سورہ مزمل: آیت 19 - إن هذه تذكرة ۖ فمن... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورہ مزمل

إِنَّ هَٰذِهِۦ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَآءَ ٱتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ سَبِيلًا

اردو ترجمہ

یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hathihi tathkiratun faman shaa ittakhatha ila rabbihi sabeelan

آیت 19 کی تفسیر

ان ھذا .................... سبیلا

” یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے ، اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے “۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ بہت ہی آسان ہے۔ ان راستوں کے مقابلے میں جو مشکوک ہیں ، جو ہولناک اور خوفناک ہیں کیونکہ وہ راہ مستقیم ہے۔

یہاں ایک طرف تو اسلام کے ہٹ دھرم مکذبین کے دلوں کے اندر خوف اور زلزلہ پیدا کیا گیا ، دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک اور ضعیف اور قلیل اہل ایمان کی ڈھارس بندھائی گئی ہے کہ اطمینان رکھو اور یقین کرو ، تمہارا رب تمہارے ساتھ ہے ، وہ تمہارے اعدا سے خود نمٹ لے گا۔ بس ان کے لئے ایک قلیل مہلت مقرر ہے ، یہ ایک معلوم وقت ہے ۔ اس کے بعد حق و باطل کا فیصلہ ہوگا ، جب اس فیصلے کا وقت آجائے گا چاہے اس دنیا میں ہو یا آختر میں اور اللہ پھر اپنے دشمنوں سے انتقام لے گا ۔ ان کو فرعون کی طرح غرق کردے گا یا قیامت میں بیڑیاں پہنا کر عذاب جہنم تپائے گا اور سخت عذاب ہوگا۔ یادرکھو کہ اللہ اپنے دوستوں کو بےیارومددگار نہیں چھوڑتا اور اگر دشمنوں کو مہلت دیتا ہے تو وہ بھی ایک وقت تک دیتا ہے۔

اب سورت کا دوسرا حصہ آتا ہے اور یہ پورا حصہ ایک طویل آیت کی صورت میں ہے۔ روایات کے مطابق سورت کے پہلے حصے کے پورے ایک سال بعد نازل ہوا ہے۔

آیت 19{ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌج } ”یقینا یہ ایک یاددہانی ہے۔“ { فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا۔ } ”تو جو کوئی بھی چاہے وہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔“ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین !

پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پالے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کرلے گا، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت (وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ ڰ) 76۔ الإنسان :30) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا، کبھی دن چھوٹا رات بڑی، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورة سبحن میں کی ہے آیت (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا01100) 17۔ الإسراء :110) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور ﷺ نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے (بخاری و مسلم) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورة فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورة فاتحہ نہ پڑھے (پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جاسکے کرلیا کرو، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن ؒ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، میں نے کہا۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور ﷺ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم (یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے و قیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم۔ مترجم) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہوچکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کردیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہے، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور ﷺ ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور ﷺ یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة مزمل کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 19 - سورہ مزمل: (إن هذه تذكرة ۖ فمن شاء اتخذ إلى ربه سبيلا...) - اردو