انا رارسلنا ............................ رسولا (15) فعصی ................ وبیلا (73:16) ” ہم نے تمہارے پاس اسی طرح ایک رسول بھیجا ہے ، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا ، فرعون نے اس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اسے بڑی سختی سے پکڑ لیا “۔ یوں اختصار کے ساتھ ان کے دلوں کے اندر زلزلہ پیدا کیا جاتا ہے اور ان کو اپنے سخت موقف سے اکھارنے کی سعی کی جاتی ہے جبکہ اس سے قبل پہاڑ کے زلزلہ اور ریزہ ریزہ کردینے کا منظر گزر گیا ہے۔ وہ ہے آخرت کا عذاب اور پکڑ اور یہ ہے دنیاوی پکڑ۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں جو پکڑ بھی ہو تم اس سے کیسے بچ سکتے ہو ؟ خصوصاً قیامت کی پکڑ تو اس قدر شدید ہوگی :
آیت 15{ اِنَّــآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ } ”اے لوگو ! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول ﷺ بھیج دیا ہے تم پر گواہ بنا کر۔“ ہمارا یہ رسول ﷺ دنیا میں تمہارے سامنے اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دے گا اور قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی دے گا ‘ کہ اے اللہ ! میں نے تو تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب اس حوالے سے یہ لوگ خود جواب دہ ہیں۔ { کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔ } ”جیسے کہ ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف بھی ایک رسول۔“ اسی طرح اس سے پہلے ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس بھیجا تھا۔