سورہ فصیلات: آیت 1 - حم... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ فصیلات

حمٓ

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 227 تشریح آیات

آیت نمبراتا 8

حروف مقطعات کے بارے میں بات کئی سورتوں میں ہوچکی ہے اور اس افتتاح مکرر ” تم “ میں بھی وہی اشارہ ہے جس طرح قرآن کریم کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ بار بار ان حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انسانی دل و دماغ پر اثر ڈالتے ہیں اور تکرار اس لیے کہ انسان کو باربار یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نظر سے نصب العین اوجھل ہوجاتا ہے اور اس کے ذہین میں کوئی بھی شعوری حقیقت بٹھانے کے لیے ۔ اسے باربار تنبیہہ کی ضرورت ہوتی ہے اور قرآن کا نازل کرنے والا اپنے تخلیق کردہ فطرت انسانی سے خوب واقف ہے۔ اور اس کے خصائص اور صلاحیتیں اسی نے عطا کی ہیں اس لیے وہ باربار یاد دلاتا ہے ، وہ خالق قلب اور مصرف القلوب ہے۔

حٰم ۔۔۔۔ الرحیم (41: 1 تا 2) ” یہ حدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے “۔ حم گویا سورت کا نام یا جنس قرآن جو انہی حروف سے بنایا گیا ہے۔ حم مبتداء ہے اور تنزیل خبر ہے یعنی یہ ہیں حم (جن سے قرآن بنا ہے جو ) رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل ہورہا ہے۔

نزول کتاب کے وقت رحمن ورحیم کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ اس تنزیل کی صفات عالیہ رحمت الہیہ ہے۔ اور یہ کتاب اور حاصل کتاب بطور رحمت اللعالمین آئے۔ یہ صرف ان لوگوں پر رحمت نہیں ہے جو ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں۔ بلکہ غیروں کے لیے بھی رحمت ہے صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام زندہ لوگوں کے لیے رحمت ہے کیونکہ اس کتاب نے ایک ایسا منہاج حیات دنیا کو دیا جس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ انسانیت کو نئی زندگی ملی۔ اس کو تصورات دیئے ، اس کو علم دیا اور عرض اس قرآن نے انسانیت کے آگے بڑھنے کی سمت ہی بدل کر رکھ دی۔ قرآن کے رحیمانہ اثرات صرف اہل ایمان تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے اثرات عالمی تھے اور اس وقت سے آج تک یہ اثرات جاری ہیں۔ جو لوگ انسانی تاریخ کا مطالعہ انصاف سے کرتے ہیں اور اس کا عام انسانی زاویہ سے مطالعہ کرتے ہیں اور اس مطالعہ میں انسانی سرگرمیوں کا پوری طرح احاطہ کرتے ہیں وہ اس حقیقت کو پاتے ہیں اور نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا اعتراف کرکے اس نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا

اعتراف کرکے اس کو ریکارڈ کرادیا ہے۔

کتٰب۔۔۔ یعلمون (41: 3) ” ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی اغراض ومقاصد کے لحاظ سے ، لوگون کی طبیعت کے مطابق ، معاشروں اور زمانوں کے مطابق ، لوگوں کی نفسیات اور انکی ضروریات کے مطابق اس کی آیات کو نہایت پختہ انداز میں مفصل بنایا گیا ہے۔ اور یہ اس کتاب کی امتیازی خصوصیت ہے اس زاویہ سے یہ کتاب مفصل اور محکم ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے یہ کتاب مفصل ہے۔ پھر عربی زبان میں ہے۔

لقوم یعلمون (41: 3) ” ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی جن کے پاس علمی استعداد ہے وہ سمجھ سکتے ہیں اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرسکتے ہیں۔ اس قرآن کے نزول کا بڑا مقصد بشارت اور ڈراوا ہے۔

بشیراونذیرا (41: 4) ” بشارت دینے والا اور ڈرانے والا “۔ یہ قرآن مومنین کو بشارت دیتا ہے اور مکذبین اور بدکاروں کو ڈراتا ہے اور پھر خوشخبری اور ڈراوے کے اسباب بھی بتاتا ہے۔ یہ اسباب وہ عربی مبین میں بتاتا ہے اور ان لوگوں کے سامنے پیش ہورہا ہے جو عرب ہیں لیکن ان کی اکثریت اسے قبول نہیں کررہی ہے۔

فاعرض اکثرھم فھم لایسمعون (41: 4) ” مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے “۔

اور یہ لوگ روگردانی اس لیے کرتے تھے اور نہ سنتے تھے اور اپنے دلوں کو روگردانی کرکے قرآن سننے سے بچاتے تھے۔ کیونکہ قرآن غضب کی تاثیر رکھتا ہے اس لیے جو جمہور عوام کو بھی اس بات پر ابھارتے تھے کہ نہ سنو جس طرح عنقریب اس کی تفصیلات آئیں گی۔

وقالوالا۔۔۔۔۔ تغلبون (41: 26) ” منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ بعض اوقات وہ سنتے تھے لیکن اس طرح جیسے کہ نہ سنتے ہوں ، اس لیے قرآن کے ان پر جو اثرات پڑتے تھے ، ہٹ دگرمی کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ گویا وہ بہرے ہیں ، سنتے ہی نہیں۔

وقالوا قلوبنا۔۔۔۔ عملون (41: 5) ” کہتے ہیں : جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں میں غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ، تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جارہے ہیں “ یہ بات وہ گہری ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو مایوس کرنے کے لیے کہتے تھے تاکہ آپ دعوت دینا بند کردیں کیونکہ وہ آپ کی دعوت کا اثر خود اپنے دلوں میں پاتے تھے اور وہ بالا راوہ اس موقف پر جمے ہوئے تھے کہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔

چناچہ انہوں نے کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں ڈھنپے ہوئے ہیں ، تمہاری بات تو ہمارے دلوں تک پہنچتی ہی نہیں ۔ ہمارے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں ، لہٰذا تمہاری بات ہم تک پہنچتی ہی نہیں۔ تمہارے اور ہمارے درمیان پردے حائل ہیں ، اس لیے رابطے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم کیا کرتے ہو ، کیا کہتے ہو ، کس سے ڈارتے ہو ، کس کا وعدہ کرتے ہو ، ہم اپنی راہ پر چلنے والے ہیں۔ تم چاہو تو اپنی راہ پر چلو ، تمہاری جو مرضی ہے ، کرو۔ ہم نے سن کر نہیں دینا۔ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے ہی آؤ۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

یہ تھے وہ حالات و مشکلات جن سے داعی اول ﷺ دوچار تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ دعوت دیتے جاتے تھے۔ کبھی رکے نہیں تھے۔ ان مایوس کن حالات سے کبھی آپ متاثر نہیں ہوئے ، کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اتنا عرصہ ہوگیا ، اللہ کا وعدہ سچا نہیں ہوا اور نہ دشمنوں پر عذاب آیا۔ آپ یہی کہتے کہ اللہ کے وعدے کا پورا ہونا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو ایک بشر ہوں۔ اللہ کا پیغام میرے پاس آتا ہے اور میں تبلیغ کرتا ہوں ، لوگوں کو اللہ واحد کی طرف بلاتا ہوں اور جو مان لیں ، ان سے کہتا ہوں کہ اسی راستے پر جم جاؤ، اور مشرکین کو انجام بد سے ڈراتا ہوں اس کے بعد کے مراحل میرے اختیار میں نہیں۔ میں تو ایک بشر اور مامور ہوں۔

قل انمآ۔۔۔۔۔ وویل المشرکین (41: 6) ” اے نبی ؐ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہار خدا تو بس ایک ہی خدا ہے ، لہذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے “۔ کس قدر عظیم صفر ہے ! کس قدر برداشت ہے ! کیا عظیم ایمان ہے اور تسلیم ورضا ہے ! لیکن ایسی صورت حال کو صرف وہی داعی سمجھ سکتا ہے ، ایسے حالات پر وہی صبر کرسکتا ہے ، اس قسم کے حالات میں سرف وہی ماحول سے لاپرواہ ہوکر دعوت دیتے آگے بڑھ سکتا ہے اور اعراض ، تکذیب ، تکبر اور توہین آمیز سلوک کو برداشت کرسکتا ہے جو ایسے حالات سے دوچار ہوگیا ہو ، جس نے تجربہ کرلیا ہو کہ جلد بازی نہیں کرنی ، جس نے روگردانی کرنے والوں ، متکبرین اور سرکشوں کی مدافعت کی ہو ، جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کی ہو ، اور جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کرنے کا حوصلہ پایا ہو اور پھر ان مشکلات کے باوجود وہ ڈٹ گیا ہو۔

ایسے ہی مقامات کی وجہ سے انبیاء ورسل کو باربار ہدایت کی گئی ہے کہ صبر کریں ، کیونکہ دعوت کی راہ صبر کی راہ ہے۔ طویل صبر ، اور صبر کی آزمائش سب سے پہلے اس خواہش میں ہوتی ہے ، جو بہت شدید ہوتی ہے کہ دعوت جلدی کامیاب ہوجائے۔ نصرت جلدی آجائے ، نصرت کے نشانات بھی نہ ہوں لیکن داعی صبر ، استقامت اور تسلیم ورضا سے کام کیے جارہا ہو۔ اور ان مشکلات ، روگردانیوں اور کبر و لاپرواہی کے جواب میں رسول اللہ صرف یہ کہتے ہیں۔

وویل للمشرکین۔۔۔۔۔ ھم کٰفرون (41: 6 تا 7) ” تباہی ہے ان مشرکون کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں “۔ اس مقام پر زکوٰۃ کے ذکر کی کوئی مناسبت ہوگی ، کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں آیا ، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ سن دوہجری میں مدینہ میں فرض ہوئی۔ اگرچہ اصولا مکہ مکرمہ میں بھی معروف تھی۔ مدینہ میں فرضیت کے ساتھ نصاب بھی مقرر ہوگیا ۔ اور اسے معین فرض وصول کیا جانے لگا۔ مکہ میں یہ ایک عام کام تھا۔ لوگ رضا کارانہ طور پر زکوٰۃ دیتے تھے۔ اس کی کوئی حد نہ تھی اور ادائیگی دینے والے کے ضمیر پر چھوڑدی گئی تھی۔ کفر بالاخرۃ تو وہی کفر ہے جس کے نتیجے میں انسان دائمی تباہی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں زکوٰۃ سے مراد ایمان لانا اور شرک سے پاک ہونا لیا ہے۔ یہ مفہوم بھی رد نہیں کیا جاسکتا ، ایسے حالات میں اس کا احتمال ضرور ہے۔

اب داعی حق ان کو یہ بتانے کے لیے کہ کفر وشرک کا ارتکاب کرکے وہ کس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کو اس کائنات کی سیر کراتے ہیں کہ ذرا تم زمین و آسمانوں پر مشتمل اس عظیم کائنات پر غور تو کرو ، کہ تم اس کے مقابلے میں کس قدر چھوٹے ہو ، کس قدر کمزور ہو ، یہ سیر اس لیے کرائی جاتی ہے کہ ذرا وہ اللہ کی بادشاہت کو بھی دیکھ لیں جس کا وہ انکار کرتے ہیں کیونکہ انسان بھی فطرت کائنات کا ایک نہایت ہی حقیر جزء ہے اور تاکہ وہ ان کو بتائیں کہ اس دعوت کی طرف تم نہایت ہی تنگ زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہو ، تم صرف یہ دیکھ سکتے ہو کہ ہمچو مادیگرے نیست۔ تم تو صرف اپنے آپ کو اور حضرت محمد ﷺ کی ذات کو دیکھتے ہو اور تم یہ سوچتے ہو کہ محمد ابن عبداللہ کو اگر مان لیا تو وہ بلند مقام پر فائز ہوجائے گا۔ تمہیں تو یہ تنگ نظری اس عظیم حقیقت کے دیکھنے سے روکے ہوئے ہے جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے ہیں ، جس کی تفصیلات قرآن کریم میں درج ہیں۔ یہ حقیقت جس کا تعلق آسمانوں ، زمین ، انسان ، پوری انسانی تاریخ اور اس عظیم سچائی کے ساتھ ہے جو زمان ومکان سے وراء ہے۔ اور جسے اس کائنات کے نقشے میں رکھا گیا ہے :

آیت 1 { حٰمٓ۔ ”حٰ ‘ مٓ۔“

فرماتا ہے کہ یہ عربی کا قرآن اللہ رحمان کا اتار ہوا ہے۔ جیسے اور آیت میں فرمایا اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ اور آیت میں ہے روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لئے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے، اس کی آیتیں مفصل ہیں، ان کے معانی ظاہر ہیں، احکام مضبوط ہیں۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں جیسے اور آیت میں ہے (كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ۙ) 11۔ ھود :1) ، یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم وخبیر اللہ جل شانہ کا لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز۔ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔ حکیم وحمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں۔ یہ ایک طرف مومنوں کو بشارت دیتا ہے۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے۔ کفار کو ڈراتا ہے۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں، پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں۔ مسند عبد بن حمید میں حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعرو شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں۔ (یعنی آنحضرت ﷺ جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کردیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں۔ چناچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر حضور ﷺ کے پاس آیا۔ آکر کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبد اللہ ؟ (یعنی آپ کے والد صاحب) آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبد المطلب ؟ حضور ﷺ اس پر بھی خاموش رہے۔ وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کردیا۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے۔ قریشیوں میں کاہن ہے۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آجائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کردینا چاہتا ہے، سن ! اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کردیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو حضور ﷺ نے فرمایا بس کہہ چکے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اب میری سنو ! چناچہ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اسی سورت کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع (مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ) 41۔ فصلت :13) تک پڑھا اتنا سن کر عتبہ بول پڑا بس کیجئے آپ کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ عتبہ نے کہا سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا ؟ عتبہ نے جواب دیا کہ میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا۔ بغوی بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کردیا۔ اس پر ابو جہل نے کہا کہ قریشیو ! میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد ﷺ کی طرف جھک کیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں۔ اسے ٹھیک کرلوں گا۔ وہاں جا کر ابو جہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آگیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے۔ حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کرکے تیری حالت ٹھیک کردیں۔ تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے۔ اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد ﷺ کی کیا غرض ہے ؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا۔ وہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے آیت (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ) 41۔ فصلت :13) ، تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد جھوٹے نہیں۔ سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریقے پر ہے اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی۔ اور آنحضرت ﷺ خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد ﷺ کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کرلیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ حضرت حمزہ مسلمان ہوچکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہوگئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی۔ سب قریشی اس پر رضامند ہوئے۔ یہ حضور کے پاس آیا اور کہنے لگا برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں اس نے کہا سنو اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو۔ اور اگر آپ کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کرلیتے ہیں۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں، اور اگر آپ کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کرکے آپ کا علاج کراتے ہیں۔ ایسا ہوجاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آجاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔ اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا اپنی سب بات کہہ چکے ؟ کہا ہاں فرمایا اب میری سنو۔ وہ متوجہ ہوگیا آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا فرمایا ابو الولید میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے۔ عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔ واللہ ! نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے۔ سنو قریشیو ! میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کرلو۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آجائیں گے اگر وہ اس پر غالب آگئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے۔ یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابو الولید قسم اللہ کی محمد ﷺ نے تجھ پر جادو کردیا۔ اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے۔

آیت 1 - سورہ فصیلات: (حم...) - اردو