انما تنذر من۔۔۔۔۔ واجر کریم (36: 11) ” تم تو اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور جو بےدیکھے رحمن سے ڈرے ، اسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو “۔ الذکر سے یہاں قرآن کریم مراد ہے۔ راجع قول یہی ہے۔ وہ شخص جو قرآن کی تابعداری کرے اور رحمن سے بن دیکھے ڈرے ، یہی شخص ڈرانے سے استفادہ کرسکتا ہے۔ گویا یہی شخص ہے جس کے لیے ڈراوا آیا ہے۔ گویا ایسے ہی شخص کے لیے رسول اللہ کو بھیجا گیا ہے۔ اگرچہ رسالت عمومی ہے لیکن دوسرے لوگوں اور ہدایت کے درمیان پردے حائل ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ہدایت اس شخص تک محدود ہوگئی جو قرآن کو مان لے اور بن دیکھے رحمن سے ڈرے۔ ایسے ہی لوگ جب وہ ڈراوے سے استفادہ کرتے ہیں تو وہ خوشخبری کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم (36: 11) ” اسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو “۔ مغفرت ان غلطیوں پر جو واقع ہوگئیں اور ان پر اصرار نہ کیا گیا۔ اور اجر کریم اسلیے کہ یہ شخص غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا رہا۔ اور اللہ کی جانب سے جو یاد دہانی آتی رہی اس کا اتباع کرتا رہا۔ یہ دونوں چیزیں قلب مومن میں باہم دگر لازم و ملزوم ہیں۔ جب بھی کسی دل میں خدا کا خوف پیدا ہو تو انسان خدا کی ہدایات پر عمل شروع کردیتا ہے اور جس نظام زندگی کا اس نے ارادہ کیا اس پر استقامت حاصل ہوجاتی ہے۔
آیت 11{ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ”آپ ﷺ تو بس اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو الذکر ّ قرآن کی پیروی کرے اور غیب میں ہوتے ہوئے رحمٰن سے ڈرے۔“ آپ ﷺ کے انذار سے تو صرف وہی لوگ متاثر ہوسکتے ہیں جو اس قرآن کے پیغام کو سمجھیں ‘ اس کی پیروی کریں اور غیب میں ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے دلوں میں رکھیں۔ { فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ } ”تو ایسے لوگوں کو آپ ﷺ خوشخبری دے دیجیے مغفرت اور باعزت اجر کی۔“