اس صفحہ میں سورہ Yaseen کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 13 { وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ 7 اِذْ جَآئَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ } ”ان کے لیے آپ ﷺ اس بستی والوں کی مثال بیان کیجیے ‘ جب کہ ان کے پاس رسول آئے۔“
آیت 14 { اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ } ”جب ہم نے بھیجے ان کی طرف دو رسول“ اس بارے میں مفسرین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ دو حضرات ”رسول من جانب اللہ“ نہیں تھے بلکہ کسی ”رسول کے رسول“ تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے وقت کے رسول کسی دوسرے مقام پر موجود ہوں اور انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی خاص بستی کی طرف دعوت کے لیے بھیجا ہو۔ اس بارے میں غالب رائے یہ ہے کہ وہ حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تھے جو آپ علیہ السلام کے حکم سے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر انطاکیہ میں تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ ”رسول کے رسول“ کی اصطلاح ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے ُ حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تو مدینہ واپسی پر آپ ﷺ نے خواتین سے بھی بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور اس کے لیے آپ ﷺ نے حضرت عمر علیہ السلام کو خواتین کے پاس بھیجا۔ چناچہ حضرت عمر علیہ السلام نے خواتین کے مجمع میں آکر فرمایا : اَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ میں اللہ کے رسول ﷺ کا رسول ہوں۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص علیہ السلام نے ایرانیوں کے سامنے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا ”اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا…“ یعنی ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنا نمائندہ بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ بہر حال یہاں یہ دونوں امکان موجود ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بستی میں اللہ نے ایک ساتھ دو رسول مبعوث فرمائے ہوں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ﷺ کو اکٹھے مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو اصحاب کسی رسول کے نمائندے بن کر متعلقہ بستی میں گئے ہوں۔ { فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ } ”پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلادیا ‘ تو ہم نے ان کو تقویت دی ایک تیسرے کے ساتھ“ اس قوم کی طرف سے ان دونوں رسولوں کی تکذیب کے بعد ہم نے ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھی بھیجا۔ { فَقَالُوْٓا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ } ”تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔“
آیت 15 { قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَالا } ”انہوں نے کہا کہ تم نہیں ہو مگر ہم جیسے انسان !“ { وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْئٍلا اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ تَکْذِبُوْنَ } ”اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ‘ تم محض جھوٹ بول رہے ہو۔“
آیت 16 { قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ } ”انہوں نے کہا کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم یقینا تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔“ انہوں نے بستی والوں کی ہٹ دھرمی کے جواب میں کوئی اور دلیل تو نہیں دی۔ البتہ اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر ان کے سامنے اپنے اس یقین اور اذعان کا اظہار کیا کہ ہم اسی کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں۔
آیت 17 { وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ } ”اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے اللہ کا پیغام صاف صاف پہنچا دینے کے۔“
آیت 18 { قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ } ”انہوں نے کہا کہ ہمیں تم سے نحوست کا اندیشہ ہے۔“ یعنی ہم تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں۔ تم نے آکر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کردی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہے کہ اس کی نحوست کہیں ہم پر نہ پڑجائے اور اس کی پاداش میں کہیں ہم خدا کی گرفت میں نہ آجائیں۔ { لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ } ”اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیں گے“ { وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ } ”اور تمہیں ضرور پہنچے گی ہماری طرف سے دردناک سزا۔“
آیت 19 { قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ ”انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے ساتھ ہے۔“ { اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ } ”کیا اس لیے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟“ کیا تم یہ باتیں اس لیے بنا رہے ہو کہ تمہیں نصیحت اور یاد دہانی کرائی گئی ہے ؟ جبکہ یہ نصیحت بھی کوئی نئی اور انوکھی بات سے متعلق نہیں ہے۔ اللہ کی معرفت تو پہلے سے تمہارے دلوں کے اندر موجود ہے۔ ہم تو تم لوگوں کو صرف اس کی یاد دہانی کرانے کے لیے آئے ہیں۔ اسی حقیقت کو سورة الذاریات میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } ”اور تمہارے اپنے اندر بھی اللہ کی نشانیاں ہیں ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ { بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ } ”بلکہ تم حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہو۔“
آیت 20 { وَجَآئَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی } ”اور شہر کے َپرلے سرے سے آیا ایک شخص بھاگتا ہوا“ { قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ } ”اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم ان رسولوں علیہ السلام کی پیروی کرو !“ تم لوگ ان پر ایمان لائو ‘ ان کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت کرو۔
آیت 21 { اتَّبِعُوْا مَنْ لاَّ یَسْئَلُکُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ } ”پیروی کرو ان کی جو تم سے کسی اجرت کے طالب نہیں ہیں اور جو ہدایت یافتہ ہیں۔“ دیکھو ! یہ لوگ تمہیں نصیحت کرنے اور تمہیں راہ راست کی طرف بلانے کے لیے دن رات مشقت کر رہے ہیں ‘ لیکن اس سب کچھ کے عوض وہ تم سے کسی صلے یا اجرت کا مطالبہ نہیں کرتے۔ جبکہ ان کی سیرتیں خود اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ یہ لوگ واقعی ہدایت یافتہ ہیں۔
آیت 22 { وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”اور مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں اس ہستی کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔“ دیکھو ! یہ لوگ جو دعوت دے رہے ہیں وہ یہی تو ہے کہ تم اس اکیلے معبود کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوگوں نے پلٹ کر بھی جانا ہے۔ چناچہ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جو میرا خالق ہے۔
آیت 23 { ئَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً } ”کیا میں اس کے سوا دوسروں کو معبود بنالوں ؟“ کیا میں اس معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں اور دیوی دیوتائوں کی پوجا شروع کر دوں ؟ { اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا وَّلاَ یُنْقِذُوْنِ } ”اگر رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان جھوٹے معبودوں کی سفارش میرے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ وہ مجھے چھڑاسکیں گے۔“
آیت 24 { اِنِّیْٓ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”تب تو میں یقینا بہت کھلی گمراہی میں پڑ جائوں گا۔“ اگر میں معبودِ حقیقی کے ساتھ جھوٹے خدائوں کو شریک کرنے کی حماقت کرلوں جنہیں کسی چیز کا بھی اختیار نہیں تو ایسی صورت میں تو میں سیدھے راستے سے بالکل ہی بھٹک جائوں گا۔
آیت 25 { اِنِّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ } ”میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں ‘ سو میری بات سنو !“ یعنی اللہ کے یہ تینوں رسول علیہ السلام تمہیں توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں تمہاری سمجھ میں آئیں نہ آئیں میں ان کی حقیقت تک پہنچ چکا ہوں۔ اور تم ان کی تصدیق کرو نہ کرو میں تو ان پر ایمان لا چکا ہوں۔ یوں اللہ کے اس بندے نے ڈنکے کی چوٹ اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ یہ سنتے ہی اس کی قوم کے لوگ غصے سے پاگل ہوگئے۔ انہیں ان رسولوں پر تو زیادہ غصہ نہ آیا ‘ کیونکہ وہ باہر سے آئے ہوئے افراد تھے ‘ لیکن اپنی قوم کے ایک فرد کی طرف سے اس ”اعلانِ بغاوت“ کو وہ برداشت نہ کرسکے ‘ چناچہ اللہ کے اس بندے کو اسی لمحے شہید کردیا گیا۔
آیت 26 { قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ } ”کہہ دیا گیا کہ تم داخل ہو جائو جنت میں !“ وہ شخص چونکہ اللہ کی راہ کا مقتول تھا ‘ اس لیے جنت تو گویا اس کے انتظار میں تھی۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوجانے والے خوش قسمت لوگوں کو جنت میں داخلے کے لیے روز حشر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ‘ بلکہ جس لمحے ایسے کسی مومن کی شہادت ہوتی ہے اسی لمحے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ { قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ } ”اس نے کہا : کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا۔“
آیت 27 { بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ } ”وہ جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں شامل کرلیا ہے۔“ ذرا تصور کیجیے ! ادھر جنت کا تو یہ منظر ہے ‘ مگر دوسری طرف دنیا میں اس کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوگی۔ بیوی بچے ہوں گے تو وہ رو رو کر بےحال ہو رہے ہوں گے ‘ والدین ہوں گے تو ان پر غشی کے دورے پڑ رہے ہوں گے۔ غرض بہن بھائی ‘ عزیز و اقارب سب نوحہ کناں ہوں گے کہ اسے اس طرح ناحق قتل کردیا گیا۔ بہرحال ان دونوں جہانوں کے معاملات علیحدہ علیحدہ ہیں ‘ درمیان میں غیب کا پردہ حائل ہے۔ دنیا والوں کو پردہ غیب کی دوسری طرف اس جہان کی کیفیات کا کچھ علم نہیں ‘ جہاں اللہ کا ایک بندہ جنت کے تخت پر بیٹھا کہہ رہا ہے کہ اگر میری قوم کے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اللہ کے ہاں میری کیسی قدر و منزلت ہوئی ہے اور مجھے کیسے کیسے اعزازو اکرام سے نوازا گیا ہے تو وہ میری شہادت پر رنجیدہ و غمگین نہ ہوتے۔