سورہ تکویر: آیت 1 - إذا الشمس كورت... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ تکویر

إِذَا ٱلشَّمْسُ كُوِّرَتْ

اردو ترجمہ

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alshshamsu kuwwirat

آیت 1 کی تفسیر

یہ ایک منظر ہے جس میں اس پوری کائنات میں مکمل انقلاب کے نظارے کی عکاسی کی گئی ہے۔ تمام موجودات کے اندر انقلاب برپا ہے ، یہ انقلاب اجرام سماوی اور اس کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ وحشی جانور اور خانگی جانور بھی اس سے متاثر ہیں ، نفس انسانی اور اس کی حرکات بدل چکی ہیں ، ہر نامعلوم حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے اور ہر راز طشت ازبام ہوچکا ہے۔ اور انسان اپنی کمائی اور اپنے اس زادراہ کے سامنے کھڑا ہے اور حساب و کتاب شروع ہے اور حیران وپریشان ہے کہ اس کے ارد گرد ہر چیز اس عظیم طوفان کی زد میں آچکی ہے ، اور کائنات کا تمام نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے۔

یہ عظیم کائناتی واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہ حسین و جمیل اور یہ عظیم کائنات اور اس کا نظام ، جس کی تمام حرکات موزوں اور مرتب ہیں ، جس کی شاخت نہایت ہی مستحکم ہے۔ اور جس کے اندر قائم کشش نہایت موزوں ہے اور جسے نہایت علیم و حکیم ہاتھوں نے بنایا ہے ، یہ پوری کائنات بکھر بکھر جائے گی ، اس کے اس مستحکم نظام کی بندش کھل جائے گی۔ جن قوتوں اور جن صفات کی وجہ سے یہ اس طرح چل رہی ہے ، یہ سب جاتی رہیں گی ، غرض یہ پورا موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر یہ کائنات اور اس کی مخلوقات ایک نئی زندگی پائیں گے۔ یہ نئی کائنات اور یہ نئی زندگی موجودہ خصوصیات سے مختلف ہوگی۔

یہی تصور ہے جو یہ سورت قلب ونظر میں بٹھانا چاہتی ہے تاکہ انسان سوچ لے اور انسانی شعور ان ظاہری اور عارضی مناظر سے ہٹ جائے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ بہت ہی مضبوط نظر آئیں اور ان حقائق کو اپنے اندر سمولے جو باقی رہنے والے ہیں۔ انسان اس ذات باری کات صور کرے جو باقی اور لازوال ہے اور وہ ذات اس وقت بھی باقی ہوگی جبکہ یہ پوری کائنات زائل ہوجائے گی اور عظیم حوادث اس کی شکل ہی بدل دیں گے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس ظاہری اور عادی اور صرف نظر آنے والی کائنات کے دائرے سے نکل کر اس مطلق حقیقت اور ذات باری کے ساتھ جڑ جائے جو زمان ومکاں سے وراء ہے جو انسانی احساس اور تصور سے آگے ہے ، جو کسی دائرے اور حد کے اندر محدود نہیں ہے۔

یہ ہے وہ حقیقی شعور جو ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان ان عظیم انقلابی مناظر کو اس سورت میں دیکھتا ہے۔ اس مشاہدے سے گویا انسان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور اللہ کی عظمت کا شعور ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔

لیکن عملاً کیا ہوگا ؟ تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ہمارا شعور اور ہمارا تصور بہت محدود ہے۔ آج ہم ان عظیم انقلابات کا پور اتصور نہیں کرسکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس زمین پر ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ اور یہ زلزلہ ہر طرف تباہی مچا دے گا اور زمین کے اندر سے ایک ایسا ناقابل کنٹرول آتش فشانی کا عمل ہوگا اور زمین کے اوپر سیارے اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے اور سمندروں کا پانی طوفانی شکل اختیار کرلے گا اور یہ کو سورج کے اندر بھی آتش فشانی کا عمل ہوگا اور اس کے شعلے لاکھوں میلوں تک اٹھیں گے اور یہ مشاہدات انسان دیکھ بھی سکے گا۔

لیکن قیامت کے برپا ہونے کے وقت جو کائناتی انقلابات ہوں گے ، ہماری یہ سوچ یہ باتیں اور یہ مشاہدات ان کے مقابلے میں طفل تسلیاں ہیں۔ اگر ہمارے لئے ان کا سمجھنا ضروری ہے تو ہم صرف ایسی عبارات میں لاسکتے جو ان واقعات کا مجمل سا تصور پیش کریں کیونکہ اس کے سوا ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

اذا الشمس کورت (1:81) ” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا “۔ اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے اندر برپا اشتعال ختم ہوجائے گا۔ اس وقت سورج کے اندر جلن کا عمل شروع ہے اور اس سے جو شعلے اٹھ رہے ہیں ، وہ اس کے اردگرہزاروں میل تک بلند ہوتے ہیں۔ جب سورج گرہن ہوتا ہے تو اس وقت رصدگاہوں سے یہ عمل صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ سورج کے اس جلنے کے عمل سے سورج پر موجود تمام مواد ایک اڑتے ہوئے گیس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یہ گیس جلتی ہوئی سورج کی فضا میں بلند ہوتی ہے۔ یہ حالت اس طرح نہ رہے گی اور سورج اسی طرح ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جس طرح ہماری یہ زمین ٹھنڈی ہوگئی ہے اور اس کے اوپر کوئی التہابی عمل نہیں ہے۔ اس کے سوا سورت کا اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یہ عوامل کس طرح وجود میں آئیں گے ، ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔

یعنی سوج بےنور ہوجائیگا، جاتا رہے گا اوندھا کر کے لپیٹ کر زمین پر پھینک دیا جائیگا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو لپیٹ کر بےنور کر کے سمندروں میں ڈال دیا جائیگا اور پھر مغربی ہوائیں چلیں گی اور آگ لگ جائیگی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اس کو تہہ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائیگا (ابن ابی حاتم) اور ایک حدیث میں سورج کے ساتھ چاند کا ذکر بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث الفاظ کی تبدیلی سے مروی ہے، اس میں ہے کہ سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ لیے جائیں گے امام بخاری اسے کتاب بدء الخلق میں لائے ہیں لیکن یہاں لانا زیادہ مناسب تھا یا مطابق عادت وہاں اور یہاں دونوں جگہ لاتے جیسے کہ امام صاحب کی عادت ہے حضرت ابوہریرہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے دن یہ ہوگا، تو حضرت حسن کہنے لگے ان کا کیا گناہ ہے ؟ فرمایا میں نے حدیث کہی اور تم اس پر باتیں بناتے ہو سورج کی قیامت والے دن یہ حالت ہوگی ستارے سارے متغیر ہو کر جھڑ جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ ۙ) 82۔ الإنفطار :2) یہ بھی گدلے اور بےنور ہو کر بجھ جائیں گے، حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اچانک سورج کی روشنی جاتی رہیگی اور پھر ناگہاں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے پھر اچانک پہاڑ زمین پر گرپڑیں گے اور زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگے گی اور بےطرح ہلنے لگے گی بس پھر کیا انسان کیا جنات کیا جانور اور کیا جنگلی جانور سب آپس میں خلط ملط ہوجائیں گے، جانور بھی جو انسانوں سے بھاگے پھرتے ہیں انسانوں کے پاس آجائیں گے لوگوں کو اس قدر بد حواسی اور گھبراہٹ ہوگی کہ بہتر سے بہتر مال اونٹیاں جو بیاہنے والیاں ہوں گی ان کی بھی خیر خبر نہ لیں گے۔ جنات کہیں گے کہ ہم جاتے ہیں کہ تحقیق کریں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ سمندروں میں بھی آگ لگ رہی ہے، اسی حال میں ایک دم زمین پھٹنے لگے گی اور آسمان بھی ٹوٹنے لگیں گے، ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمانوں کا یہی حال ہوگا ادھر سے ایک تند ہوا چلے گی جس سے تمام جاندار مرجائیں گے۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ سارے ستارے اور جن جن کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے سب جہنم میں گرا دیئے جائیں صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم بچ رہیں گے اگر یہ بھی اپنی عبادت سے خوش ہوتے تو یہ بھی جہنم میں داخل کر دئیے جاتے (ابن ابی حاتم) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے اور بےنام و نشان ہوجائیں گے، زمین چٹیل اور ہموار میدان رہ جائے گی، اونٹنیاں بیکار چھوڑ دی جائیں گی، نہ ان کی کوئی نگرانی کریگا نہ چرائے چگائے گا نہ دودھ نکالے گا نہ سواری لے گا عشار جمع ہے عشرا کی جو حاملہ اونٹی دسویں مہینہ میں لگ جائے اسے عشراء کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بد حواسی بےچینی اور پریشانی اس قدر ہوگی کہ بہتر سے بہتر مال کی بھی پرواہ نہ رہیگی قیامت کی ان بلاؤں نے دل اڑا دیا ہوگا کلیجے منہ کو آئیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن ہوگا اور لوگوں کو اس سے کچھ سروکار نہ ہوگا ہاں ان کے دیکھنے میں یہ ہوگا اس قول کے قائل " عشار " کے کئی معنی بیان کرتے ہیں ایک تو یہ کہتے ہیں اس سے مراد بادل ہیں جو دنیا کی بربادی کی وجہ سے آسمان و زمین کے درمیان پھرتے پھریں گے بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ زمین ہے جس کا عشر دیا جاتا ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد گھر ہیں جو پہلے آباد تھے اب ویران ہیں امام قرطبی ان اقوال کو بیان کر کے ترجیح اسی کو دیتے ہیں کہ مراد اس سے اونٹنیاں ہیں اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں کہ سلف سے اور ائمہ سے اس کے سوا کچھ وارد ہی نہیں ہوا واللہ اعلم اور وحشی جانور جمع کیے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت (وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ 38؀) 6۔ الانعام :38) یعنی زمین پر چلنے والے کل جانور اور ہوا میں اڑنے والے کل پرند بھی تمہاری طرح گروہ ہیں ہم نے اپنی کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر یہ سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے سب جانداروں کا حشر اسی کے پاس ہوگا یہاں تک کہ مکھیاں بھی ان سب میں اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلے کریگا ان جانوروں کا حشر ان کی موت ہی ہے البتہ جن و انس اللہ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے حساب کتاب ہوگا ربیع بن خثیم نے کہا مراد وحشیوں کے حشر سے ان پر اللہ کا امر آنا ہے لیکن ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا کہ اس سے مراد موت ہے یہ تمام جانور بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ ہوجائیں گے خود قرآن میں اور جگہ ہے آیت (وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ 1009) 38۔ ص :19) پرند جمع کیے ہوئے پس ٹھیک مطلب اس آیت کا بھی یہی ہے کہ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے حضرت علی ؓ نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے ؟ اس نے کہا سمندر میں آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ سچا ہے قرآن کہتا ہے آیت (وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ ۙ) 52۔ الطور :6) اور فرماتا ہے آیت (وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ۽) 81۔ التکوير :6) ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مغربی ہوائیں بھیجے گا وہ اسے بھڑکا دیں گی اور شعلے مارتی ہوئی آگ بن جائیگا آیت (وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ۽) 81۔ التکوير :6) کی تفسیر میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے حضرت معاویہ بن سعید فرماتے ہیں بحر روم میں برکت ہے یہ زمین کے درمیان میں ہے سب نہریں اس میں گرتی ہیں اور بحر کبیر بھی اس میں پڑتا ہے اس کے نیچے کنویں ہیں جن کے منہ تانبہ سے بند کیے ہوئے ہیں قیام کے دن وہ سلگ اٹھیں گے، یہ اثر عجیب ہے اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ہاں ابو داؤد میں ایک حدیث ہے کہ سمندر کا سفر صرف حاجی کریں اور عمرہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے غازی اس لیے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے پانی ہے اس کا بیان بھی سورة فاطر کی تفسیر میں گزر چکا ہے سجرت کے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ خشک کردیا جائیگا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہیگا، یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ بہا دیا جائے گا اور ادھر ادھر بہ نکلے گا پھر فرماتا ہے کہ ہر قسم کے لوگ یکجا جمع کر دئیے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت (اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ) 37۔ الصافات :22) ظالموں کو اور ان کے جوڑوں یعنی ان جیسوں کو جمع کرو حدیث میں ہے ہر شخص کا اس قوم کے ساتھ حشر کیا جائے گا جو اس جیسے اعمال کرتی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً ۭ) 56۔ الواقعة :7) تم تین طرح کے گروہ ہوجاؤ گے کچھ وہ جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوں گے کچھ بائیں ہاتھ والے کچھ سبقت کرنے والے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خطبہ پڑھتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ہر جماعت اپنے جیسوں سے مل جائیگی، دوسری روایت میں ہے کہ وہ دو شخص جن کے عمل ایک جیسے ہوں وہ یا تو جنت میں ساتھ رہیں گے یا جہنم میں ساتھ جلیں گے، حضرت عمر سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا نیک نیکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور بدبدوں کے ساتھ آگ میں، حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو سب خاموش رہے، آپ نے فرمایا لو میں بتاؤں، آدمی کا جوڑا جنت میں اسی جیسا ہوگا اسی طرح جہنم میں بھی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب اس سے یہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ہوجائیں گے یعنی اصحاب الیمین اصحاب الشمال اور سابقین۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر قسم کے لوگ ایک ساتھ ہوں گے یہی قول امام ابن جریر بھی پسند کرتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے پاس سے پانی کا ایک دریا جاری ہوگا جو چالیس سال تک بہتا رہیگا اور بڑی نمایاں چوڑان میں ہوگا اس سے تمام مرے سڑے گلے اگنے لگیں گے اس طرح کے ہوجائیں گے کہ جو انہیں پہچانتا ہو وہ اگر انہیں اب دیکھ لے توبہ یک نگاہ پہچان لے پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آجائے گی یہی معنی ہیں آیت (وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ۽) 81۔ التکوير :7) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے (تذکرہ قرطبی) پھر ارشاد ہوتا ہے آیت (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ۽) 81۔ التکوير :8) جمہور کی قراۃ یہی ہے اہل جاہلیت لڑکیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ درگور کردیا کرتے تھے ان سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ یہ کیوں قتل کی گئیں ؟ تاکہ ان کے قاتلوں کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور شرمندگی ہو اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب مظلوم سے سوال ہوا تو ظالم کا تو کہنا ہی کیا ہے ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خود پوچھیں گی کہ انہیں کس بنا پر زندہ درگور کیا گیا ؟ اس کے متعلق احادیث سنئے مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو حالت حمل کی مجامعت سے روک دوں لیکن میں نے دیکھا کہ رومی اور فارسی یہ کام کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے عزل کے بارے میں سوال کیا یعنی بروقت نطفہ کو باہر ڈال دینے کے بارے میں تو آپ نے فرمایا کہ یہ درپردہ زندہ گاڑ دینا ہے اور اسی کا بیان واذا الموؤدۃ الخ میں ہے۔ سلمہ بن یزید اور ان کے بھائی سرکار نبوت میں حاضر ہو کر سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھیں وہ صلہ رحمی کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور بھی نیک کام بہت کچھ کرتی تھیں لیکن جاہلیت میں ہی مرگئی ہیں تو کیا اس کے یہ نیک کام اسے کچھ نفع دیں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا کہ اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کردیا ہے کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی ؟ آپ نے فرمایا زندہ گاڑی ہوئی اور زندہ گاڑنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرلے (مسند احمد) ابن ابی حاتم میں ہے زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں ایک صحابیہ ؓ کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا آپ نے فرمایا نبی، شہید، بچے اور زندہ درگور کی ہوئی۔ یہ حدیث مرسل ہے حضرت حسن سے جسے بعض محدثین نے قبولیت کا مرتبہ دیا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں کے چھوٹی عمر میں مرے ہوئے بچے جنتی ہیں جو انہیں جہنمی کہے وہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ۽) 81۔ التکوير :8) (ابن ابی حاتم) قیس بن عاصم ؓ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی بچیوں کو زندہ دبا دیا ہے میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو انہوں نے کہا حضور ﷺ غلام والا تو میں ہوں نہیں البتہ میرے پاس اونٹ ہیں فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پر قربان کرو (عبدالرزاق) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کردی ہیں آپ نے فرمایا ان کی گنتی کے مطابق غلام آزاد کرو انہوں نے کہا بہت بہتر میں یہی کروں گا دوسرے سال وہاں یک سو اونٹ لے کر آئے اور کہنے لگے حضور ﷺ یہ میری قوم کا صدقہ ہے جو اس کے بدلے ہے جو میں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ حضرت علی فرماتے ہیں ہم ان اونٹوں کو لے جاتے تھے اور ان کا قیسیہ رکھ چھوڑا تھا۔ پھر ارشاد ہے کہ نامہ اعمال بانٹے جائیں گے کسی کے داہنے ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں، اے ابن آدم تو لکھوا رہا ہے جو لپیٹ کر پھیلا کر تجھے دیا جائے گا دیکھ لے کہ کیا لکھوا کے لایا ہے آسمان گھسیٹ لیا جائے گا اور کھینچ لیا جائے گا اور سمیٹ لیا جائے گا اور برباد ہوجائے گا جہنم بھڑکائی جائے گی اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں سے اس کی آگ تیز ہوجائے گی جنت جنتیوں کے پاس آجائے گی جب یہ تمام کام ہو چکیں گے اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں کیا کچھ اعمال کیے تھے وہ سب عمل اس کے سامنے موجود ہوں گے جیسے اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا) 3۔ آل عمران :30) جس دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو پالے گا نیک ہیں تو سامنے دیکھ لے گا اور بد ہیں تو اس دن وہ آرزو کریگا کہ کاش ! اس کے اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی اور جگہ ہے آیت (يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ) 75۔ القیامة :13) اس دن انسان کو اس کے تمام اگلے پچھلے اعمال سے تنبیہہ کی جائے گی حضرت عمر اس سورت کو سنتے رہے اور اس کو سنتے ہی فرمایا اگلی تمام باتیں اسی لیے بیان ہوئی تھیں۔

آیت 1 - سورہ تکویر: (إذا الشمس كورت...) - اردو