سورہ تکویر: آیت 19 - إنه لقول رسول كريم... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورہ تکویر

إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ

اردو ترجمہ

یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu laqawlu rasoolin kareemin

آیت 19 کی تفسیر

انہ لقول ............................ امین (19:81 تا 21) ” یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغمبر کا قول ہے ، جو بڑی توانائی رکھتا ہے ، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے ، وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے ، وہ بااعتماد ہے “۔ یعنی یہ قرآن مجید جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ، خصوصاً یہ قیامت کی ہولناکیاں جو بیان کی جارہی ہیں ، یہ رسول مکرم کا قول ہے ، یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کا جو خدا کے فرستادہ ہیں اور جنہوں نے اس بات کو بحفاظت پہنچایا ہے اور گویا قرآن پہلے خدا کا قول ہے اور پھر جبرئیل (علیہ السلام) کا قول ہے کہ انہوں نے بطور پیغام الٰہی دہرایا ہے۔

اور یہ پیغام لانے والا ، جس کے ذمہ اس اہم پیغام کو آسمانوں سے نیچے پہنچانے کی ذمہ داری لگائی گئی وہ کیسی شخصیت ہے ؟ یہ اللہ کے ہاں نہایت مکرم ہے اور اللہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ نہایت ہی پختہ صلاحیتوں والا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جس فرشتے کی ذمہ داری تھی اسے اس بات کی ضرورت تھی کہ اسے اس کام کے لئے توفیق عطا ہو۔ اس کا اللہ کے ہاں مقام و مرتبہ بلند ہو اور عرش عظیم کے مالک کے ہاں وہ مکرم ہو اور مقرب ہو اور امین اور قابل اعتماد ہو ، جو بات اسے دی گئی اسے پوری طرح پہنچاتا بھی ہو اور پہنچا بھی سکتا ہو۔

ان کی صفات سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ کلام نہایت مہتم بالشان ہے۔ بلند مرتبہ اور اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کس قدر مہربانی فرمائی ہے کہ انسان کی ہدایت کے لئے قرآن نازل کرنے کے لئے اس قسم کا پیغمبر مقرر کیا ہے جو نبی مختار تک یہ پیغام پہنچاتا ہے۔ یہ اس قدر عظیم مہربانی اور عنایت ہے کہ اگر انسان اس پغور کرے تو وہ پانی پانی ہوجائے کہ رب کائنات اسنان پر اس قدر کرم فرماتا ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں انسان مکرم ، اس پر آنے والا پیغام مکرم اور لانے والا فرشتہ مکرم ، اور جس نبی پر وہ آیا وہ نبی مختار مکرم ہے۔

یہ صفت تو اس پیغام لانے والے کی ہے جو اللہ کا کلام لایا اور نبی مختار کے حوالے کیا۔ اور اس رسول کا مقام ہے جو لوگوں کے پاس یہ پیغام لے کر آیا ہے تو وہ تو تمہارے ساتھی اور بھائی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک تمہارے اندر رہا ہے لہٰذا یہ بات قابل تعجب ہے کہ جب وہ تمہارے پاس یہ کلام عالیشان لے کر آیا تو تم نے اس پر الزامات کی بوجھاڑ کردی۔ اور اس کے بارے میں تم نے مختلف رویے اختیار کرلیے حالانکہ وہ تمہارے ساتھی ہیں ، جس کے بارے میں تمہیں پوری پوری معلومات ہیں ، وہ تمہیں جو غیب کی باتیں بتاتے ہیں ان کے سلسلے میں وہ نہایت امین ہیں۔

آیت 19{ اِنَّہٗ لَـقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یقینا یہ قرآن ایک بہت باعزت پیغامبر کا قول ہے۔“ یہاں ”رَسُوْلٍ کَرِیْم“ سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ یہ آیت قبل ازیں سورة الحاقہ میں بھی بطور آیت 40 آچکی ہے اور وہاں ”رَسُوْلٍ کَرِیْم“ سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ سورة الحج آیت 75 میں فرمایا گیا ہے : { اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِط } ”اللہ ُ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی“۔ چناچہ فرشتوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ُ چنا اور انسانوں میں سے حضرت محمد ﷺ کو اور یوں ان دو ہستیوں کے ذریعے سے ”رسالت“ کا سلسلہ تکمیل پذیر ہوا۔ زیر مطالعہ آیات میں رسول کریم بشر محمد ٌرسول اللہ ﷺ اور رسول کریم ملک حضرت جبرائیل کی ملاقات کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ رسالت کی ان دو کڑیوں کے ملنے کا ثبوت فراہم ہوجائے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة النجم میں بھی آچکا ہے۔

آیت 19 - سورہ تکویر: (إنه لقول رسول كريم...) - اردو