے یہ نظام بنایا ہے ، جیسا کہ ہر خوبصورت بنائی ہوئی چیز کو دیکھ کر بنانے والی کی حمد و ثنا بےساختہ ہوتی رہتی ہے اور اس کی مصنوعہ چیز کے آثار اور جمال اور افادیت کو دیکھ کر ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ اسی طرح اس کائنات کے اندر پائے جانے والے کمالات اور حیرت انگیز افادیت کی چیزوں کو دیکھنے سے بےساختہ اللہ کی تسبیح زبان پر آجاتی ہے۔ تسبیح کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے اور رعد تو خود ہی پکار رہی ہے ۔ بہرحال ہم ان چیزوں کی تسبیح کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے اور نہ سمجھتے ہوئے بھی ہم ان حقائق پر ایمان لاتے ہیں ۔ خود اپنے بارے میں بھی ابھی تک ہم کم ہی جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہم یہ بھی معلوم کرلیں کہ یہ چیزیں کیسے تسبیح کرتی ہیں۔

یہاں قرآن کریم نے رعد کے بارے میں ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے کہ گویا رعد ایک زندہ مخلوق ہے اور وہ تسبیح کر رہی ہے ، قرآن کریم کا یہ مخصوص انداز ہے کہ وہ مناظر قدرت کو آثار زندگی سے مزین کردیتا ہے حالانکہ یہ مناظر قدرت خاموش ہوتے ہیں اور یہ اس لیے کہ اس پورے منظر میں تمام دوسرے مناظر زندہ ہیں جیسا کہ میں نے اپنی کتاب التصویر الغنی فی القرآن میں تفصیلات دی ہیں۔ اس منظر میں چونکہ زندہ چیزوں کے مناظر ہیں مثلاً تسبیح کر رہے ہیں۔ اللہ کو پکارنا ، شرکاء کو پکارنا اور یہ منظر کہ ایک آدمی پانی کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے کہ وہ خود بخود منہ میں پڑجائے جبکہ وہ پڑنے والا نہیں ہے ، تو ایسے مناظر جن میں ایک طرف پکار ، بندگی اور حرکت ہے ، رعد کو بھی زندہ تصور کر کے تسبیح اور دعاء کی نسبت اس کی طرف کردی گئی۔

اب اس منظر کو ذرا مزید خوفناک بنایا جاتا ہے ، خوف ، دعاء ، برق اور رعد اور بھاری بادل اور یا دو باراں کے ساتھ اب بجلیاں بھی گرتی دکھائی دیتی ہیں ، اور کسی بےچارے پر برق گرتی ہے۔ یہ بجلی جس طرح گرتی ہے وہ اس کائنات کے قدرتی نظام کا حصہ ہے۔ بعض اوقات یہ برق ایسے شخص پر گر جاتی ہے جسے اللہ مزید مہلت دینا نہیں چاہتا کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اب مہلت دینا مناسب نہیں لہٰذا بعض لوگ اس برق کے ذریعے ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔

اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ رعد و برق اور طوفان بادوباراں کی اس فضا میں ، اور رعد اور برق کی جانب سے تسبیح اور ملائکہ کی جانب سے حالت خوف میں اظہار اطاعت ، اور اللہ کے ان غضبناک مظاہر قدرت کے عروج کی حالت میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو ذات باری کے متعلق شبہات کا اظہار کرتے ہیں ، اللہ کے بارے میں مجادلے اور مباحثے کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کے مظاہر بلکہ خوفناک مظاہر وہ خود بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔

وھم یجادلون۔۔۔۔۔۔ المحال (13 : 13) ” یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ اس کی چال بڑی زبردست ہے “۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو ذات باری میں کلام کرتے ہیں لیکن اس ہولناک فضا ، گریہ وزاری اور رعد اور برق ، چیخ اور دھاڑ اور اس ہنگامہ خیز فضا میں جس کی تمام چیزیں وجود باری پر دلالت کرتی ہیں ایسے چند لوگوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کائنات کے تمام قابل ذکر مناظر اللہ کی وحدانیت ، اللہ کی تسبیح و تہلیل پر دلیل ناطق ہیں ، پھر فرشتوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو ہر وقت اللہ کے خوف کے مارے کانپتے رہتے ہیں ، لہٰذا ان مناظر کی موجودگی ، اور ان فرشتوں کے خوف اور تمام انسانوں کے خوف کی اس فضا میں اللہ کے بارے میں کلام کرنے والوں کی بات شا ذو نادر ہے اور بےمحل ہے۔

یہ لوگ اللہ کے بارے میں کلام کرتے ہیں ، مثلاً یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں حالانکہ حقیقت پکارے گا ، لاحاصل پکارتا رہے گا۔

لہ دعوۃ الحق والذین ۔۔۔۔۔۔ فی ضلل (13 : 14) ” اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا ، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بےہدف ! “

یہ منظر بھی بولتا منظر ہے ، متحرک اور پر معنی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک پکار حق ، اور وہی اس بات کی مستحق ہے اور حقیقت پسندانہ ہے اور اس کے سوا جو پکاریں بھی ہیں وہ باطل ، بےفائدہ اور گمراہانہ ہیں۔ کیا تم ذرا غور نہیں کرتے کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں ان میں سے ایک شخص کی مثال ایسی ہے کہ وہ پیاسا ہے اور پیاس کی وجہ سے نڈھال ہو رہا ہے ، اس نے بازو پھیلا رکھے ہیں ، ہاتھ کھول رکھے ہیں ، منہ کھلا ہے اور مسلسل پکار رہا ہے کسی کو ، اپنے سامنے موجود پانی کو ، اے پانی میرے منہ میں آکر پڑجا۔ حالانکہ وہ پڑنے والا نہیں ہے۔ یہ شخص اس پکار اور جدو جہد میں تھک کر چور ہوجاتا ہے اور اس کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا۔

وما ھو۔۔۔۔۔۔ فی ضلل (13 : 14) حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرے بےہدف ! “ یہ مثال اس فضا میں دی گئی ہے کہ ایک پیاس سے نڈھال آدمی ایک قطرۂ آب بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ ایسی فضا میں جس میں ہر طرف برق اور باد و باراں کا طوفان ہے اور یہ تمام خوفناک مناظر اللہ کے قانون قدرت کے مطابق متحرک ہیں۔

جس وقت یہ ناکام اور غلط کار لوگ اللہ کے سوا دوسرے الہوں کو پکارتے ہیں ، غیر اللہ سے امید رکھتے ہیں اور غیر اللہ کے سامنے دست بدعاء ہوتے ہیں ، یہ پوری کائنات اور اس کی ہر چیز اللہ کے سامنے سر بسجود ہوتی ہے ، یہ سب لوگ اور یہ سب مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے اور اللہ کے قانون قدرت میں جکڑی ہوئی ہے۔ اللہ کی سنت کے مطابق چل رہی ہے۔ اس مخلوق میں سے جو مومن ہے وہ خوشی اور مرضی سے اطاعت کرتا ہے اور جو کافر ہیں وہ بھی کرھا اطاعت کرتے ہیں کیونکہ کوئی چیز ارادۂ الٰہی سے نہیں نکل سکتی اور نہ کوئی چیز ناموس الٰہیہ سے نکلتی ہے۔

وللہ یسجد من۔۔۔۔ الاصال (15) السجدہ ” وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً وکرھاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح وشام اس کے آگے جھکتے ہیں “۔ کیونکہ یہ فضا ہی عبادت اور بندگی اور پکار کی فضا ہے۔ سیاق کلام میں قرآن اللہ کے احکام بجا لانے کو لفظ عبادت سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ سجدے میں انسان غایت درجہ خضوع اور اطاعت اختیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آسمانوں اور زمین کی مخلوق کا ذکر بھی کردیا جاتا ہے۔ اور اس کائنات کی تمام چیزوں کے سائے کو بھی اللہ کا مطیع کہا گیا کہ ان چیزوں کے سائے بھی اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ گویا وہ اللہ کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں کیونکہ یہ اطاعت الٰہیہ سے سرموانحراف نہیں کرسکتے اور وہ قانون قدرت کے یوں تابع ہیں جس طرح وہ شخص تبابع ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ یہ تمثیل بھی ہے اور حقیقت بھی ، کیونکہ سایہ سورج کی کرنوں کے تابع ہوتا ہے۔ اس تمثیل کا اس منظر کی فضا پر بھی اثر پڑتا ہے گو سجدے بھی دو قسم کے ہیں۔ افراد کے سجدے اور سایوں کے سجدے۔ اور یہ پوری کائنات بھی اللہ کے تابع فرمان ہے۔ چاہے راہ ایمان سے تابع ہو یا غیر ایمان یعنی قانون قدرت کے ذریعے۔ سب کی سب کائنات بہرحال سر بسجود ہے۔ اور یہ بدبخت مشرک ایسے ہیں جو ان حالات میں بھی غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔

اس عجیب و غریب منظر اور اس پر تاثیر فضا میں اب ان سے پوچھا جاتا ہے ، ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا جواب ہاں کے سوا کچھ نہیں اور یوں ان کو اضحو کہ بنایا جاتا ہے۔

قل من رب السموت۔۔۔۔۔۔ الواحد القھار (13 : 16) ” ان سے پوچھو ، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟۔۔۔ کہو ، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ حقیقت یہ ہے کہ تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ؟ کہو ، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معالہ مشتبہ ہوگیا ؟ ۔۔۔۔ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب ! “

ان سے پوچھو اور حال یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اللہ کے ارادے اور اللہ کی قدرت سے ماخوذ ہے۔ اللہ کی قدرت میں بندھا ہوا ہے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو۔ یہ بوجھ کہ کون ہے رب السموات والارض ؟ یہ سوال اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ کوئی جواب دیں اس کا جواب تو سیاق کلام میں آگیا ہے۔ یہ سب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرلیں۔ جواب تو یہی ہے کہ ” اللہ “ ہے۔ پھر دوسرا سوال یہ کہ تم جن کو پکارتے ہو کیا وہ اپنے نفع ونقصان کے بھی مالک ہیں۔ یہ سوال بھی محض ان کی گوشمالی اور ان کو ذلیل کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ تم سوال کرتے جاؤ، جبکہ یہ مسئلہ بالکل واضح ہے۔ حق و باطل میں امتیاز ہوچکا ہے۔ اس قدر امتیاز ہوچکا ہے کہ جس طرح اندھے اور صاحب بصارت میں فرق ہے یا جس طرح روشنی اور تاریکی میں فرق ہے۔ اعمی اور بصیر میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مومن بصیر ہوتا ہے اور ایک کافر اندھا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اندھا پن ہی انسان کو سچائی کے دیکھنے سے روکتا ہے حالانکہ یہ سچائی ظاہر و باطن ہے۔ اور اس کے آثار زمین و آسمان میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ظلمات اور نور کے تذکرے سے بھی منکرین کے حالات اور مومنین کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔ اندھیرا دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور ان کی حالت بھی یہ ہے کہ ان کے اور سچائی کے درمیان پردے حائل ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہستیاں جن کو یہ لوگ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں انہوں نے کوئی مخلوق پیدا کی ہے جس طرح مخلوقات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی۔ اس طرح ان کو یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ شاید یہ بھی خالقیت میں شریک ہیں یا ان کو شبہ ہوگیا کہ کون سی مخلوق اللہ کی ہے اور کون سی مخلوق ان ہستیوں کی ہے۔ یوں وہ بےچارے معذور ہیں اور یوں اس غلطی کا ارتکاب ممکن ہے کہ انہوں نے اللہ کی ذات وصفات میں ان دوسروں کو شریک کرلیا۔ کیونکہ اس ضرورت میں یہ ہستیاں صفت خالقیت میں شریک تھیں لیکن اگر کسی اور کی کوئی مخلوق ہی نہیں ہے تو پھر شرکت چہ معنی وارد۔

یہ اس قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ جو دعویٰ تو یہ کرتی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک خالق ہے اور پھر دوسروں کو اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہراتی ہے۔ حالانکہ یہ ٹھہراتے ہوئے شریک خودان کے قول کے مطابق بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو الٰہ بھی مانتے ہیں ، ان کی بندگی بھی کرتے ہیں ، لہٰذا فکرو نظر و عقل و بصیرت کا یہ نہایت ہی گھٹیا نمونہ ہے۔

اور اس حقارت آمیز مذاق کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے جس میں کوئی کلام اور مجادلہ کی گنجائش نہیں ہے۔

قل اللہ۔۔۔۔۔ القھار (13 : 16) ” کہو ، ہر چیز کا خالق اللہ ہے ، وہ یکتا اور سب پر غالب ہے “۔ یعنی تخلیق میں بھی وہ واحد اور یکتا ہے۔ غلبے اور زبردستی میں بھی وہی یکتا ہے۔ قہار کے معنی ہیں انتہائی درجے کا غالب حکمران۔ عقیدۂ توحید اور رد شرک کو یہاں یوں احاطہ کیا جاتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہیں ، خواہ کوئی چیز خوشی سے سجدہ کرے (انسان) یا مجبوری سے اور اس سبق کے آخر میں اللہ کی قہاریت کا ذکر کر کے مسئلہ توحید کو یوں بیان کیا گیا کہ اللہ ایسا حکمران ہے جو غایت درجہ غالب اور گرفت والا ہے۔ زمین و آسمان کی سب چیزیں اس کی مطیع فرمان ہیں جیسا کہ رعد و برق اور کڑک سب کی سب اللہ کی تسبیح کرنے میں ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی اندھا یا پتھر دل انسان ہی ہو سکتا ہے جو اللہ کا خوف نہ محسوس کرے اور ایسے شخص کی قسمت میں ہلاکت اور بربادی ہی ہے۔

قبل اس کے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کریں ضروری ہے کہ طرز ادا کے حوالے سے ہم بعض متقابل امور پر غور کریں۔ مثلاً گرج و چمک اور بھاری بادلوں کے اندر خوف اور امید کا ذکر ہے ، جو متقابل ہیں۔ سحاب کے ساتھ ثقال کا ذکر ہے اور ثقل کی وجہ سے وہ دھیمی رفتار سے چلتے ہیں جبکہ چمک اور برق نہایت ہی تیز رفتار ہوتی ہے۔ یہ دونوں مفہوم بھی باہم متقابل اور متضاد ہیں۔ رعد کی تسبیح اللہ کی حمد کے ساتھ ہے اور ملائکہ کی تسبیح خوف کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں بھی باہم متقابل مفہوم ہیں۔ دعوت حق اور دعوت باطل دونوں متقابل مقاصد ہیں۔ زمین و آسمان بھی باہم متقابل ہیں ، سجدۂ رضا و مجبوری ، طوعاً و کرھاً بھی باہم متقابل مفہوم ہیں۔ افراد اور ان کے سائے ، صبح وشام ، اعمی وبصیر ، ظلمات اور نور ، خالق حقیقی اور شرکائے عاجزین ، جو نفع ونقصان کا مالک ہے اور ان کے شرکاء کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اس طرح اس پورے سبق میں باہم متضاد اور متقابل امور کا ذکر کر کے حق و باطل کو سمجھایا گیا ہے۔ اور یہ نہایت ہی خوبصورت طرز ادا ہے اور ہے بھی عجیب و غریب ہم آہنگی کے ساتھ۔

اب ہم ذرا مزید آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ حق و باطل کی ایک اور مثال بیان فرماتے ہیں۔ ایک دعوت حق ہے جو ہمیشہ زمین پر باقی رہتی ہے اور ایک دعوت باطل ہے جو ادھر چلتی ہے جدھر ہوا کا رخ ہو۔ ایک بھلائی ہے جو پروقار اور جمی رہتی ہے۔ ایک شر اور برائی ہے جو پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ یہاں جو مثال دی جا رہی ہے وہ اللہ واحد اور قہار کی قوت کیا ہے۔ یہ مثال بھی انہی مناظر قدرت کی ہم جنس ہے جو اس سبق کا موضوع خاص ہیں۔

اردو ترجمہ

بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayusabbihu alrraAAdu bihamdihi waalmalaikatu min kheefatihi wayursilu alssawaAAiqa fayuseebu biha man yashao wahum yujadiloona fee Allahi wahuwa shadeedu almihali
250