سورہ تکویر: آیت 22 - وما صاحبكم بمجنون... - اردو

آیت 22 کی تفسیر, سورہ تکویر

وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ

اردو ترجمہ

اور (اے اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama sahibukum bimajnoonin

آیت 22 کی تفسیر

وما صاحبکم ................................ رب العلمین (22:81 تا 29) ” اور (اے اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے ، اس نے اس پیغمبر کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ اور وہ غیب (کے اس علم کو لوگوں تک پہنچانے) کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے۔ اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔ پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو ؟ یہ تو سارے جہان والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ، تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے “۔ یہ لوگ نبی کریم کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے ، یہ بھی جانتے تھے کہ آپ انتہائی عقلمند آدمی ہیں ، سچے اور امین ہیں اور ثابت قدم اور راہ راست پر ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ کہتے تھے کہ آپ پاگل ہیں اور یہ کہ آپ جو باتیں فرماتے ہیں۔ آپ پر یہ شیطان القاء کرتا ہے۔ اور یہ باتیں وہ لوگ نبی کریم کے خلاف بطور سازش کرتے تھے جس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں اور بعض لوگ قرآن کریم کے کلام عالی سے مرعوب ہوکر ایسا کرتے تھے کہ کوئی انسان ایسا کلام پیش نہیں کرسکتا۔ نہ انہوں نے کسی انسان سے ایسا کلام سنا تھا۔ پھر ان کے اندر یہ تصور بھی تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوتا ہے اور وہ شاعروں پر یہ کلام القاء کرتا ہے اور ان کا یہ تصور بھی تھا کہ کاہنوں کے ساتھ بھی شیاطین لگتے ہوتے ہیں ، ان پر بھی وہ غیب کی باتیں القاء کرتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ان میں عام تھی کہ بعض اوقات شیطان بعض لوگوں کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ اور ان کی زبان پر وہ اپنی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کلام عالی شان کی سچی تاویل اور تعبیر کرنے کے لئے وہ بہرحال تیار نہ تھے کہ یہ کلام رب العالمین کی طرف سے ہے۔

چناچہ اس پیراگراف میں قرآن نے ان کو اس کائنات کی خوبصورتی کی طرف متوجہ کیا ، اس کائنات کے زندہ اور تابندہ مناظر پر غور کرنے کی دعوت دی اور اس کے ذریعہ ان کے ذہن میں یہ تصور بٹھایا کہ یہ قرآن بھی اس کائنات کی طرح ایک بدیع اور بےمثال کلام ہے۔ اور اس ذات کی طرف سے ہے جو اس کائنات کی خالق ہے۔ جس نے جس طرح اس کائنات میں جمال رکھا ہے اسی طرح قرآن میں بھی جمال رکھا ہے۔ جس کی کوئی مثال نہیں۔ چناچہ قرآن نے قرآن کے حامل فرشتے ، قرآن کے مبلغ رسول کی صفات بیان کیں کہ یہ رسول تو تمہارا ساتھی ہے ، تم اسے جانتے ہو۔ اس میں مجنون ہونے کی کوئی صفت نہیں ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے اس فرشتے کو دیکھا ہے ، جو اس پر کلام لایا ہے۔ اس وقت وہ فرشتہ افق پر چھایا ہوا تھا اور رسول کو حق الیقین تھا کہ یہ فرشتہ ہے ، فرستادہ رب العالمین ہے اور جو غیب کے علوم حضور پر آتے ہیں آپ نہایت امانت پے پہنچاتے ہیں۔ ان باتوں میں کوئی مشکوک بات نہیں ہے۔ خود تم نے بھی رسول اللہ سے کبھی کوئی غلط بات نہیں سنی۔

آیت 22{ وَمَا صَاحِبُـکُمْ بِمَجْنُوْنٍ۔ } ”اور تمہارے یہ ساتھی محمد ﷺ کوئی مجنون نہیں ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات سورة النجم کی ابتدائی آیات کے ساتھ خصوصی مناسبت اور مشابہت رکھتی ہیں۔ وہاں بھی اس مضمون کا آغاز ستارے کی قسم وَالنَّجْم سے ہوا ہے اور یہاں بھی اس موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے آیات 15 اور 16 میں ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ وہاں صَاحِبُکُمْ سے بات شروع ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذکر تک آئی ہے ‘ جبکہ یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر پہلے اور صَاحِبُکُمْ کا بیان بعد میں آیا ہے۔ وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر شَدِیْدُ الْقُوٰی کے لقب سے ہوا ہے جبکہ یہاں ان علیہ السلام کی شان میں ذِیْ قُوَّۃٍ کے الفاظ آئے ہیں۔

آیت 22 - سورہ تکویر: (وما صاحبكم بمجنون...) - اردو