سورہ مزمل: آیت 10 - واصبر على ما يقولون واهجرهم... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ مزمل

وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا

اردو ترجمہ

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waisbir AAala ma yaqooloona waohjurhum hajran jameelan

آیت 10 کی تفسیر

اگر یہ روایت صحیح ہو کہ اس سورت کی ابتدائی آیات آغاز بعثت میں نازل ہوئیں تو پھر یہ دوسرا حصہ یقینا قدرے بعد کے زمانے میں نازل ہوا ، جبکہ حضور ﷺ نے علانیہ دعوت کا آغاز کردیا تھا اور مکذبین اور تحریک کے کارکنوں پر دست درازیاں کرنے والے میدان میں آگئے تھے اور یہ لوگ رسول اللہ اور اہل اسلام کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ اور اگر دوسری روایت ہو تو پھر پہلا حصہ بھی اس وقت نازل ہوا جب حضور اکرم ﷺ کو مشرکین اور مکذبین نے دیکھ دینا شروع کردیا اور یہ لوگ دعوت اسلامی کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم تھے۔

بہرحال جو صورت بھی ہو ، قیام اللیل اور ذکر وفکر کے ساتھ صبر کی تلقین کرنا (اور یہ دونوں باتیں بالعموم جمع ہوتی ہیں) تحریک اسلامی کے لئے ایک بہترین زادراہ ہے۔ اور اس راہ کی مشکلات کو صرف انہی ہتھیاروں اور تدابیر کے ذریعے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ راہ بہت طویل اور صبر آزما ہے۔ خواہ انسانی افکار کے میدان کی کشمکش ہو یا میدان جنگ کی ضرب وحرب ہو۔ دونوں مشکل کام ہیں۔ دونوں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔

واصبر ................ یقولون (73:10) ” جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو “۔ کیونکہ یہ لوگ اشتعال انگیز کاروائیاں کرتے تھے اور ناقابل برداشت حد تک ہٹ دھرمی کرتے تھے۔

واھجر ............ جمیلا (73:10) ” اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ “۔ نہ کوئی عتاب ہو اور نہ آپ ان پر غصہ ہوں ، نہ بائیکاٹ ہو اور نہ دشمنی ہو۔ یہ تھا منصوبہ دعوت اسلامی کا پوری مکی زندگی میں۔ خصوصاً مکہ کے ابتدائی زمانے میں۔ محض قلب وضمیر اور دل و دماغ کو اپیل کی جاتی تھی۔ نہایت نرمی سے تبلیغ کی جانی تھی اور صرف کھول کھول کر حقائق بیان کیے جاتے تھے۔

اور ان لوگوں کی دست درازیوں اور تکذیب کا دفاع ذکر الٰہی کے بعد صبر جمیل ہی سے کیا جاسکتا تھا ، اللہ نے ہر رسول کو صبر کا حکم دیا ہے ، اور بار بار دیا ہے۔ پھر اللہ نے ہر رسول کے ساتھیوں اور بعد میں آنے والے مومنین کو بھی صبر کا حکم دیا ہے۔ رسولوں کے زمانوں کے بعد میں بھی جس شخص نے دعوت اسلامی کا بیڑا اٹھایا ہے ، اس کا زادہ راہ صبر ہی رہا ہے۔ اس کا اسلحہ اور سازو سامان صبر ہی رہا ہے۔ صبر بہترین ڈھال اور بہترین اسلحہ ہے۔ صبر ہی بہترین قلعہ اور پناہ گاہ ہے۔ یہ نفس اور اس کی خواہشات کے ساتھ جہاد ہے۔ یہ نفس کی بےراہ رویوں اور خواہشات کے خلاف جہاد ہے۔ یہ نفس کی سرکشی ، جلد بازی اور مایوسی کے خلاف بھی ایک جدوجہد ہے۔ اور دعوت اسلامی کے دشمنوں ، ان کی ریشہ دورانیوں اور اذیتوں کے خلاف بہترین دفاع اور ہتھیار ہے۔ اور یہ بالعموم نفس انسانی کے خلاف بھی ہتھیا رہے۔ یہ نفس بالعموم دعوت اسلامی کی تکالیف اور ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی تدابیر کرتا ہے۔ نفس انسانی مختلف رنگوں اور لباسوں میں اس دعوت کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور سیدھی راہ پر چلنا نہیں چاہتا۔ اور داعی کے لئے اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ ان تمام باتوں پر صبر کرے۔ اور ذکر وصبر دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ہر موقعہ پر جہاں صبر کرنا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی یاد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اور اے پیغمبر یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر صبر جمیل اختیار کرو اور ان کو نہایت ہی شریفانہ انداز میں چھوڑ دو ، ان مکذبین کے لئے مجھے چھوڑدو۔ میں ان کا انتظام خود کرلوں گا۔

آیت 10{ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ”اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے“ { وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا۔ } ”اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے۔“ یہ لوگ آپ ﷺ کے لیے شاعر ‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘ لیکن آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورة الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ } کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ ہوسکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں۔ اگلے بارہ سال کے دوران مکہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل مکہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپ ﷺ ان کو نظرانداز تو کریں ‘ لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔

نبی اکرم ﷺ کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہوجا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے ؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہوگا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہوگا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہوگئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول ﷺ کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول ﷺ کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی ﷺ کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کردیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول ﷺ رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور و بالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور ﷺ بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کرجاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہوجائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہوجاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورة حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔

آیت 10 - سورہ مزمل: (واصبر على ما يقولون واهجرهم هجرا جميلا...) - اردو