سورہ یٰسین: آیت 8 - إنا جعلنا في أعناقهم أغلالا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ یٰسین

إِنَّا جَعَلْنَا فِىٓ أَعْنَٰقِهِمْ أَغْلَٰلًا فَهِىَ إِلَى ٱلْأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے اُن کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna jaAAalna fee aAAnaqihim aghlalan fahiya ila alathqani fahum muqmahoona

آیت 8 کی تفسیر

انا جعلنا فی اعناقھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فھم لا یبصرون (36: 8 – 9) ” ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں ، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے۔ انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا “۔

ان کے ہاتھ طوقوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پھر یہ ان کی گردنوں کے ساتھ بندھے ہیں اور ان کی ٹھوڑیوں کے نیچے جکڑ دئے گئے ہیں۔ اس طرح ان کے سر مجبوراً اوپر کی طرف اٹھ گئے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے سامنے کی طرف نیچے راستے کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ چونکہ وہ اس بری حالت میں ہیں۔ اس لیے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے آگے بھی ایک دیوار ہے اور پیچھے بھی ایک دیوار ہے۔ اس طرح وہ کسی طرح بھی حق تک پہنچنے کے اہل ہی نہیں رہے۔ یہ کسے ہوئے ہیں لہٰذا دیکھ نہیں سکتے۔ آگے پیچھے دیواریں ہیں جن سے ان کی نظریں پار نہیں ہوسکتیں۔ خود اپنی اپنی نالائقی اور بدعملی کی وجہ سے وہ اس نفسیاتی حالت تک پہنچے ہیں۔

یہ منظر حسی ہے اور بڑا شدید منظر ہے لیکن روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بیشمار لوگ ملتے ہیں جن کے بارے میں انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ یہ لوگ واضح سچائی کو نہیں دیکھ پا رہے۔ لہٰذا ان کے سامنے ایسے پردے اور ایسی دیواریں حائل ہیں کہ وہ ان سے اس پار نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہاتھ پاؤں یوں بندھے ہوئے نہ بھی ہوں اور ان کے سر اوپر کی طرف کس نے بھی دئیے گئے ہوں کہ وہ اوپر ہی کو دیکھ سکتے ہوں ، بلکہ وہ بظاہر صحیح سالم اور آزاد ہوں لیکن ان کی نفسیاتی حالت ایسی ہی ہوتی ہے ، کہ وہ اپنی بصیرت کے ذریعے ہدایت کو نہیں دیکھ پاتے اور دلائل ہدایت اور ان کی سوچ کے درمیان غیر مرئی دیواریں حائل نظر آتی ہیں۔ یہی حالت مکہ کے ان لوگوں کی تھی جنہوں نے قرآن کا استقبال ایسی ہی نفسیاتی حالت کے ساتھ کیا۔ قرآن ان کے سامنے صاف صاف دلائل و نشانیاں پیش کرتا اور وہ انکار پر مصر رہتے۔ پیش کردہ دلائل کے علاوہ قرآن تو بذات خود معجزانہ دلیل اور نشانی تھا جس کے مقابلے میں کوئی صاحب بصیرت انسان نہیں ٹھہر سکتا تھا مگر یہ لوگ انکار پر مصر رہے۔

آیت 8 { اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ } ”ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں ‘ پس ان کے سر اونچے اٹھے رہ گئے ہیں۔“ یعنی ان کی کیفیت اس شخص کی سی ہے جس کی گردن میں طوق پڑا ہو اور وہ طوق اس کی ٹھوڑی کے نیچے جاپھنسا ہو۔ ایسے شخص کے چہرے کا رخ مستقل طور پر اوپر کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ لوگ واضح حقائق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

شب ہجرت اور کفار کے سرخاک۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بدنصیبوں کا ہدایت تک پہنچنا بہت مشکل بلکہ محال ہے۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے ہاتھ گردن پر باندھ دیئے جائیں اور ان کا سر اونچا جا رہا ہو۔ گردن کے ذکر کے بعد ہاتھ کا ذکر چھوڑ دیا لیکن مراد یہی ہے کہ گردن سے ملا کر ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں اور سر اونچے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ بولنے میں ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری چیز کو جو اسی سے سمجھ لی جاتی ہے اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ بات موجود ہے۔ غل کہتے ہی ہیں دونوں ہاتھوں کو گردن تک پہنچا کر گردن کے ساتھ جکڑ بند کردینے کو۔ اسی لئے گردن کا ذکر کیا اور ہاتھوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیئے ہیں اس لئے وہ کسی کار خیر کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے ان کے سر اونچے ہیں ان کے ہاتھ ان کے منہ پر ہیں وہ ہر بھلائی کرنے سے قاصر ہیں، گردنوں کے اس طوق کے ساتھ ہی ان کے آگے دیوار ہے جو حق تسلیم کرنے میں مائع ہے۔ پیچھے بھی دیوار ہے یعنی حق کو ماننے میں رکاوٹ ہے یعنی حق سے روک ہے۔ اس وجہ سے تردد میں پڑے ہوتے ہیں حق کے پاس آ نہیں سکتے۔ گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حق کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ نہ حق کی طرف راہ پائیں۔ نہ حق سے فائدہ اٹھائیں۔ ابن عباس کی قرأت میں فاعشیاناھم عین سے ہے۔ یہ ایک قسم کی آنکھ کی بیماری ہے جو انسان کو نابینا کردیتی ہے۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ رکاوٹ ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہوچکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتادے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں۔ جسے اللہ روک دے وہ کہاں سے روکنا ہٹا سکے۔ ایک مرتبہ ابو جہل ملعون نے کہا کہ اگر میں محمد ﷺ کو دیکھ لوں گا تو یوں کروں گا اور یوں کروں گا اس پر یہ آیتیں اتریں۔ لوگ اسے کہتے تھے یہ ہیں محمد ﷺ لیکن اسے آپ دکھائی نہیں دیتے تھے اور پوچھتا تھا کہاں ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ ایک مرتبہ اسی ملعون نے ایک مجمع میں کہا تھا کہ یہ دیکھو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تابعداری کرو گے تو تم بادشاہ بن جاؤ گے اور مرنے کے بعد خلد نشین ہوجاؤ گے اور اگر تم اس کا خلاف کرو گے تو یہاں ذلت کی موت مارے جاؤ گے اور وہاں عذابوں میں گرفتار ہو گے۔ آج آنے تو دو۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپ کی مٹھی میں خاک تھی آپ ابتداء سورة یٰسین سے لایبصرون تک پڑھتے ہوئے آ رہے تھے۔ اللہ نے ان سب کو اندھا کردیا اور آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے۔ ان بدبختوں کا گروہ کا گروہ آپ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھا اس کے بعد ایک صاحب گھر سے نکلے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے گھیرا ڈالے کھڑے ہو انہوں نے کہا محمد ﷺ کے انتظار میں آج اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس نے کہا واہ واہ وہ تو گئے بھی اور تم سب کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے ہیں۔ یقین نہ ہو تو اپنے سر جھاڑو اب جو سر جھاڑے تو واقعی خاک نکلی۔ حضور ﷺ کے سامنے جب ابو جہل کی یہ بات دوہرائی گئی تو آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا فی الواقع میری تابعداری ان کے لئے دونوں جہاں کی عزت کا باعث ہے اور میری نافرمانی ان کے لئے ذلت کا موجب ہے اور یہی ہوگا، ان پر مہر اللہ کی لگ چکی ہے یہ نیک بات کا اثر نہیں لیتے۔ سورة بقرہ میں بھی اس مضمون کی ایک آیت گذر چکی ہے اور آیت میں ہے (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ) 10۔ یونس :96) ، یعنی جن پر کلمہ عذاب ثابت ہوگیا ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا گو تو انہیں تمام نشانیاں دکھادے یہاں تک کہ وہ خود اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، ہاں تیری نصیحت ان پر اثر کرسکتی ہے جو بھلی بات کی تابعداری کرنے والے ہیں۔ قرآن کو ماننے والے ہیں دین دیکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ایسی جگہ بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر مطلع ہے اور ہمارے افعال کو دیکھ رہا ہے ہے ایسے لوگوں کو تو گناہوں کی معافی کی اور اجر عظیم و جمیل کی خوشخبری پہنچا دے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جو لوگ پوشیدگی میں بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور ثواب کبیر ہے، ہم ہی ہیں جو مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم قیامت کے دن انہیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے۔ جیسے اور مقام پر مردہ دلوں کا ذکر کر کے قرآن حکیم نے فرمایا (اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 17؀) 57۔ الحدید :17) ، جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے ہم نے تمہاری سمجھ بوجھ کے لئے بہت کچھ بیان فرما دیا اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے۔ اگر خیر باقی چھوڑ آئے ہیں تو جزا اور سزا نہ پائیں گے۔حضور ﷺ کا فرمان ہے جو شخص اسلام میں نیک طریقہ جاری کرے اسے اس کا اور اس طریقہ کو جو کریں ان سب کا بدلہ ملتا ہے۔ لیکن ان کے بدلے کم ہو کر نہیں۔ اور جو شخص کسی برے طریقے کو جاری کرے اس کا بوجھ اس پر ہے اور اس کا بھی جو اس پر اس کے بعد کاربند ہوں۔ لیکن ان کا بوجھ گھٹا کر نہیں۔ (مسلم) ایک لمبی حدیث میں اس کے ساتھ ہی قبیلہ مضر کے چادر پوش لوگوں کا واقعہ بھی ہے اور آخر میں (اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12ۧ) 36۔ يس :12) پڑھنے کا ذکر بھی ہے۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام عمل کٹ جاتے ہیں مگر تین عمل۔ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے اور وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد بھی باقی رہے۔ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ گمراہ لوگ جو اپنی گمراہی باقی چھوڑ جائیں۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ہر وہ نیکی بدی جیسے اس نے جاری کیا اور اپنے بعد چھوڑ گیا۔ بغوی بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ اس جملے کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ مراد آثار سے نشان قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی طرف اٹھیں۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں اے ابن آدم اگر اللہ تعالیٰ تیرے کسی فعل سے غافل ہوتا تو تیرے نشان قدم سے غافل ہوتا جنہیں ہوا مٹا دیتی ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اور تیرے کسی عمل سے غافل نہیں۔ تیرے جتنے قدم اس کی اطاعت میں اٹھتے ہیں اور جتنے قدم تو اس کی معصیت میں اٹھاتا ہے سب اس کے ہاں لکھے ہوئے ہیں۔ تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اللہ کی فرماں برداری کے قدم بڑھا لے۔ اسی معنی کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔ " پہلی حدیث " مسند احمد میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں مسجد نبوی کے آس پاس کچھ مکانات خالی ہوئے تو قبیلہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے محلے سے اٹھ کر یہیں قرب مسجد کے مکانات میں آبسیں جب اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے ؟ کیا ٹھیک ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہا ہاں آپ نے دو مرتبہ فرمایا اے بنو مسلمہ اپنے مکانات میں ہی رہو تمہارے قدم اللہ کے ہاں لکھے جاتے ہیں۔ " دوسری حدیث " ابن ابی حاتم کی اسی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس قبیلے نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ بزار کی اسی روایت میں ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے اپنے گھر دور ہونے کی شکایت حضور ﷺ سے کی اس پر یہ آیت اتری اور پھر وہ وہیں رہتے رہے۔ لیکن اس میں غرابت ہے کیونکہ اس میں اس آیت کا اس بارے میں نازل ہونا بیان ہوا ہے اور یہ پوری سورت مکی ہے۔ فاللہ اعلم۔ " تیسری حدیث " ابن جریر میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جن بعض انصار کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے مسجد کے قریب کے گھروں میں آنا چاہا اس پر یہ آیت اتری تو انہوں نے کہا اب ہم ان گھروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ حدیث موقوف ہے۔ " چوتھی حدیث " مسند احمد میں ہے کہ ایک مدنی صحابی کا مدینہ شریف میں انتقال ہوا تو آپ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھا کر فرمایا کاش کہ یہ اپنے وطن کے سوا کسی اور جگہ فوت ہوتا کسی نے کہا یہ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ جب کوئی مسلمان غیر وطن میں فوت ہوتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر وہاں تک کی زمین تک کا ناپ کر کے اسے جنت میں جگہ ملتی ہے۔ ابن جریر میں حضرت ثابت سے روایت ہے کہ میں حضرت انس ؓ کے ساتھ نماز کے لئے مسجد کیطرف چلا میں جلدی جلدی بڑے قدموں سے چلنے لگا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکے ہلکے قدموں سے لے جانے لگے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا میں حضرت زید بن ثابت کے ساتھ مسجد کو جا رہا تھا اور تیز تیز قدم چل رہا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا اے انس کیا تہیں معلوم نہیں کہ یہ نشانات قدم لکھے جاتے ہیں ؟ اس قول سے پہلے قول کی مزید تائید ہوتی ہے کیونکہ جب نشان قدم تک لکھے جاتے ہیں تو پھیلائی ہوئی بھلائی کیوں نہ لکھی جاتی ہوگی ؟ واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کل کائنات جمیع موجودات مضبوط کتاب لوح محفوظ میں درج ہے۔ جو ام الکتاب ہے یہی تفسیر بزرگوں سے آیت یوم ندعوا کی تفسیر میں بھی مروی ہے کہ ان کا نامہ اعمال جس میں خیر و شر درج ہے۔ جیسے آیت (وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ 49؀) 18۔ الكهف :49) ، اور آیت (وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ 69؀) 39۔ الزمر :69) ، میں ہے۔

آیت 8 - سورہ یٰسین: (إنا جعلنا في أعناقهم أغلالا فهي إلى الأذقان فهم مقمحون...) - اردو